اعتماد کا بحران
چینی فلسفی کنفیوشس ایک بار کسی شہر سے گزرا تو وہاں حالات بہت خراب تھے۔ شہر کے چند دانشوروں نے کنفیوشس کو گھیر لیا اور شہر کے مکینوں میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے کے لئے اُس سے رہنمائی مانگنے لگے۔ کنفیوشس نے انہیں بتایا کہ بطور قوم زندہ رہنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ خوراک، اسلحہ اور اعتماد۔۔۔ دانشوروں نے پوچھا کہ اگر اِن میں سے کسی چیز کو بااَمرِ مجبوری ترک کرنا پڑے، تو کسے ترک کرنا چاہئے۔ کنفیوشس نے جواب دیا: ’’خوراک‘‘۔ دانشوروں نے پھر پوچھا کہ اگر باقی دو چیزوں میں سے بھی ایک کو چھوڑنا پڑے، تو کسے چھوڑنا چاہئے۔ کنفیوشس نے چند لمحے توقف کے بعد کہا: ’’اسلحہ‘‘۔ کنفیوشس کا جواب سُن کر دانشوروں کی آنکھوں میں سوالات اَمنڈنے لگے، اس سے پہلے کہ کوئی ان سوالات کو زبان پر لاتا، کنفیوشس یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا: ’’قومیں خوراک اور اسلحہ کے بغیر زندہ رہ سکتی ہیں، لیکن اگر اُن میں اعتماد ختم ہو جائے تو اُن کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے‘‘۔
کنفیوشس کی صدیوں پہلے کہی گئی یہ بات مَیں نے فلسفے کے مشہور سکالر ڈاکٹر محمد امین سے سُنی، تو فوراً حالات کا سلسلہ اپنے اردگرد کے حالات سے جُڑ گیا۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش کہ ہمارے پاس خوراک بھی ہے اور اسلحہ بھی، لیکن ہمیں بڑی صفائی کے ساتھ اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے جب ہندوستان کے مسلمان ایک الگ وطن کے لئے جدوجہد کر رہے تھے، تو اُن کے پاس اسلحہ تھا، نہ اقتصادی خوشحالی، صرف اعتماد اور یقین کی طاقت تھی، جس نے انگریزوں اور ہندوؤں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، مگر قیام پاکستان کے بعد ہم اسلحہ اور خوراک کے معاملے میں تو خود کفیل ہو گئے، لیکن دیدہ و نادیدہ ہاتھوں نے ہمیں یقین و اعتماد کی دولت سے محروم کر دیا۔
آج جب مَیں مختلف محفلوں، غیر رسمی ملاقاتوں اور ٹی وی چینلوں پر یہ سنتا ہوں کہ مُلک کا سارا نظام فوج چلا رہی ہے، تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ہماری سیاسی قیادت کو کیا ہو گیا ہے۔ اُس میں اتنی صلاحیت یا اعتماد کیوں نہیں رہا کہ وہ درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔ مانا کہ صورت حال بہت گھمبیر ہے، حالات بہت بگڑ چکے ہیں، مسائل نے چاروں طرف سے گھیراؤ ڈال رکھا ہے، مگر اس کے باوجود فرض تو سیاسی قیادت کا ہی بنتا ہے کہ وہ آگے آئے اور قوم کو منجدھار سے نکالے۔مجھے یقین ہے کہ خود فوجی قیادت کو اس بات کی خوشی نہیں ہو رہی ہو گی کہ وہ ہر سول معاملے میں مداخلت کرے،لیکن حالات کا تقاضا اُسے اس سمت میں لے آتا ہو گا۔ تمام تر حقائق کے باوجود کوئی ذمہ دار فرد اس صورت حال کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ موجودہ نظام عوام کے دُکھوں اور محرومیوں کا مداوا کرنے سے قاصر ہے۔ سب اس نظام کو بچانے کے در پے ہیں، حالانکہ جب عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا تو عوام کی بھرپور حمایت نے یہ فیصلہ دے دیا تھا کہ لوگ حکومت میں نہیں، اس سسٹم میں تبدیلی چاہتے ہیں، جو تمیز بندہ و آقا کی بنیاد پر کھڑا ہے اور جس میں عام آدمی کی شنوائی کا کوئی روزن ہی نہیں رکھا گیا۔ حیرت زدہ کرنے والی بات یہ ہے کہ خود اقتدار اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے مراعات یافتہ لوگ یہ ڈھنڈورا پیٹنے سے باز نہیں آتے کہ عوام کی نہ سُنی گئی تو خونی انقلاب آ جائے گا۔
خونی انقلاب کی بات کو بھی انہوں نے ایک لطیفہ سمجھ رکھا ہے۔ اگر خونی انقلاب کو روکنا ہے تو پھر موجودہ نظام کو بدلنا ہو گا۔ یہ بڑی سیدھی سادی بات ہے، مگر اس طرف کوئی نہیں آتا۔ عوام کو اب حکومتوں یا چہروں کی تبدیلی میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، وہ اس بدبو دار استحصالی نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں، جو روز بروز خونخوار ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی لیڈر شپ اپنے مفادات کو بچانے کے لئے مصلحتوں کا شکار ہے اور اعتماد کی کمی نے اُسے اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اپنا سایہ بھی اسے ڈر اور خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ عوام سے لیڈر شپ کا براہ راست تعلق منقطع ہو چکا ہے، ایسی لیڈر شپ جو خود بیک فٹ پر جا چکی ہو، وہ نظام کے جبر کو کیسے للکار سکتی ہے یا اُس میں تبدیلی کیسے لا سکتی ہے۔
