راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی (5) 

  راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی (5) 
  راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی (5) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جی سی یونیورسٹی لاہور کے مورخ کی ہم سفری میں آ گے بڑھوں تو میرا اپنا گوگل میپ ایک اور راستے کی نشاندہی کرنے لگے گا۔ وہ ہے ڈاکٹر اجمل کے دَور میں انگلش کی کلاس میں میرا داخلہ اور پروفیسر صدیق کلیم کے پرنسپل بنتے ہی گورڈن کالج راولپنڈی کو مراجعت۔ اِس پسپائی کا تعلق انتظامی تبدیلیوں سے نہیں، حیدر علی آتش کے اُس عالمِ برگشتہ طالعی سے ہے جس کی فلم اپنی کتاب ’یار سرائے‘ میں دِکھانے کی خاطر ہمدمِ دیرینہ وحید رضا بھٹی کو بطور سائیڈ ہیرو کاسٹ کرنا پڑا۔ صدیق کلیم صاحب کے شاعرانہ رُتبے سے ہٹ کر اب بی اے میں بس انگریزی نثر کے نصاب میں ’مدیر و مولف صدیق کلیم‘ لکھا یاد رہ گیا ہے۔ یا پھر روزوں کی ایک سہ پہر مخملیں ’ٹی کوزی‘ سمیت پرنسپل آفس میں چائے کی جھلک جب یہ طالب علم ہیڈ کلرک کے پاس بیٹھا مائیگریشن فارم پہ دستخط ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ 
 پیشرو پرنسپل ڈاکٹر اجمل کو تاریخ نگار خالد مسعود صدیقی نے گورنمنٹ کالج کا مایہ ناز سابق طالب علم، مقبول استاد اور بیرونِ پاکستان ہمارا معروف ترین نفسیات داں کہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔۔ اوّل اوّل اُس دن جب بخاری آڈیٹوریم کے باہر شعبہء انگریزی کے استاد ڈاکٹر عبدالحمید خیال انگشتِ شہادت بلند کرکے حملہ آور ہونے کے انداز میں ہم سے سینئر اسٹوڈنٹ اور بعد ازاں پی ٹی وی کے مینجنگ ڈائرکٹر اشرف عظیم کو ڈانٹ رہے تھے: ”تونہہ شاعر ایں، میرے اختیار وچ ہووے تے تینوں گولی مار دیاں۔۔ لٹریچر محض اینٹرٹین کرتا ہے۔ مجھے وِزڈم کی تلاش ہو تو مَیں شاعری نہیں پڑھتا، مَیں فزکس، فلسفہ اور تاریخ پڑھتا ہوں۔“ یہ جارحانہ کارروائی عروج پہ تھی کہ عین اُس دم ڈاکٹر اجمل آتے دکھائی دیے اور یوں آگے نکل گئے جیسے کچھ دیکھا نہ ہو، کچھ سُنا نہ ہو۔


 سُننے نہ سُننے اور دیکھنے نہ دیکھنے کا یہ قرینہ براہِ راست شاگردوں نے خوب سمجھا ہوگا۔ مَیں نے تو آرڈنینس کلب واہ میں ایک یومِ آزادی کے موقع پر وفاقی سیکرٹری تعلیم کے طور پہ ڈاکٹر صاحب کی دل نشیں تقریر سُنی جس کا ایک جملہ آج تک ہوش و حواس پہ چھایا ہوا ہے۔ فرمایا: ”جبر کے نتیجے میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ دوسروں سے نفرت پیدا ہوتی ہے، اپنے آپ سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔“ اِسی کلب کے بالمقابل سی بی کالج فار ویمن میں، جہاں میری بہن میمونہ اسٹوڈنٹس یونین کی صدر تھیں، ڈاکٹر اجمل کا اقبال کے فلسفہء خودی پہ خطاب کلاس روم جیسی دلچسپی کا باعث بن گیا تھا۔ ”طلبہ کے لئے اِس کا مطلب ہے ارتکازِ توجہ یا ذات کی مکمل دستیابی۔ جہاں بھی ہوں پوری طرح موجود ہوں۔ یہ نہیں کہ استاد صاحب پڑھا رہے ہیں یا استانی صاحبہ پڑھا رہی ہیں مگر آپ کا دھیان زیبا یا محمد علی کی طرف ہو۔“
 زیرِ نظر تاریخی شخصیات میں اب میرا ’ارتکازِ توجہ‘ پروفیسر فضا الرحمان پہ ہے، جس کی شہادت اِس سلسلہ وار تحریر کے سرقہ شدہ اولین جملے فراہم کر رہے ہیں:”جیسے   1977 ء میں سردیوں کی وہ شام جب گورنمنٹ کالج کے پرنسپل جناب فضا الرحمان نے تدریسی عملے اور پُرانے طلبہ کے لئے عیشائیے کا اہتمام کیا۔ کئی سال کے وقفے سے روایتی سالانہ ڈنر کی بحالی، سنگِ مرمر سے تراشا ہو ا میزبان پروفیسر فضا الرحمان، سپریم کورٹ کے اُس وقت کے ایک پست قد مگر پُرمزاح جج کی نظامت۔ پھر دُور و نزدیک سے آئے ہوئے اور آئی ہوئیں خوش وضع مسافرانِ شوق۔“ آگے ذکر تھا مسعود کھدر پوش کا جن کی اِس پاٹدار پنجابی نے یہ انگلش میڈیم محفل لوٹ لی کہ ”بہنو تے بھراؤ، مَیں آں راوین، تے زبان وی اوہ بولاں گا جہڑی راوی دی زبان اے۔“ مگر  فضا صاحب سے اِس کا تعلق؟ 


