مصنف،: محمد سعید جاوید
آخری قسط
شام کو میرے کمرے میں استقبالیہ والوں کا فون آیا کہ عبدو نیچے میرا منتظرہے۔ میں کپڑے بدل کر نیچے آیا تو اس کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا۔ وہ دوڑ کر مجھ سے گلے ملا اور عربی انداز میں میرے ماتھے اور چہرے پر بوسے دیئے۔ پھر ہم بیٹھ گئے اور میں نے پچھلے چار پانچ دن کی کارگزاریاں اسے سنائیں۔ وہ میری سیاحتی سرگرمیوں سے بڑا متاثر ہوا۔ میں نے اسے عشائیہ کی دعوت دی اور شرط یہ لگائی کہ جب تک کھانے کا وقت نہیں ہوتا وہ مجھے قاہرہ کے رہے سہے گوشے بھی دکھا لائے۔ وہ مسکرایا اور پھر ہم نے ٹیکسی لی اور اس نے مجھے شہر میں گھمانا اور اپنا لیکچر شروع کر دیا۔ وہ آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا اور مڑ مڑ کر مجھے اپنی طرف متوجہ کرتا اور مختلف جگہوں کے بارے میں تفصیل سے بتاتا رہا، اس کی یہ ادا مجھے بہت اچھی لگی۔ وہ بلاشبہ ایک بہت ہی مؤثر گائیڈ تھا۔
رات گئے ہم نے عبدو کے ہی منتخب کئے ہوئے ایک ریسٹورنٹ میں بہترین کھانا کھایا اور بعدازاں چائے پی۔ عبدو نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور ایک دو کش شیشے کے بھی لگا لئے۔ کوئی 11بجے کے قریب ہم ہوٹل لوٹ آئے اور پھر ہم آخری بار ملے،ہمیشہ کے لئے بچھڑ جانے کے لئے۔ وہ تو چلا گیا لیکن میں بڑی دیر تک بیٹھا اسے سوچتا رہا۔
ہم ہوئے رخصت تو
میرا واپسی کا ٹکٹ سعودی ایئرلائنز کا تھا۔ جب 12 بجے جہاز روانہ ہوا تو موسم صاف ستھرا تھا اور سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ویسے تو ریاض کی براہ راست پرواز کا وقت اڑھائی تین گھنٹے کا تھا لیکن اس فلائٹ نے جدہ سے ہوتے ہوئے ریاض جانا تھا، اس لئے یہ سفر 5گھنٹے سے بھی کچھ اوپر کا ہوگیا۔
جب جہاز سوڈان کے اوپر سے گزر رہا تھا تو نیچے میلوں میں پھیلے ہوئے گھنے جنگلات اور صحرا بڑا خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ ابھی کوئی آدھا گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ یکدم چاروں طرف اندھیرا چھا گیا اور جہاز بُری طرح ڈولنے اور ہچکولے کھانے لگا۔ کھڑکی سے باہر جھانکا تو دور کہیں بجلیاں گرتی نظر آ رہی تھیں۔ مسافروں کے اوسان خطا ہوگئے۔ سیٹ بیلٹ باندھنے کا حکم ہوا۔ میں بھی تو مسافر ہی تھا اس لئے میری حالت بھی کوئی اتنی اچھی نہیں تھی۔ میرے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا۔بعض اوقات تو بجلی کا کوندا کھڑکی کے بالکل ساتھ سے ہی لپکتا اور نیچے کی طرف جاتا ہوا نظر آتا۔ بہت ہی خوفناک منظر تھا۔ میں اس سے پہلے بھی درجنوں مرتبہ ہوائی سفر کرچکا تھا۔ مگر ایسے خوفناک حالات سے کبھی نہیں گزرا۔ جہاز اوپر اٹھتا اور پھر ایک دم بیس پچیس فٹ کا غوطہ لگا کر نیچے کی طرف آجاتا۔ بجلی کی گڑگڑاہٹ کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی اور کھڑکیاں بند ہونے کے باوجود اس کی تیز روشنی کہیں نہ کہیں سے اندر آ جاتی تھی۔ جہاز بُری طرح طوفان میں پھنس چکا تھا۔ ہر کوئی بلند آواز میں کلمے پڑھ رہاتھا اور دُعائیں مانگ رہا تھا۔ بچے منھ پھاڑ پھاڑ کر رو رہے تھے اور انہوں نے ماحول کو اور بھی زیادہ گھمبیر بنا دیا تھا۔
یہ سلسلہ کوئی بیس پچیس منٹ تک جاری رہا اور پھر ایک دم جیسے ہر شے کو قرار آگیا۔ جہاز کی پرواز آہستہ آہستہ ہموار ہوگئی، سیٹ بیلٹ کا اشارہ بھی بجھا دیا گیا۔ جب کھڑکی کھول کر نیچے دیکھا تو جہاز بحیرہ احمرکے نیلے پانیوں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ ہمارا جہاز سعودی عرب کے مقامی وقت کے مطابق 3 بجے جدہ پہنچ گیا یہاں اترنے والے اترے، ہم جہاز میں ہی بیٹھے رہے۔ ریاض جانے والے مسافر اندر آئے اور جہاز ایک مرتبہ پھر ریاض کے لئے پرواز کر گیا۔
7 بجے کے قریب جب میں اپنے ٹھکانے پر پہنچا، تو یوں محسوس ہوا کہ ہفتے بھر کا یہ سفر میرے لیے صدیوں کا سفر بن گیا تھا۔ لگتا تھا کہ میں کسی اور ہی دنیا سے نکل کر واپس اپنے جہان میں لوٹ آیا ہوں۔ جہاں اب فرعونوں اور قدیم مصریوں کی چیخ و پکار اور ان کے گھوڑوں کی ہنہناہٹ بہت پیچھے رہ گئی تھی۔
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں