حضرت علیؓ کا مکتوب گورنر مصر کے نام (3)
انتخاب مےں ےہ بھی دےکھنا کہ اگلے حاکموں کے تحت انہوں نے کےا خدمتےں انجام دی ہےں۔عوام کوان سے کتنا فائدہ پہنچاہے اور امانت داری مےں ان کا شہرہ کےسا ہے؟ان باتوں کا لحاظ رکھو گے تو بے شک سمجھاجائے گا کہ تم اللہ کے اپنی رعاےا کے خےر خواہ ہوں۔ہر محکمے کا اےک صدر مقرر کرنا جو محکمے کے تمام کاموں کواپنے ہاتھ مےں رکھے۔تمہارے منشےوں مےں جو عےب ہوگا اور تم اس سے چشم پوشی کرو گے تو وہ عےب خود تمہارا سمجھا جائے گا ۔ تجاراور اہل حرفت کا پورا خےال رکھنا، ان کو بھی جو مقےم ہےں اوران کا بھی جو پھےری کرتے ہےں، کےونکہ ےہ لوگ ملک کی دولت بڑھاتے ہےں ،دوردور سے سامان لاتے ہےں، خشکیوں، ترےوں، مےدانوں ، رےگستانوں ، سمندروں ، درےاﺅں ، پہاڑےوں کو پار کرکے ضرورےات زندگی مہےا کرتے ہےں ۔اےسی جگہوں سے مال ڈھونڈتے ہےں ،جہاں اور لوگ نہےں پہنچتے،بلکہ وہاں جانے کی ہمت بھی نہےں کرسکتے۔
تاجر اور اہل حرفہ:تاجر اور اہل حرفہ امن پسند لوگ ہوتے ہےں ،ان سے شورش وبغاوت کا اندےشہ نہےں ہوتا۔اس پر بھی ضروری ہے کہ پاےہ تخت مےں بھی اور اطراف ملک مےں بھی ان پر نگاہ رکھی جائے ،کےونکہ ان مےں سے اکثر بڑے تنگ دل،بڑے بخےل ہوتے ہےں۔اجارہ داری سے کام لےتے ہےں اور لےن دےن مےں کملی ڈال کر لوٹ لےنا چاہتے ہےں ۔اجارہ داری کی قطعی ممانعت کردےنا، کےونکہ رسول اللہ نےاس سے منع فرماےا ہے ،لےکن ہاں خرےد وفروخت خوش دلی سے ہو۔وزن ےعنی باٹ ٹھےک رہےں۔نرخ مقررہوں۔نہ بےچنے والا گھاٹے مےں رہے نہ مول لےنے والا مونڈا جائے اور ممانعت پر بھی اگر کوئی اجارہ داری کا مرتکب ہوتو اعتدال کے ساتھ اسے عبرت انگےز سزادی جائے پھر اللہ اللہ۔
غرباءمساکےن:ادنیٰ طبقے کے معاملے مےں ےہ لوگ وہ ہےں، جن کا کوئی سہارا نہےں ۔ فقےر، مسکےن ،محتاج،قلاش اور اپاہج ان مےں اےسے بھی ہےں جو ہاتھ پھےلاتے ہےں اوراےسے بھی ہےں جو ہاتھ نہےں پھےلاتے، مگر خراب صورت حال مےں ہےں۔ان لوگوں کے بارے مےں جو فرض خدا نے تمہےں سونپا ہے، اس پر نگاہ رکھنا ،اسے تلف نہ ہونے دےنا۔بےت المال مےں اےک حصہ ان کے لئے خاص کردےنا اور اسلام کی جہاں جو اضافی جائےداد موجود ہے ، اس کی آمدنی مےں ان کا حصہ رکھنا۔ان مےں سے کون دور ہے،کون نزدےک ہے،ےہ نہ دےکھنا، دور نزدےک سب کا حق برابرہے۔اور ہر اےک کے حق کی ذمہ داری تمہارے سر ڈال دی گئی ہے۔دےکھو ،دولت کا نشہ تمہیں ان بےچاروں سے غافل نہ کردے۔اگر تم نے بہت سے اہم کاموں کو پورا کردےا، پھر بھی اس وجہ سے تمہاری معمولی غفلت بھی معاف نہیں کی جائے گی،لہٰذا ان کے ساتھ تکبر سے پےش نہ آنا اور اپنی توجہ سے انہےں محروم نہ کرنا۔
