صفدر چودھری کی چند یادیں (1)
13جنوری2018ء کو اسلامک پبلی کیشنز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس جاری تھا کہ عزیزم مدثر ابن صفدر علی چودھری کا فون آیا۔ میں نے فون سنا تو مدثر نے اطلاع دی ’’چچا جان! ابوجی کا انتقال ہوگیا ہے۔
میں نے انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون پڑھ کر پوچھا: ’’کس وقت؟‘‘ اس نے بتایا کہ طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ ہم منصورہ ہسپتال لے کر آئے، مگر پہنچتے ہی ابوجی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اب ہم میت لے کر واپس محافظ ٹاؤن جارہے ہیں۔
اللہ کی قدرت ہے کہ زندگی کا بیش تر وقت منصورہ میں گزرا اور آخری سانس بھی منصورہ میں مقدر ہوا۔ وَّمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (لقمان31:34)
مجلس میں موجود تمام رفقا صفدر علی صاحب کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے۔ جناب چودھری محمداسلم سلیمی صاحب، جناب لیاقت بلوچ صاحب، جناب امیرالعظیم صاحب، جناب میاں محسن فاروق صاحب، جناب طارق محمود صاحب اور جناب جاوید صاحب سبھی غم زدہ ہوگئے اور مرحوم کے لئے سب کے لبوں پر تحسین وتعریف کے الفاظ کے ساتھ دعائیہ کلمات آگئے۔
اسی وقت محسن فاروق صاحب نے بتایا کہ ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ اوکاڑہ میں بزرگ رکن جماعت علی حسین صاحب کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔
مجلس میں مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ اسی روز بعد نمازِ عشاء دونوں مرحومین کا جنازہ پڑھا گیا اور وہ الوداع کہتے ہوئے اپنے چاہنے والوں کو غم زدہ چھوڑ کر ابدی نیند سوگئے۔ صفدر بھائی کے جاننے والے اور چاہنے والے بے شمار لوگ ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ کس کی کیا کیفیت ہوئی ہوگی، مگر اس سانحۂ ارتحال کے موقع پر جب میں ان کے گھر حاضر ہوا تو پرسکون چہرہ دیکھ کر بے ساختہ فیض یاد آگئے:
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
مرحوم بھائی صفدر علی صاحب کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط بہت ہی قریبی تعلق تھا۔ مرحوم دوست ہی نہیں سگے بھائیوں کی طرح محبت کرنے والے عظیم انسان تھے۔ صفدر صاحب کے آباواجداد ضلع جالندھر میں کاشتکاری کے پیشے سے منسلک تھے۔
چودھری صاحب کے والد دین محمد صاحب کو اللہ نے چھ بیٹوں اور پانچ صاحبزادیوں سے نوازا۔ بھائیوں میں چودھری فتح محمد سب سے بڑے تھے جبکہ صفدر بھائی تمام بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور پورے خاندان کے لاڈلے شہزادے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے اوکاڑہ شہر میں مقیم ہوئے۔ قریبی گاؤں 6ایل آر میں ان کو کچھ زمین الاٹ ہوئی تھی۔ بعد میں ان کے خاندان کو لیّہ میں زمین الاٹ ہوئی تو اس کی آبادکاری کے لئے خاندان کے بیش تر لوگ وہاں نقل مکانی کرگئے۔
صفدر صاحب کی پیدایش 1941ء کی ہے۔ انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز اوکاڑہ میں سرکاری سکول سے کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کرنے کے بعد جامعہ پنجاب میں شعبہ سیاسیات سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایس وی ٹیچر تھے۔
چودھری صاحب کے اپنے بقول: ’’میں نے 1957ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1960ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران ٹیچنگ کورس ’’ایس وی‘‘ پاس کیا پھر 14اکتوبر 1962ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔
1963ء میں میری شادی ہوئی۔ میرا رشتہ طے ہونے اور شادی ہونے میں مولانا مودودی کی مشاورت کا بڑا عمل دخل تھا۔ میری شادی 14اپریل 1963ء کو ہوئی۔ شادی کے بعد میں نے گریجوایشن کی۔ 1968ء میں ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کیا اور اسی سال جماعت اسلامی کا رکن بنا۔‘‘
دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور مقامی سے لے کر صوبائی سطح تک نظامت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ مرکزی شوریٰ کے بھی رکن رہے۔
وہ انتہائی ان تھک، ازحد مخلص اور بے پناہ محبت کرنے والے کارکن اور رہنما تھے۔ جس شخص سے ایک بار ان کی ملاقات ہوئی، ان کا ایسا گرویدہ ہوا کہ زندگی بھر ان کو نہ بھول سکا۔
