مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:89
”مجھے یہ فکر بھی لاحق ہے کہ کیا میں جنت میں جا سکوں گا۔“
20۔مجھے موسم کے متعلق بہت فکر ہے۔ میں اپنے روزمرہ معاملات کی منصوبہ بندی تفریحی انداز میں کرتا ہوں، اب مجھے یہ فکر ہے کہ کہیں برف باری نہ شروع ہو جائے۔“
21:”مجھے اپنے بڑھاپے کے متعلق بہت فکر ہے۔ دنیا میں کوئی شخص بھی بوڑھانہیں ہونا چاہتا اورکوئی بھی شخص اس سے مبرا نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس وقت کیا کروں گا جب میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو جاؤں گا اور مجھے اپنے بڑھاپے کے متعلق واقعی بہت فکر ہے۔“
22:”مجھے ہوائی جہاز میں سفر کرنے سے ہمیشہ فکرمندی لاحق ہو جاتی ہے۔ آپ سنتے ہی ہوں گے کہ پرواز کے دوران ہوائی جہاز تباہ ہو جاتے ہیں۔“
23:”مجھے اپنی بیٹی کے متعلق بہت فکر ہے کہ جلد ہی اس کی شادی ہو جائے۔“
24:”میں جب چند افراد کے سامنے یا ان کے دوران موجود ہوتا ہوں تو مجھ سے بات نہیں ہو سکتی، مجھے یہی فکر ہے کہ کیا میں زندگی بھر کسی مجمع کے سامنے تقریر کر سکوں گا کہ نہیں۔“
25:”جب مجھے کسی بات کے متعلق بھی کوئی فکر نہیں ہوتی توپھر بھی میں اس فکر میں مبتلا رہتا ہوں کہ مستقبل میں میرے ساتھ کیا حالات پیش آئیں گے۔“
ہمارے معاشرے میں فکرمندی پر مبنی یہ روئیے اورطرزہائے عمل، عمومی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ بھی اس فہرست کے مطابق خود کی درجہ بندی کر سکتے ہیں کہ آپ کس حد تک روزمرہ معاملات زندگی میں فکرمندی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
بلاشبہ اپنے موجودہ لمحات (حال) کو فکرمندی میں صرف کر دینے سے آپ کی زندگی میں بہت سے مسائل پید اہو جاتے ہیں۔ آپ اپنے قیمتی موجودہ لمحات (حال) کسی تعمیری اور مثبت مقصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے فکرمندی کے لیے صرف کر کے ان موجودہ قیمتی لمحات کی اثرپذیری اور افادیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں معاشرے میں رائج اقدار اور روایات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں جو انسان کو ہر وقت مختلف امور اور معاملات کے ضمن میں فکرمندی میں مبتلا رہنے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔
اپنی زندگی میں سے فکرمندی کے عنصر کو دورکرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی وجوہات پر غور کیا جائے۔ اگر آپ کی زندگی کے زیادہ تر حصے میں فکرمندی کا عنصر موجود رہا ہے تو پھر حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد تاریخی وجوہات ضرور موجود ہیں لیکن فکرمندی کے نقصانات کیا ہیں؟ اس کے وہی نقصانات میں جو ندامت اور شرمندگی کے باعث پید اہوتے ہیں کیونکہ شرمندگی وندامت اور فکرمندی، دونوں احساسات کے باعث انسان اپنی ذات اور شخصیت کو کم تر اور بے وقعت سمجھتا ہے۔ یہ دونوں احساسات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کیونکہ ندامت و شرمندگی کا تعلق ماضی جبکہ فکرمندی کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