ان مےں اےسے بھی ہوں گے جو تمہارے پاس پہنچ نہےں سکتے۔انہےں نگاہےں ٹھکراتی ہےں اور لوگ ان سے گھنٹ کھاتے ہےں ۔ان کی خبر گےری بھی تمہارا کام ہے۔ان کے لئے بھروسے کے آدمےوں کی خدمات خاص کردےا، مگر ےہ آدمی اےسے ہوں جو خوف خدا رکھتے ہوں اور دل کے خاکسار ہوں۔ےہ لوگ ان بے کسوں کے معاملات تمہارے سامنے لاےا کرےں اور تم وہ کرنا کہ قےامت کے دن تمہےں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ےاد رکھو رعاےا مےں ان غرےبوں سے زےادہ انصاف کا مستحق کوئی نہےں۔مطلب ےہ ہے کہ ہر اےک کا جوحق ہے، پورا پورا ادا کرتے رہنا ، ےتےموں کے پالنے والوں کا بھی خےال رکھنا ہوگا اور ان کا بھی جو بہت بوڑے ہوچکے ہےں۔جن کا کوئی سہارا باقی نہےں ،جو بھےک مانگنے کے بھی لائق نہےں رہے۔ےہ چھوٹی چھوٹی باتےں حاکموں پر بے شک گر اں ہوتی، لےکن پھر بھی سوچنا چاہئے کہ پورے کا پورا حق گراں ہی ہے۔ےہاں خدا حق کوکبھی ان کے لئے آسان کردےتا جو عاقبت کی طلب مےں رہتے ہےں اور اس لئے مشکلات ومکروہات مےں اپنے دل کو مضبوط بنالےتے ہےں ۔ےہ وہ لوگ ہےں ،جن کا ےقےن اس وعدہ الٰہی پر بختہ ہے جو وہ پروردگار اپنے نےک بندوں سے کرچکا ہے۔
فرےادی:اپنے وقت کا اےک حصہ فرےادےوں کے لئے خاص کردےنا۔سب کام چھوڑکر ان سے ملا کرنا ،اےسے موقع پر تمہاری مجلس عام رہے کہ جس کا جی چاہے بے دھڑک چلاآئے۔اس مجلس مےں تم خدا کے نام پر خاکسار بن جاﺅ۔فوجےو،افسروں اور پولےس والوں سے مجلس کو بالکل خالی رکھنا تاکہ آنے والے دل کھول کے اپنی بات کہہ سکےں، کےونکہ مَےں نے رسول اللہ کو باربار فرماتے سنا ہے، اس امت کی بھلائی نہےں ہوسکتی ،جس مےں کمزوروں کو طاقت ورسے پورا حق نہیں دلاےا جاتا۔ےہ بھی ےاد رہے کہ اس مجلس مےں عوام ہی جمع ہوں گے۔اب اگر بدتمےزی سے بات کرےں ےا اپنا مطلب صاف بےان نہ کرسکےں توخفانہ ہونا،برداشت کرلےنا، خبردار! زجروتوبےخ نہ کرنا،تکبر سے پےش نہ آنا۔مےری وصےت پر عمل کرو گے تو خدا تم پر اپنی رحمت کی چادرےں پھےلادے گا اور اپنی فرمانبرداری کا ثواب تمہارے لئے اٹل کر دے گا۔جس کو کچھ دےنا اس طرح کہ وہ خوش ہوجائے اور نہ دے سکنا تو اپنا غذر صفائی سے بےان کردےنا، پھر اےسے معاملات بھی ہےں ،جنہےں خوداپنے ہی ہاتھ مےں تمہےں رکھنا ہوگا۔
