مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مؤ لا الٰہ اِلاّ ھو
نہ مۂ، نہ شعر، نہ ساقی، نہ شورِ چنگ و رباب!
سکوتِ کوہ و لبِ جوے و لالۂ خود رُو!
گدائے میکدہ کی شانِ بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ توڑتا ہے سبو!
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو!
میں نو نیاز ہوں مجھ سے حجاب ہی اولیٰ
کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو!
اگرچہ بحر کی موجوں میں ہے مقام اس کا
صفائے پا کی طینت سے ہے گہر کا وضو
جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے
نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو!
یہ بال جبریل کی نویں غزل ہے۔ پیش نظر غزل میں ساقی کا لفظ مرکزی حیثیت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ ساقی سے مراد جناب محمد رسول اللہﷺ ہیں جن کی لائی ہوئی نورانی تعلیمات نے دنیا میں ہر قسم کے امتیازا ت کو ختم کر دیا، دنیا والوں کو مساوات کا درس دیا۔
جب آپ دنیا میں تشریف لائے تو دنیا والوں نے اپنی بشری اور عقلی سوچ کے تحت انسان اور انسانیت کے گرد مختلف حصار قائم کر رکھے تھے اور انسان مختلف طبقات میں بٹ چکا تھا۔ ایک تقسیم مال و دولت کی فراوانی کے حوالے سے تھی۔
ایک تقسیم جاہ و منصب کے سبب قائم ہو چکی تھی۔ ایک تقسیم علاقائی اور وطنیت کی بنیاد پر تھی۔یہی تقسیم لسانیت کی بنیاد پر بھی تھی اور جانے کتنے امتیازات تھے جن کی بنیاد پر پورا معاشرہ تقسیم تھا۔
اسی تقسیم کو تعصبات بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ تعصبات کی عددی تقسیم بہت تھی تاہم ان تمام تعصبات کی اصل بنیاد مال و دولت کی فراوانی ہی تھی۔ علامہ اقبال نے اسی تقسیم کو جامع لفظ من و تو سے تعبیر کیا ہے۔
اسی بات کو علامہ نے پہلے شعر میں بیان کیا ہے:
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مؤ لا الٰہ اِلاّ ھو
یعنی میرے آقا محمدﷺنے ہر قسم کے امتیاز کو ختم کر دیا ہے۔ شعر میں من اپنی برتری کی علامت ہے جو کسی بھی دوسرے وجود کے کم تر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
مراد یہ کہ حضورﷺنے انسانوں کو درس مساوات دیاہے اور کسی بھی لحاظ سے اپنی بڑائی، اپنی برتری کے اظہار کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ اپنی ذات کی برتری کا احساس ہی دل میں کبر پیدا کرتا ہے جو بالآخر شرک کی حدوں کو چھو لیتا ہے۔
آپ نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح طور پر ارشاد فرمایا:
’’لا فضل لعربی علی عجمی ولا عجمی علی عربی ولا احمر علی اسود‘‘
’’کسی عربی کو عجمی پر برتری فضیلت نہیں ہے اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے۔‘‘
بڑائی اور فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ جو شخص جتنا متقی، اللہ سے ڈرنے والا ہے اتنا ہی اللہ کے ہاں صاحب عزت ہے۔ تقویٰ کے علاوہ کوئی برتری، برتری نہیں ہے۔
دوسرے شعر میں علامہ دنیا کے ہر وجود کی نفی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی شے اپنا ذاتی وجود نہیں رکھتی، اگرچہ بظاہر ذاتی وجود تو ہر چیز کا نظر آتا ہے لیکن یہ وجود مستقل نہیں، جو وجود مستقل نہیں وہ لاشیئ ہے۔
اس لیے اصل وجود اللہ کا ہے۔ جو چیزیں وجود میں نظر آتی ہیں وہ نظر کا دھوکہ ہے یا یوں کہیے کہ دنیا کی ہر چیز جس میں انسان سکون تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے حصول میں دن رات سرگرداں ہے، کوشاں ہے وہ سب عارضی فانی ہے۔ اصل وجود اللہ کی ذات کا ہے جس کے حکم و اشارے سے ہر چیز اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
اس لیے علامہ نے فرمایا:
نہ مۂ، نہ شعر، نہ ساقی، نہ شورِ چنگ و رباب!
سکوتِ کوہ و لبِ جوے و لالۂ خود رُو!
مؤ کے معنی شراب۔ ساقی۔ شراب پلانے والا۔ شورِ چنگ و رباب یعنی آلات موسیقی۔ یہ سب چیزیں اپنا وجود رکھتی ہیں اور ان میں طبیعت کے لیے سکون و لذت بھی ہے۔
ان کے مقابل بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا تعلق انسان کی حسیات سے ہے جن کو دیکھ کر انسان سکون حاصل کرتا ہے۔ یعنی پہاڑ کی خاموشی، دریا کا کنارہ اور خود اُگنے والا لالہ کا پھول۔
یہ سب چیزیں وجود رکھتی ہیں۔ انسان ان کی خوبصورتی کو دیکھ کر لذت حاصل کرتا ہے لیکن ان سب چیزوں کی رعنائی عارضی ہے۔ ان سے حاصل ہونے والا سکون و فرحت سب وقتی ہیں، ختم ہونے والے ہیں۔ اصل باقی رہنے والا وجود صرف اللہ کا ہے۔
تیسرے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
گدائے میکدہ کی شانِ بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ توڑتا ہے سبو!
