پاکستان کرکٹ، معین نے مُلک کی عزت نیلام کی؟

پاکستان کرکٹ، معین نے مُلک کی عزت نیلام کی؟
پاکستان کرکٹ، معین نے مُلک کی عزت نیلام کی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے پاس وہ پیغام ابھی تک محفوظ ہے جو 15فروری کو سیر صبح کے ساتھی رانا حنیف صاحب کی طرف سے آیا۔ یہ پاک بھارت کرکٹ میچ سے متعلق تھا اور پنجابی کا پیغام رومن میں تھا ’’اے تے پتہ ای سی‘‘ یعنی پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ پاکستان کی ٹیم ہارے گی۔ اس روز اتوار تھی اور چھٹی کی وجہ سے سیر صبح والی ٹیم مل کر ناشتہ کرتی ہے۔ گپ شپ کے وقت جب ناشتے کے لئے پروگرام بن رہا تھا تو مَیں نے معذرت کر لی اور عرض کیا کہ میچ دیکھوں گا، رانا حنیف، منور مرزا اور خواجہ طارق نے اصرار کیا کہ ناشتہ کے لئے چلیں، سکور تومعلوم ہوتا ہی رہے گا، عرض کیا، کرکٹ سے میری پرانی دلچسپی ہے اور یہ پاک بھارت میچ اور پاکستان ٹیم کا پہلا ہے۔ جب ان کی طرف سے ٹیم کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا تو عرض کیا مجھے کھیل سے دلچسپی ہے۔ دُعا ہے کہ پاکستان جیتے، اگر نہ بھی جیت سکا تو یہ کھیل ہے دونوں میں سے کسی ایک نے تو ہارنا ہے۔ چنانچہ دوست اپنے پروگرام کے مطابق چلے گئے اور ہم نے گھر آ کر جلدی سے نہا لیا اور جم کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے، پہلی گیند سے آخری گیند تک میچ دیکھا، صاحبزادے عاصم اور صاحبزادی سعدیہ چودھری نے بھی ہمارے ساتھ حصہ بٹایا، لیکن وہ اپنے کام بھی کرتے رہے۔عاصم چودھری تو دوستوں کے ساتھ ناشتے اور میچ دیکھنے چلے گئے اور ان کا پروگرام اجتماعی تھا۔
یہ میچ کے اختتام کے بعد کا وقت تھا جب رانا حنیف صاحب کا پیغام موبائل پر آیا کہ دل جلا گیا، قوم بھی مایوس ہوئی۔ الیکٹرونک میڈیا والوں کے لئے بھی مسئلہ بن گیا کہ انہوں نے اپنے پروگراموں کے ذریعے بہت زیادہ جوش پیدا کر دیا تھا اور ایک درمیانے درجہ کی ٹیم کو ایمان کی روشنی اور قوت سے جتانے کی کوشش کر رہے تھے،لیکن قانون فطرت ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرتے جو خود اپنی مدد آپ نہیں کرتے اور ایسا ہی ہوا کہ ٹیم کی غلطیوں نے ہدف بڑھا دیا اور پھر اس کے تعاقب میں محترم یونس خان اور احمد شہزاد نے مہربانی فرما دی۔
اس میچ کے بعد بھی آس نہ ٹوٹی تو نگاہیں ویسٹ انڈیز کے ساتھ میچ پر لگ گئیں اور پھر جو اس میچ میں ہوا اس نے تو شائقین کو اپنا نقصان کرنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلی ویژن توڑنے اور بیمار ہونے کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ابھی یہی مسئلہ زیر بحث تھا کہ ’’بادشاہ گر‘‘ معین خان نے کام دکھا دیا، وہ کیسینو میں جوا کھیلتے پائے گئے۔ محترم کی ویڈیو بھی منظر عام پر آ گئی، ایک پاکستانی عینی شاہد نے بھانڈا پھوڑا کہ حضرت نے وی آئی پی جوا کھیلا، جو 10سے 15ہزار ڈالر تک کا تھا،جبکہ ان کی بیگم نے الگ سے شوق پورا کیا۔ اب معین خان کہتے ہیں کہ وہ کھانا کھانے گئے تھے، دیکھنے اور جاننے والے کہتے ہیں کیسینو میں کھانا کم اور شراب زیادہ ہوتی ہے اور پھر حلال فوڈ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لئے یہ عذر قابل قبول نہیں۔ ویسے اگر معین خان کے نزدیک حلال اور حرام میں کوئی تمیز نہیں تو یہ ان کے اپنے ضمیر کی بات ہے۔