اےک معاملہ ےہی ہے کہ عمال حکومت کے ان مراسلوں کا جواب خود لکھا کرنا جو تمہارے منشی نہےں لکھ سکتے۔ اےک معاملہ ےہ ہے جس دن روپےہ آئے اسی دن مستحقوں کو بانٹ دےنا۔اس سے تمہارے دربارےوں کو کوفت تو ضرور ہوگی، کےونکہ ان کی مصلحتےں تقسےم مےں تاخےر وتعوےق چاہےں گی۔روز کا کام روز ختم کردےنا ،کےونکہ ہر دن کے لئے انہی کاکام بہت ہوتاہے۔اپنے وقت کا سب سے افضل حصہ اپنے پروردگار کے لئے خاص کردےنا ،اگر چہ سب وقت اللہ ہی کے ہےں ،بشر طےکہ نےک نےت ہواور رعاےا کو اس نےک نےتی سے سلامتی ملتی ہو۔خدا کےلئے دےن کو خالص کرنے مےں سب سے زےادہ خےال رہے کہ فرائض منصبی بغےر کسی کمی بےش کے کماحقہ بجالائے جائےں۔ےہ فرائض صرف خدا کے لئے خاص ہےں اور ان مےں کسی کا ساجا نہےں ۔دن اور رات مےں اپنا اےک وقت ضرورخدا کے لئے خاص کردےنا اور جو عبادت بھی تقرب الٰہی کے لئے انجام دےنا، اس طرح انجام دینا کہ ہر لحاظ سے کامل ومکمل ہو۔کسی طرح کا کوئی نقص اس مےں رہ نہ جائے،چاہے اس سے تمہارے جسم کو کتنی ہی تکلےف ہو۔(جاری ہے)
امامت:دےکھو،جب امامت کونا تو اےسی امامت نہےں کہ لوگ نماز ہی سے بےزار ہوجائےں اوراےسی امامت بھی نہےں کہ نماز کا کوئی رکن ضائع ہوجائے۔ےادرکھو،نمازےوں مےں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہےں ،تندرست بھی اور بےمار بھی اور ضرورت مند بھی ،رسول اللہ جب خود مجھے ےمن بھےجنے لگے تو مےں نے عرض کےاتھا،ےارسول اللہ ! امامت کسی طرح کرونگا؟،جواب ملاکہ ،تےری نےازوےسی ہو جےسے سب سے کم طاقت رونمازی کی ہوسکتی ہے اور تومومنوں کےلئے رحےم ثابت ہونا۔ےہ بھی ضروری ہے کہ رعاےا سے تمہاری روپوشی کبھی لمبی نہ ہو۔رعاےا سے چھپانا حاکم کی تنگ نظری کی ثبوت ہے۔اس کا نتےجہ ےہ ہوتا ہے کہ حاکم رعاےا کے حالات سے بے خبر ہوجاتاہے ۔جب حاکم رعاےا سے ملنا جلنا چھوڑ دےا ہے تو رعاےا بھی ان لوگوں سے ناواقف ہو جاتی ہے جواس پر دے مےں ہو گئے ہےں۔نتےجہ ےہ ہوتا ہے کہ بڑے لوگ برے بن جاتے ہےں۔اچھائی برائی بن جاتی ہے اور برائی اچھائی ۔حق اور باطل مےں تمےز اٹھ جاتی ہے اور تو کھی بات ہے کہ حاکم بھی آدمی ہوتا ہے اور ان سب باتوں کو جان نہےں سکتاجو اس سے چھپالی جاتی ہےں حق کے سرپر سےنگ نہےں کہ دےکھتے ہی سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ دےا جائے۔