مجھے پہلی مرتبہ 1964ء میں ٹولنٹن مارکیٹ انارکلی میں نصراللہ شیخ مرحوم کی دکان پر ملاقات کا موقع ملا۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ جناب شیخ محبوب علی مرحوم، چودھری عطاء اللہ، جاوید نواز، سلیم بن امیر، صادق عارف، عبدالحئی احمد مرحوم، ذوالقرنین مرحوم ، محمود حسین اور غالباً محمدرمضان عادل مرحوم بھی تھے۔ ان احباب کی کوئی تنظیمی نشست ناظم اعلیٰ شیخ محبوب علی صاحب کے ساتھ ٹولنٹن مارکیٹ میں واقع چھوٹی سی مسجد میں تھی۔ وہاں سے وہ بھی نصراللہ شیخ صاحب کی دکان پر تشریف لائے۔ (شیخ محبوب علی مرحوم کے حالات ہماری کتاب ’’چاند اور تارے‘‘ صفحہ 75تا 86 میں دیکھے جاسکتے ہیں۔)
چودھری عطاء اللہ صاحب سے میرا رابطہ اس سے قبل ہوچکا تھا۔ میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں سیکنڈ ایئر میں پڑھتا تھا اور جناح ہاسٹل میں مقیم تھا۔
جب میں فرسٹ ائیر میں تھا تو عطاء اللہ صاحب (ناظم لاہور) مجھے وہیں ہاسٹل میں آکر ملے تھے اور میں جمعیت کا رفیق بن گیا تھا۔ پروفیسرعطاء اللہ چودھری صاحب میرے پہلے ناظم تھے۔
اللہ ان کو سلامت رکھے۔ ان کی بیٹی طیبہ عطاء اللہ جو اسلامی جمعیت طالبات کی سرگرم رکن تھیں 1991ء میں ایک حادثے میں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
عزیزہ طیبہ کے حالات ہم نے اپنی کتاب ’’چاند اور تارے‘‘ صفحہ 70تا74میں لکھے ہیں۔ ناظم لاہور کی طرف سے مجھے اسلامیہ کالج میں نظامت کی ذمہ داری دے دی گئی۔ الحمدللہ چند ہفتوں ہی میں بیس پچیس ساتھی جمعیت کے کارکن اور رفقا بن گئے۔
اسی سلسلے میں جمعیت کے سابقین سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسلامیہ کالج کے میرے ساتھی محمد شفیع بھی میرے ساتھ ہوا کرتے تھے۔
ان کا تعلق نارنگ منڈی کے کسی گاؤں سے تھا۔ ایف اے کے بعد ایسے بچھڑے کہ اس کے بعد ان کا کوئی اتا پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گم ہو گئے۔
اگر زندہ ہیں تو اللہ انھیں سلامت رکھے اور اگر اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائے۔ بہت محنتی اور محبت کرنے والے، مگر انتہائی کم گو اور شرمیلے نوجوان تھے۔
صفدر صاحب اور شیخ محبوب الٰہی صاحب کے علاوہ باقی دوستوں سے پہلے سے شناسائی تھی۔ نصراللہ شیخ صاحب ہمارے مالی معاون تھے اور ان سے اسی سلسلے میں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ صفدر صاحب سے اگرچہ یہ پہلی ملاقات تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مجھ سے یوں ملے جیسے برسوں کا تعلق ہو۔
ان کی اس صفت کا ہر وہ شخص گواہ ہے جس سے ان کی کبھی ملاقات رہی ہو۔ بے تکلفی میں انھوں نے کئی مزاحیہ فقرے بھی بولے جن سے بڑا لطف آیا۔ وہ مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ صفدر صاحب اس وقت تک لاہور شفٹ نہیں ہوئے تھے۔
ناظم اعلیٰ کی آمد پر ان سے ملاقات کی غرض سے لاہور آئے تھے۔ کچھ عرصے بعد صفدر صاحب لاہور منتقل ہوگئے اور جامعہ پنجاب میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
اس عرصے میں میں نے اسلامیہ کالج سے ایف اے کرکے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔ صفدر صاحب سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ہر ملاقات میں ان سے محبت اور اپنائیت بڑھتی چلی گئی۔
اسی زمانے میں صفدر صاحب علاقہ وسط مغربی پاکستان کے ناظم مقرر ہوئے۔ اس زمانے میں سرکاری طور پر مغربی پاکستان ایک صوبہ تھا۔ اسے چاروں صوبوں کے مجموعے کے طور پر ون یونٹ کہا جاتا تھا۔
علاقہ وسط مغربی پنجاب پر مشتمل جمعیت کا تنظیمی علاقہ تھا۔ کچھ عرصے بعد مجھے صفدر صاحب کے ساتھ معتمد علاقہ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دور میں مرحوم کی مزید خوبیوں کا پتا چلا۔ وہ اپنے آرام سے زیادہ اپنے ساتھیوں کے آرام وراحت کا خیال رکھتے تھے۔
تعارف کرواتے ہوئے اپنے جونیئرساتھیوں کا اتنا ادب واحترام سے ذکر کرتے کہ ان کے ساتھی شرم سار ہورہے ہوتے اور سامعین کے دل میں ان کی قدرومنزلت بڑھ رہی ہوتی۔ جمعیت میں صفدر صاحب کی خدمات کی اس دور میں بڑی اہمیت تھی، کیونکہ مارشل لا کے دور میں جمعیت کو جو دھچکا لگا تھا، اب آہستہ آہستہ اس کے اثرات زائل ہورہے تھے اور جمعیت کی دعوت کافی وسعت پذیر تھی۔
ایسے میں صفدر بھائی جیسے تجربہ کار اور جہاندیدہ قائدین کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے باوجود جمعیت نے ہمیشہ سیدابوالاعلیٰ مودودی کے ہر حکم کو بلا چوں چرا تسلیم کیا۔ اسی کی یہ مثال تھی کہ صفدر صاحب جمعیت سے جماعت میں چلے گئے۔ (جاری ہے)