اس سلسلے میں ہم اپنی آپ بیتی بتا سکتے ہیں، جب ہم پہلی بار پاکستان کی سرحد سے باہر نکلے تو کراچی سے ہیتھرو ایئر پورٹ لندن کے لئے برٹش ایئر لائنز کی پرواز تھی، راستے میں کھانے کے وقت جب جہاز کے عملے نے مسافروں کی پسند کے مطابق کھانا دینا شروع کیا تو ہم نے پہلا سوال ہی کیا کہ حلال فوڈ ہے؟ جواب ملا، جی! ہاں، برٹش ائر ویز پاکستان یا دبئی سے یہ سب لیتی ہے۔ جہاز کا مسئلہ تو حل ہوا، لیکن لندن میں مشکل پیش آئی۔ ہم نے اپنے میزبان بھائیوں سے پہلے ہی عرض کر دیا کہ محتاط رہیں گے۔ چنانچہ باہر سے کھانا کھایا تو پاکستانیوں کے ریسٹورنٹ کو ترجیح دی۔ اِسی طرح جب ہم امریکہ گئے تو استاد محترم سید اکمل علیمی ہمیں کنٹکی لے گئے اور کے ایف سی(کنٹکی فرائیڈ چکن) شاپ پر کھڑے ہوئے اور بتایا کہ یہ اصل ابتدائی شاپ ہے جہاں سے کے ایف سی شروع ہوا۔ ہم نے معذرت کر لی کہ مرغ یقیناًذبح نہیں کیا گیا ہو گا۔ اکمل صاحب مان گئے اور ہم وہاں جا کر بھی کے ایف سی سے چکن نہ کھا سکے، سید اکمل علیمی نے یہ بتا کر حیران کیا کہ پاکستان سے آنے والے یہ احتیاط نہیں کرتے اور سب کچھ کھا لیتے ہیں۔ بہرحال ہم نے پانچ چھ ماہ کے قیام میں احتیاط ہی سے کام لیا،جبکہ اکثر واقف کاروں اور دوستوں کو مختلف ریستورانوں سے کھاتے دیکھا وہ احتیاط یا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ شاید معین خان بھی ایسے ہی حضرات میں سے ہوں، جو سب کچھ کھا لیتے ہیں۔
گزشتہ روز محفل دوستانِ سیر صبح میں یہی مسئلہ زیر بحث رہا اور دوسرے پاکستانیوں کی طرح ان حضرات کے بھی دل دُکھے ہوئے تھے۔چودھری صدیق نے تسبیح کا ورد جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’مَیں نے تو اس ٹیم سے کبھی کوئی توقع اور آس نہیں باندھی‘‘۔ گلزار بٹ کا کہنا تھا کہ ہم اندرون لاہور کے رہنے والے ہیں، جہاں بچپن میں گولیوں اور سوڈا واٹر کی بوتلوں کے ڈھکنوں سے کھیلا جاتا تھا اور وہاں بھی شرط لگ جاتی تھی۔ اگرچہ بزرگوں کا خوف موجود ہوتا تھا۔ یہ معین خان خاص طور پر کیسینو گئے، وہاں تو یہی کام ہوتا ہے۔ اب جھوٹ بول کر کیسے جان چھڑا سکتے ہیں؟
پھر یہ کہا گیا کہ پرانے دور میں کھیل باعزت تھا، کھلاڑی اپنے شہر اور اپنے وطن کے لئے کھیلتے تھے، اب اس کھیل میں پیسہ بہت آ گیا اور لالچ نے کھلاڑیوں کو گھیر لیا ہے۔ ان سے اچھے کی امید نہیں، پھر کہا گیا کہ ان کھلاڑیوں کو اتنا تو خیال ہونا چاہئے کہ اس کھیل سے ان کو جو کمائی ہوتی ہے وہ بھی اچھے کھیل کی بنا پر ہے ان کو لالچ چھوڑ کر حب الوطنی کا ثبوت دینا چاہئے۔ پھر ہٹلر کی مثال دی گئی، جس نے ٹیسٹ میچ کا نتیجہ نہ نکلنے کے باعث اپنے مُلک میں کرکٹ کا کھیل ممنوع قرار دے دیا تھا۔
یہ بحث صرف ایک ہی گروہ میں نہیں، جگہ جگہ ہو رہی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کی وجہ سے کرکٹ کا بخار بھی زیادہ ہے، اس لئے جہاں بھی جائیں اِسی پر بات ہوتی ہوئی سنائی دیتی ہے،لوگ تو اب اس کھیل ہی سے بددلی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ایک شائق نے کہا اب اگر قسمت پاکستانیوں کو ورلڈکپ جتا بھی دے تو کسی کو خوشی نہیں ہو گی (اگرچہ یہ ناممکن ہے) لوگ پوچھتے ہیں:تم کو پاکستان نے عزت دی ۔ تم اس پاکستان کی عزت کیوں نیلام کرتے ہو؟

مزید :

کالم -