سوچو تو تم دو مےں سے اےک قسم کے آدمی ہوں گے،ےا تو حق کے مطابق خرچ کرنے مےں سخی ہوں گے،اےسے ہوتو تمہےں چھپنے کی ضروری ہی کےا ہے ،حق کی طرف سے جو کچھ تمہارے ذمے واجب ہو چکاہے۔اسے اداکروگے ےا اور کئی نےک کام کرگزرو گے اور ےاپھر تم بخل وضغ کی آزمائش مےں ڈالے گئے ہو تو اس صورت مےں بھی چھپنا غےر ضروری ہے کےونکہ اس قماش کے آدمی سے لوگ بڑی جلدی ماےوس ہوکر خودہی کنارہ کشی اختےار کرلےتے ہےں حالانکہ واقعہ ےہ ہے کہ تم سے لوگوں کی زےادہ تر ضرورتےں اےسی ہوں گی جن سے تم پر کوءبوجھ نہ پڑے گا۔وہ کسی ظلم کی شکاےت لے کر آئےں گے ےا کسی معاملے مےں انصاف کے طالب ہونگے۔تمہےں ےہ بھی سمجھ لےنا چاہےئے کہ حاکم کے دربارےوں اور مصاحبوں مےں خود غرضی ،تعلی زےادتی ،بدمعاملگی ہوا کرتی ہے۔ان کے شرسے مخلوق کو بچانے کی صورت ےہی ہے کہ ان کی برائےوں کے سرچشمے ہی بند کردےئے جائےں۔
خبر دار! کسی مصاحب ےارشتہ دار کو جاگےر نہ دےنا۔اےسا کرو گے تو ےہ لوگ رعاےا پر ظلم کرےں گے۔خود فائدہ اٹھائےں گے اور دنےا و آخرت مےں مخلوق خدا کی بدگوئی تمہارے سرپڑے گی۔حق کسی کے خلاف پڑے اس پر حق ضرورنافذ کرنا چاہےئے،چاہے تمہارا عزےز قرےب ہو ےا غےر اس بارے مےں تمہےں مضبوط اور ثواب خداوندی کا آرزو مند رہنا ہوگا۔حق کا وار خود تمہارے رشتہ داروں اور عزےز ترےن مصاحبوں پر کےو ں نہ پڑے۔خوش دلی سے ےہ گوارا کرنا ہوگا۔
بے شک تم بھی آدمی ہو اور تمہےں خوش دلی سے کوفت ہوسکتی ہے،لےکن تمہاری نگاہ ہمےشہ نتےجے پر رہنی چاہےئے۔ےقےن کرونتےجہ تمہارے حق مےںاچھا ہی ہوگا۔اگر رعاےا کو تم پر کبھی ظلم کا شبہ ہو جائے تو بے دھڑک رعاےا کے سامنے آجانا اور اس کا شبہ دور کردےنا۔اس سے تمہارے نفس کی رےاضت ہوگی۔دل مےں رعاےا کےلئے نرمی پےدا ہوگی اور تمہارے عذرکا بھی اظہار ہوجائے گا۔ساتھ ہی تمہاری ےہ غرض بھی پوری ہوجائے گی کہ رعاےا حق پر استوارہے۔
دےکھو،جب دشمن اےسی صلح کی طرف بلائے جن مےں خدا کی رضا مندی ہوتو انکار نہ کرنا کےونکہ صلح مےں تمہاری فوج کےلئے آرام ہے اور خود تمہارے لئے بھی فکروں سے چھٹکارا اور امن کا سامان ہے لےکن صلح کے بعد دشمن سے خوب چوکس خوب ہوشےار رہنا چاہےئے کےونکہ ممکن سے صلح کی راہ سے اس نے تقرب اس لئے حاصل کےا ہو کہ بے خبری مےں تم پر ٹوٹ پڑے لٰہذا بڑی ہوشےاری کی ضرورت ہے ۔