 جی ہاں، تعلق ہے۔ اِس لئے کہ مَیں نے سنگِ مرمر کے آدمی کو یہ تینوں زبانیں یکساں متانت سے بولتے ہوئے سُنا ہے۔ پہلے انگریزی کہ جس روز مَیں اپنے پوسٹنگ آرڈر لے کر پہنچا، صدرِ شعبہ پروفیسر رفیق محمود نے یہ شرط لگا دی کہ انگلش ڈپارٹمنٹ کے ایما پہ پرنسپل صاحب کسی امیدوار کے حق میں سیکرٹری ایجوکیشن کو لکھیں اور سیکرٹری اِس پہ عمل کرے۔”سوال الف، ب، ج، د کا نہیں، سوال ایک طریقِ کار کا ہے۔ ہماری مستند روایات کو ہوا بُرد نہیں کیا جا سکتا۔“ پروفیسر رفیق محمود نے یہ زوردار الفاظ میرے اور پرنسپل فضا الرحمان کے سامنے کہے۔ جونہی وہ باہر نکلے، مَیں نے عرض کیا کہ اگر روایت کی بجائے صرف میرٹ پہ عمل ہوا ہے تو یہ میری غلطی تو نہیں۔ ”کوئی غلطی نہیں، آپ جوائننگ رپورٹ دے دیں۔‘‘ فضا صاحب کا انداز ہمیشہ کی طرح د و و ٹوک اور نپا تُلا تھا۔

 یہی نپا تُلا لہجہ اُس روز بھی تھا جب کسی دوست سے باتیں کرتے ہوئے وہ سکالرز گارڈن میں سے گزرے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو ابھی چند دن ہوئے تھے۔ کیا پتا اُن کے الفاظ اِسی کے دُور رس امکانی مضمرات کے بارے میں ہوں۔ "They have set a very bad precedent."۔۔۔ یہاں لفظوں کا چناؤ اور جملے کی ساخت مجھے یہ سوچ کر بھلی لگی کہ فضا الرحمان صاحب معاشیات کی تدریس سے منسلک ہونے سے پہلے کچھ وقت پیشہء وکالت سے وابستہ رہے۔ اِسی لئے سالانہ ڈنر کے موقع پر قیامِ ِ پاکستان کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا تھا:
 "For a brief period of time, he rubbed shoulders with us in the District Courts but, then, sliipped away to the less lucrative but more enlightened profession of education."


 پروفیسر فضا الرحمان کی زبان سے پنجابی اور اردو دو، تین موقعوں پر سُنی مگر اُن  کے متن کی تاثیر انگریزی جیسی تھی۔ انگلش کے انڈر گریجوایٹ اساتذہ سے ایک مِیٹنگ میں جب ہمارے سینئر ساتھی بی۔اے۔ چشتی نے ایک ہی بات تیسر ی دفعہ کی تو پرنسپل نے پنجابی میں کہا: ”ایویں دبائی جاناں ایں، مَیں تیری گَل سمجھ گیا ں۔“ اِسی طرح ایک صبح اپنے کوٹ کے دونوں کالر دائیں، بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور انگلی سے دبائے کالج کا راؤنڈ کر رہے تھے کہ رفیق محمود صاحب پہ نظر پڑ گئی۔ دیکھا کہ اوکسفرڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور کم و بیش اُنہی کا ہم عمر پروفیسر آف انگلش نوجوانوں کی سی جیکٹ اور فلِیٹ بُوٹ پہنے ہوئے ہے۔ پوچھا ”رفیق صاحب، اج میچ کھیڈن آئے او؟“ ”جو تنخواہ مَینوں دیندے او ناں اوہدے وِچ ایہی بُوٹ پا سکنا واں۔“


 اردو میں میرا واحد مکالمہ بھی انڈر گریجوایٹ اساتذہ ہی کی میٹنگ میں ہوا۔ مَیں نے یہ کہہ کر ٹائم ٹیبل میں تبدیلی کی تجویز دی کہ انگلش کی کلاسیں صبح صبح ہوتی ہیں یا سہ پہر کو۔ جوش میں منہ سے نکلا:”سر، دن بھر کے تھکے ہوئے لڑکے اُس وقت کلاس میں سو رہے ہوتے ہیں۔“ ”اُن کو جگانا آپ کا کام ہے۔“ انگریزی میں کہوں تو "The Principal's one-liner closed this chapter" پنجابی ترجمہ ہوگا ”مکُّو ٹھپ دِتا“۔ فضا صاحب کی ریٹائرمنٹ سے پہلے مَیں برٹش کونسل اسکالر شپ پہ برطانیہ جا چکا تھا۔ البتہ اُن کے جانشین ڈاکٹر عبدالمجید اعوان بطور ڈائریکٹر آف ایجوکیشن اُس بورڈ میں تھے جس میں بیشتر سوالات کونسل کے نمائندہ برائے پاکستان اور پنجاب کے سیکرٹری ایجوکیشن بریگیڈئر امین نے کئے۔یہاں سے جی سی کے جی سی یو بننے کی کہانی شروع ہوگی جس کا سہرا ڈاکٹر خالد آفتاب کے سر ہے۔  (جاری ہے)  

مزید :

رائے -کالم -