انتظامی، سیاسی اور حکومتی حوالے سے تو ناکامی ہمیں ہر طرف نظر آتی ہے۔ کیا ہم نظریاتی طور پر بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ کیا ہمارا دانشور طبقہ بھی اپنی ناکامی اور کمزوری تسلیم کر چکا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہمارے وہ تمام لوگ، وہ تمام طبقے، جنہیں قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے تھی، مصلحت کوش اور کم ہمت ثابت ہوئے ہیں، بحران اور آفتیں دُنیا میں اور بھی بہت سی جگہ آئیں، مگر اُن سے نمٹنے کے لئے اُن قوموں کے رہنماؤں نے شاندار کردار ادا کرتے ہوئے اپنی قوموں کو نئی زندگی دی۔ ہم کیوں ایسا نہیں کر سکے؟۔۔۔ بھارت جیسا ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا مُلک اپنی سیاسی و سماجی روایات کو اس قدر مضبوط کر گیا کہ وہاں جمہوریت صحیح معنوں میں مستحکم ہو گئی، جبکہ ہم نے چار مارشل لاء دیکھے، آدھا مُلک گنوایا، دہشت گردی کا نشانہ بنے، اپنی معیشت کو تباہ کیا، کرپشن کو ایک حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا، تبدیلی کے نام سے چڑنے لگے، اقبال کے اس پیغام کو بھی بھول گئے، جس میں انہوں نے طرزِ کہن پر اڑنے کو قوموں کی زندگی میں ایک زہر قاتل قرار دیا تھا۔
برسوں پہلے احمد فراز جب ملتان آئے تھے تو سابق ضلعی ناظم پیر ریاض حسین قریشی نے اُن کے اعزاز میں ایک تقریبِ بہر ملاقات رکھی تھی۔ احمد فراز نے اُس تقریب میں ایک واقعہ سنایا تھا۔۔۔۔ صدر ایوب کے زمانے میں روس کا بڑا شہرہ تھا، جس پاکستانی پر روسی ایجنٹ ہونے کا لیبل لگتا، اُس کی شامت آ جاتی۔ انہی دنوں مردان میں ایک کل پاکستان مشاعرہ ہوا، جس میں اردو کے علاوہ پشتو کے شاعروں نے بھی شرکت کی۔ مشاعرے سے پہلے مہمانِ خصوصی صوبائی وزیر محمد ایوب نے تقریر کی اور روس کے ساتھ ساتھ ترقی پسندوں کو بھی مُلک دشمن اور واجب القتل قرار دے ڈالا۔ اُن کی تقریر کے بعد مشاعرہ شروع ہوا تو پہلے پشتو شاعروں کو بلایا جانے لگا۔ انہی میں اجمل خٹک بھی شامل تھے۔ انہوں نے ایک بھرپور مزاحمتی اور انقلابی نظم پڑھی، جس نے مشاعرے میں آگ لگا دی۔ اِسی دوران احمد فراز اور فارغ بخاری کو چٹیں وصول ہوئیں، جن میں انتظامیہ کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ وہ مشاعرہ نہ پڑھیں۔ احمد فراز نے بتایا کہ وہ مشاعرہ پڑھے بغیر چلے آئے۔ اگلے روز اخبارات سے معلوم ہوا کہ پولیس نے رات ہی کو آپریشن کر کے اجمل خٹک سمیت باغی شاعروں کو گرفتار کر لیا تھا۔
احمد فراز نے بتایا کہ اجمل خٹک پر پولیس نے اتنا تشدد کیا کہ وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے۔ انہیں ایک تاریک کال کوٹھڑی میں بند کیا گیا تھا، جس کا فرش کچا اور مٹی سے اٹا ہوا تھا۔اجمل خٹک پولیس تشدد کے بعد اس حد تک حواس کھو بیٹھے تھے کہ انہیں اپنا نام تک یاد نہیں رہا تھا۔ اُن کی کوٹھڑی کے کچے فرش پر چیونٹیوں نے ایک سوراخ بنا رکھا تھا، جس میں وہ قطار اندر قطار داخل ہوتی تھیں۔ اجمل خٹک جو تنہائی کے باعث ہر وقت ان چیونٹیوں پر نظریں جمائے رکھتے تھے، ایک روز اس جنون میں مبتلا ہو گئے کہ وہ بھی ایک چیونٹی ہیں اور انہوں نے بل میں گھسنے کے لئے فرش پر اپنا سر رگڑنا شروع کر دیا، جس سے وہ بُری طرح زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ سنا کر احمد فراز دراصل باور یہ کرانا چاہتے تھے کہ جب ظلم اور جبر کی صورت یہ ہو کہ صرف ایک نظم سنانے پر اس قدر تشدد کیا جائے کہ انسان حواس کھو بیٹھے تو بڑے بڑوں کے پاؤں میں لرزش آ ہی جاتی ہے۔ جس مُلک کی تاریخ میں ایک نظم سنانے پر انسان سے چیونٹی بنانے کی روایت موجود ہو، وہاںیقیناًانقلاب کی باتیں کرنے والے دیوانے اور فرزانے خال خال ہی نظر آتے ہیں،ایسے بند معاشروں میں سچائی کبھی پنپ نہیں سکتی، وہاں صرف حکومتیں بنانے یا ختم کرنے کے لئے اتحاد بنتے ہیں اور ہاتھی گرانے کے لئے چیونٹیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔اس کھیل کو چھ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہاتھی مرتے ہیں اور نہ چیونٹیاں باز آتی ہیں۔ اس بے مقصد، بے نتیجہ اور بے جوڑ لڑائی نے ہمیں سوائے ناامیدی، مایوسی اور انتشار کے کچھ نہیں دیا۔۔۔ نجانے یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