اس معاملے مےںحسن ظن سے کام نہےں چل سکتا اور جب دشمن سے معاہدہ کرنا ےا اپنی زبان اسے دے دےنا تو عہد کی پوری پابندی کرنا۔زبان کا پورا پاس کرنا۔عہدکو بچانے کےلئے اپنی جان تک کی بازی لگادےنا کےونکہ سب باتوں مےں لوگوں کا اختلاف رہا ہے مگر اس بات پر سب متفق ہےں کہ آدمی کو اپنا عہد پورا کرناچاہےئے۔مشرکوں تک نے عہد کی پابندی ضروری سمجھی تھی حالانکہ مسلمانوں سے بہت نےچے تھے اس لئے کہ تجربوں نے انہےں بتادےاتھاکہ عہد شکنی کا نتےجہ تباہ کن ہوتا ہے۔لٰہذا اپنے عہد،وعدے،زبان کے خلاف کبھی نہ جانا۔دشمن سے دغابازی نہ کرنا کےونکہ ےہ خدا سے سر کشی ہے اور خداسے سرکشی بے وقوف وسرکش ہی کےا کرتے ہےں۔
معاہدے
عہد کےا ہے؟ خدا کی طرف سے امن وامان کا اعلان ہے جواس نے اپنی رحمت سے بندوں مےں عام کردےا ہے۔عہدخدا کا حرم سے جس مےں سب کو پناہ ملتی ہے اور جس کی طرف سبھی دوڑتے ہےں ۔خبردار! عہد وپےمان مےں کوئی دھوکہ،کوئی کھوٹ نہ رکھنا اور معاہدے کی عبارت اےسی نہ ہونے دےنا کہ گول مول مبہم ہو،کئی کئی مطلوب اس سے نکلتے ہوں۔اگر کبھی اےسا ہو جائے تو عہددے چکنے کے بعد اےسی عبارت سے فائدہ نہ اٹھا نا اور ےہ بھی ےادرہے کہ معاہدہ ہو چکنے کے بعد اگر اس کی وجہ سے پرےشانی لاحق ہو تو ناحق اسے منسوخ نہ کردےنا۔پرےشانی جھےل لےنا،بد عہدی کرنے سے کہےں بہتر ہے۔بد عہدی پر خداتم سے جواب طلب کر گا اور دنےا وآخرت مےں اس کے مواخذے سے کہےں مفرنہ ہوگا۔
خون ناحق
خبر دار! خون ناحق نہ بہانا کےونکہ خونر ےزی سے بڑھ کر بدانجام،نعمت کا ڈھانے والا مدت کوختم کرنے والا کوئی کام نہےں۔قےامت کے دن جب خداکا دربار عدالت لگے گا تو سب سے پہلے خون ناحق ہی کے مقدمے پےش ہونگے اور خدا فےصلہ کرےگا۔ ےادرکھو ، خونرےزی سے حکومت طاقت ورنہےں ہوتی بلکہ کمزورپڑکرمت جاتی ہے اور ےہ تو کھلی بات ہے کہ قتل عہد مےں تم نہ خدا کے سامنے کوئی عذرپےش کرسکتے ہو نہ مےرے سامنے ،لےکن اگر سزا دےنے مےں تمہارے کوڑے، تکواراور ہاتھ سے نادانستہ اسراف ہوجائے تو حکومت کے غرے مےں مقتول کا خون بہا اس کے وارثوں کے حوالے کرنے سے بازنہ رہنا۔
خبر دار! خود پسندی کا شکار نہ ہونا ۔ نفس کی جوبات پسند آئے اس پر بھروسہ نہ کرنا ۔ خوشامدپسندی سے بچنا کےونکہ شےطان کے لئے ےہ زرےں موقع ہوتا کہ نےکو کاروں کی نےکےوں پر پانی پھےر دے۔