گدائے میکدہ شراب خانے کا فقیر جو ان چیزوں کی اصلیت سے واقف ہے اور ان کی فنائیت کو جانتا اور سمجھتا ہے۔ وہ ان چیزوں میں خود کومحو نہیں کرتا بلکہ ان چیزوں سے بے نیاز ہو کر زندگی بسر کرتا ہے۔
چشمۂ حیواں یعنی وہ چشمہ جہاں آب حیات ملتا ہے یعنی زندگی کا استقلال حاصل ہوتا ہے۔ وہ ان مذکورہ چیزوں میں خود کو فنا نہیں کرتا، اس کے اندر ان چیزوں کے حصول کی آرزو تک پیدا نہیں ہوتی حالانکہ وہ ان تمام دنیوی لذائذ کو دیکھ کر اپنا پیالہ گدائی ہی توڑ دیتا ہے۔
ان چیزوں کے حصول کی خواہش بھی اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی، وہ ان لذائذ دنیوی سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارتا ہے کیونکہ اس کو رسول اکرمﷺکی تعلیمات سے ایسی حیات بخش زندگی حاصل ہو جاتی ہے کہ پھر اسے کسی دنیاوی چیز کی طلب ہی باقی نہیں رہتی۔
چوتھے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو!
مرا سبوچہ یعنی دنیاوی چیزوں کی اصلیت کے حوالے سے میری سوچ، میری پرواز تخیل، بہت گہرا تو نہیں، تاہم بہت غنیمت ہے کیونکہ آج کل کے اہل تصوف اب اتنی سمجھ بوجھ کے حامل بھی نہیں رہے اور تصوف کی خانقاہیں صرف نام کی خانقاہیں رہ گئی ہیں جہاں سے انسان کو روحانی بالیدگی تخیل کی اعلیٰ بلندی کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔یہ اصلاً مجاور رہ گئے ہیں۔ ان میں صالح اعمال کی بلندی پاکیزگی فکر باقی نہیں ہے۔
پانچویں شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
میں نو نیاز ہوں مجھ سے حجاب ہی اولیٰ
کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو!
نو نیاز۔ اطاعت شعاری نیاز مندی
حجاب ہی اولیٰ۔ پردہ داری ہی بہتر ہے
علامہ اپنی فطری کیفیت کو بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں اطاعت شعاری کے اس مقام پر ابھی نہیں پہنچ پایا جو مقصود اصلی ہے۔ میں تو ابھی اس میدان میں نووارد ہوں اس لیے اے اللہ! تیرا مجھ سے حجاب میں رہنا ہی ضروری ہے کیونکہ اگر تو اپنے تمام جلووں سے میرے سامنے ظاہر ہو گیا تو میں خود کو قابو میں رکھنا بھی چاہوں تو نہیں رکھ سکوں گا، اگر میں اپنی قوت ارادی سے اپنے دل کو تھامے بھی رکھوں تو بھی میں اپنی نگاہ کو اپنے قابو میں نہ رکھ سکوں گا اور تیرے عشق و آگہی میں جل کر بھسم ہو جاؤں گا۔
اے اللہ! تیرے جلووں کے تخیل سے ہی میرا دل تو پہلے ہی بے قابو ہے۔ تیری قدرت کے مظاھر مجھے تیری دید کے لیے بے قرار کیے ہوئے ہیں، تو نے خود کو اپنے اظہار سے مخفی رکھا ہوا ہے۔
یہ تیرا اخفائی عمل میرے لیے بہت ضروری نہیں بلکہ انتہائی ضروری تھا کہ تو ابھی خود کو پردہ اخفا ہی میں رکھتا کیونکہ تو نے اگر خود کو ظاہر کر دیا تو میں خود کو سنبھال نہ سکوں گا بلکہ بھسم ہو کر رہ جاؤں گا۔ میری نظر تیرے اصل جلوے کو برداشت نہ کر سکے گی۔
یہ سورج کی ٹکیا تیرے معمولی جلوے کا مظہر ہے۔ میری نظر تو اس کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتی چہ جائے کہ میں تیرے حسن کلی کا بے محابہ مشاہدہ کر سکوں اس لیے تیرا پردہ اخفا میں رہنا ہی میرے لیے فائدہ مند تھا اور ہے۔
اس شعر کا قرآنی محرک سورۃ الاعراف کی یہ آیت ہے۔ فرمایا:
’’قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْاِلَیْکَ طقَالَ لَنْ تَرَانِیْ وَلٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرَانِیْ ج فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًاج فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘(الاعراف: 143/7)
’’موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی اے اللہ! میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ نے جواب میں کہاتو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اصرار ہوا تو اللہ نے فرمایا اچھا پہلے تو اس پہاڑ پر نظر کر پھر تو ممکن ہے مجھے بھی دیکھ لے۔
اللہ نے ایک تجلی ڈالی تو موسیٰ علیہ السلام ہوش گنوا بیٹھے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے۔جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے کہ تیری ذات پاک ہے اور میں تیرے حضور میں توبہ کرتا ہوں اور جوا یمان لانے والے ہیں اُن میں سب سے اوّل ہوں۔‘‘ (جاری ہے)