عمران خان کا تازہ موقف.... لمحہ فکریہ
تحریک ِانصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان کو چاہئے مذاکرات بچانے کے لئے فوراً جنگ بندی کا اعلان کریں طالبان کے ایسے گروپ جو مذاکرات نہیں چاہتے اور فوج کے خلاف کارروائیوں اور دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے خلاف آپریشن کیا جائے، اگر آپریشن کیا جاتا ہے تو سوات طرز کا آپریشن ہونا چاہئے، اور کارروائی سے پہلے وہاں موجود لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے، تاکہ بے گناہ افراد نشانہ نہ بن پائیں، آپریشن سے قبل لوگوں کو نہ نکالا گیا تو مستقبل میں منفی اثرات مرتب ہوں گے اور آپریشن کے دوران نشانہ بننے والے افراد کے رشتے دار حکومت کے خلاف مسلح ہو جائیں گے۔ جس سے دہشت گردی بڑھے گی وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے عمران خان کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے یہ مثبت تبدیلی ہے عمران خان نے قوم کے ساتھ اپنی آواز ملا لی۔ بات چیت کے خواہش مند طالبان کے لئے دروازے کھلے ہیں۔ دوسری جانب خارجہ اور سلامتی کے امور پر وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے شمالی وزیرستان میں مکمل آپریشن پر مشاورت جاری ہے۔ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) نے حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا تھا لیکن طویل عرصے تک یہ سلسلہ شروع ہی نہ ہو سکا۔ اس دوران دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی آ گئی حکومت نے اپنی مذاکراتی کمیٹی بنائی تو طالبان نے بھی اپنی کمیٹی بنا دی دونوں کمیٹیوں کے چند اجلاس ہی ہوئے تھے کہ اس دوران اچانک دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ گئیں اور ان میں سے بعض وارداتوں کا ذمہ طالبان نے قبول بھی کیا، اس صورتِ حال نے سیکیورٹی فورسز کا پیمانہ صبر لبریز کر دیا اور جوابی کارروائی کے طور پر شمالی وزیرستان میں سرجیکل ٹارگٹڈ آپریشن کیا گیا اس دوران مذاکرات کا سلسلہ رک گیا اور حکومت نے موقف اختیار کیا کہ خونریزی کی وارداتیں ہوتی رہیں تو مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ اب بھی وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ جو طالبان مذاکرات کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے دروازے کھلے ہیں۔
طالبان نے حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کے لئے اپنی کمیٹی کے جو پانچ ارکان نامزد کئے تھے ان میں عمران خان بھی شامل تھے۔ لیکن انہوں نے پارٹی کے فیصلے کے مطابق یہ نامزدگی قبول نہ کی تاہم وہ بدستور مذاکرات کی حمایت کرتے رہے ،ابھی کل تک ان کا موقف تھا کہ مذاکرات ہی پہلی ترجیح ہونی چاہئے لیکن لگتا ہے اس دوران پلوں کے نیچے سے جو بہت سا پانی گزرا ہے اس نے عمران خان کو بھی اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جو طالبان دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کے خلاف آپریشن ہونا چاہئے عمران خان کی سوچ کی اس تبدیلی میں طالبان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ انہوں نے جس شخص کو اپنی کمیٹی کے لئے نامزد کیا وہ بھی ان کے رویئے سے مایوس ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ جو طالبان مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوتے ان کے خلاف آپریشن کیا جائے تاہم عمران خان نے اس کے لئے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ آپریشن سے پہلے لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا جائے۔
مذاکرات کے نام پر ماضی میں بہت سا وقت ضائع کر دیا گیا۔ اگر بر وقت مذاکرات نیک نیتی کے ساتھ شروع کر دیئے جاتے اور انہیں بلا وجہ طول نہ دیا جاتا تو وہ مقررہ وقت کے اندر اندر نتیجہ خیز ہو سکتے تھے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ جب پہلے مذاکرات شروع ہونے کی امید پیدا ہوئی تو ڈرون حملہ ہو گیا جس میں حکیم اللہ محسود کی موت واقع ہو گئی تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے موقف اختیار کیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے والے تھے کہ ڈرون حملے کی وجہ سے سبوتاژ ہو گئے ان مذاکرات کا غنچہ بغیر کھلے ہی مرجھا گیا اس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی، مذاکرات کے حامی اور مخالف اپنے اپنے دلائل سے مسلح ہو کر میدان میں کود پڑے۔ دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہیں تو مذاکرات کے مخالفین کے موقف میں شدت آتی چلی گئی، اسی ماحول میں وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بنا دی جس نے طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی سے رابطہ کیا ابتدائی رابطوں کے بعد امید پیدا ہو چلی تھی کہ یہ بیل منڈھے چڑھ جائے گی کہ اچانک دہشت گردی کی وارداتوں نے ایک بار پھر پورے ملک کو لرزا کر رکھ دیا۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کے بعد مذاکرات کے حامیوں کی تعداد بھی تدریجاًکم ہونے لگی اور کہا جانے لگا کہ مذاکرات کا وقت گزر گیا ہے۔ تاہم حکومتی کمیٹی نے چند روز قبل مذاکرات یہ کہہ کر ختم کر دیئے کہ دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہیں تو مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ در اصل ابھی تو مذاکرات شروع بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مذاکرات کے لئے زمین ہموار کی جا رہی تھی کہ یہ سلسلہ درمیان میں ختم کر دینا پڑا، اب صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خان بھی مذاکرات مخالف گروپوں سے سختی سے نپٹنے کی بات کرنے لگے ہیں، یہ ساری صورتِ حال اس سلسلے کو غیر معمولی طور پر طول دینے کا نتیجہ بھی ہے۔ اگر مذاکرات میں سنجیدگی دکھا کر کسی نتیجے پر پہنچ گئے ہوتے تو فریقین کے لئے بہت بہتر ہوتا۔ ہم نے انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر مذاکرات کے مخالف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ جو صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی اسے جوں کا توں نہیں چھوڑا جا سکتا تھا سیکیورٹی فورسز کے قیمتی جوانوںاور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک افسروں کی جانیں ضائع ہو رہی تھیں تو کب تک اس پر خاموشی اختیار کی جاتی؟ چنانچہ شمالی وزیرستان میں سرجیکل آپریشن کر کے بہت سے غیر ملکیوں سمیت دہشت گرد مار دیئے گئے اور اسلحہ کی فیکٹریاں اور ذخائر تباہ کر دیئے گئے۔ اب اگر پھر مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے تو پھر ضروری ہے کہ دہشت گردی کا سلسلہ پہلے کلی طور پر بند ہو، تاکہ معلوم ہو سکے کہ مذاکرات سنجیدگی سے ہو سکتے ہیں عمران خان کے تازہ موقف کے بعد اب طالبان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ایسا نہ ہوا تو مضمرات کی ساری ذمہ داری ان پر ہو گی۔