خبردار! رعاےا پر کبھی احسان نہ جتانا۔جو کچھ اس کےلئے کرنا اسے بڑھا چڑھا کہ نہ دکھانا اور وعدہ خلافی بھی کبھی نہ کرنا۔احسان جتانے سے احسان مٹ جاتا ہے۔بھلائی کو بڑھا کر دکھانے سے حق کی روشنی چلی جاتی ہے اور وعدہ خلافی سے خدا بھی ناخوش ہوتا ہے۔اور حق کے بند ے بھی ۔اللہ تعالی فرما چکا ہے ،خدا کو نہاےت ناپسند ہے کہ اےسی بات کہو جونہےں کرتے ہو۔
جلد بازی سے کام نہ لےنا۔ہر معاملے کو اس کے وقت پر ہاتھ مےں لےنا اورانجام کو پہنچا دےنا۔نہ وقت سے پہلے اس کےلئے جلدی کرنا نہ وقت آجانے پر تساہل برتنا۔
اگر معاملہ مشتبہ ہوتو اس پر اصرار نہ کرنا۔روشن ہو تو اس مےں کمزوری نہ دکھانا۔ اصل ےہ ہے کہ ہر کام اس وقت پر کرنا اور ہر معاملے کو اس کی جگہ رکھنا۔ کسی اےسی چےز کو اپنے لئے خاص نہ کرلےنا جس مےں سب کا حق برابر ہے اور نہ اےسی باتوں سے انجان بن جانا جوسب کی آنکھوں کے سامنے ہےں۔خود غرضی سے جو کچھ حاصل کرو گے تمہارے ہاتھ سے چھن جائے گا اور دوسروں کو دے دےا جائے گا۔جلد ہی تمہاری آنکھوں پر سے پردے اٹھ جائےں گے اور مظلوم سے جو کچھ لے چکے ہو ،اس کی دادرسی ہوگی۔
دےکھو !اپنے غصے ،طےش کو اور ہاتھ ،زبان کو قابو رکھنا۔سزادےنے کو ملتوی نہ کردےنا،ےہاں تک کہ غصہ ٹھنڈا ہواجائے۔اس وقت تمہےں اختےار ہوگا کہ جو مناسب سمجوکرو۔مگر اپنے آپ پر قابو نہ پاسکو گے۔جس تک پروردگار کی طرف واپسی کا معاملہ تمہارے خےالات پر غالب نہ آجائے ۔ گزری ہوئی منصف حکومتوں نےک دستوروں، ہمارے نبی کے واقعات اور کتاب اللہ کے فرائض ہمےشہ ےادرکھنا تاکہ اپنی حکومت کے معاملات مےں ہمارے عمل کی پےروی کرسکو۔
حضرت علیؓ نے فرماےا
تمہےں پوری کوشش سے مےری ہداےتوں پر عمل کرنا چاہےئے جو اپنی اس وصےت مےں لکھ چکا ہوں۔مےرا ےہ عہد تم پر حجت ہے اور اس کے بعداپنے نفس کی خواہشوں کا ساتھ دےنے مےں کوئی عذرنہ پےش کرسکوگے۔ مےں اللہ بزرگ وبرتر سے دست بدعا ہوں جس کی رحمت وسےع اور قدرت عظےم ہے۔کہ مجھے اور تمہےں اس راہ کی توفےق بخشے جس مےں اس کی رضامندی اور مخلوق کی بھلائی ہے۔ساتھ ہی بندوں مےں نےک نامی اور ملک کےلئے ہر طرح کی اچھائی ہے اور ےہ کہ اس کی نعمت ہم پر پوری ہو۔اس سے عزت افزائی بڑھتی اور ےہ کہ مےرا اور تمہارا خاتمہ سعادت وشہادت پر ہو۔بے شک ہم اللہ کی طرف رغبت رکھتے ہےں ۔والسلام علیٰ رسول والسلام علی ابن طالب اللہ کا بندہ۔