احد چیمہ کو خوش فہمی لے ڈوبی

احد چیمہ کو خوش فہمی لے ڈوبی
احد چیمہ کو خوش فہمی لے ڈوبی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں میری ایک بار طلبی ہوئی۔ اوہو غلط نہ سمجھیں یہ انکوائری کے سلسلے میں نہیں بلکہ انٹرویو کے لئے ہوئی تھی۔ اتفاق سے یہ دن بھی وہ تھا جب نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا۔

نیب کو ایک میڈیا کنسلٹنٹ کی ضرورت تھی، مجھے بھی اس سلسلے میں بلایا گیا۔ نیب کا دفتر سپریم کورٹ کے بالکل قریب ہے، مَیں نے اپنے دوست خواجہ اقبال سے کہا آج تو سب راستے بند ہوں گے، نیب کے دفتر کیسے پہنچیں گے؟ اُنہوں نے کہا نہیں نیب ہیڈ کوارٹر کو جانے والا راستہ کھلا ہوگا۔

خیر میں وقت سے چند منٹ پہلے وہاں پہنچ گیا۔ ایک سخت مرحلے سے گزر کر انٹرویو کے لئے آنے والوں کو انتظار گاہ میں بٹھایا گیا، موبائل فون لے لئے گئے اور پھر وہاں سے ایک دوسرے کمرے میں لے جایا گیا۔

انٹرویو کا مرحلہ شروع ہوا تو دو افسر اُس کمرے میں آتے، متعلقہ شخص کا نام پکارتے اور پھر اُسے اپنی نگرانی میں لے جاتے۔ میری باری آئی تو یہی کچھ ہوا۔ انٹرویو تیسری منزل پر ہو رہا تھا، جس کے ساتھ ہی چیئرمین نیب کا دفتر تھا۔

جب میں اُن افسروں کے ساتھ راہداری سے گزر رہا تھا تو مختلف کمروں پر نیم پلیٹیں لگی ہوئی تھیں، مَیں نے اُنہیں پڑھنا چاہا تو مجھے دونوں افسروں نے روک دیا اور کہا کہ آپ نظریں سیدھی رکھ کر چلیں۔ اُس وقت مجھے یوں لگا جیسے نیب کا ہیڈ کوارٹر کسی خفیہ ایجنسی کا دفتر ہے۔

حسن اتفاق دیکھئے کہ جب میں اوپر انٹرویو کے بلاوے کا منتظر تھا تو اُسی وقت نوازشریف کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، ساتھ والے کمرے میں جو چیئرمین نیب کے پی اے کا تھا، ٹی وی پر خبر چل رہی تھی۔ مَیں بے دھیانی میں تجسس کے زیر اثر اونچا بول بیٹھا کہ کیا فیصلہ آیا ہے، دو اہلکار بھاگتے ہوئے آئے اور کہا آہستہ بولیں ساتھ چیئرمین نیب بیٹھے ہیں، اُن دنوں قمر الزمان چوہدری چیئرمین تھے۔

مجھے پھر یوں لگا کہ نیب کا ہیڈ کوارٹر خوف و ہراس کا مرکز ہے۔ جب میرا انٹرویو ہو گیا، جو ڈپٹی چیئرمین امتیاز تاجور اور اُن کے پینل نے لیا تو میں نے سیڑھیاں اُتر کر باہر جانے کے لئے جونہی قدم بڑھائے ایک وردی پوش اہلکار بھاگتا ہوا آیا اور کہا سر آپ اکیلے نہیں جا سکتے، ایک منٹ رکیں، آپ کے ساتھ ایک افسر باہر تک چھوڑنے کے لئے جائے گا۔ مَیں اُس کی ’’نگرانی‘‘ میں باہر آیا، اپنا موبائل فون استقبالئے سے لیا اور نیب ہیڈ کوارٹر سے نکل آیا۔


اب میں سوچ رہا تھا کہ جس دفتر میں انٹرویو کے لئے جانے والوں کو بے ’’حال‘‘ کر دیا جاتا ہے، وہاں جو لوگ انکوائری کے لئے طلب کئے جاتے ہیں، اُن کا کیا حال ہوتا ہوگا۔

لیکن ٹھہریئے صاحب، اس ادارے کو بری طرح استعمال کیا گیا، سیاسی مقاصد اور سیاسی دباؤ میں اس کی کارکردگی اس حد تک زوال پذیر ہوئی کہ سپریم کورٹ نے اُسے مردہ قرار دے دیا ہوگا کہ چاروں طرف ہاہاکار مچ جائے گی۔

موجودہ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو منتخب تو حکومت اور اپوزیشن نے کیا تھا، تاہم اب وہ خود ہی پچھتا رہے ہوں گے کہ کس بندے کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے، اپنے ایک ہی چھکے سے نیب نے بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔

احد چیمہ کی گرفتاری پر جیسے ایک زلزلہ سا آ گیا ہے، بہت مضبوط کہلانے والی جمہوریت گویا ایک سرکاری افسر کی گرفتاری کے بعد تھر تھر کانپ رہی ہے۔

نادان دوستوں سے اللہ بچائے، احد چیمہ کی گرفتاری پر اگر اتنا واویلا نہ کیا جاتا، کابینہ کے اجلاس اور سرکاری افسروں کی ہڑتال جیسے حیران کن واقعات نہ ہوتے تو شاید احد چیمہ کو کچھ ریلیف بھی مل جاتا، مگر اب تو وہ اس قدر نمایاں ہو چکے ہیں کہ اُنہیں کوئی بھی آؤٹ آف وے رعایت بڑا طوفان ثابت ہو سکتی ہے۔

کہتے ہیں کہ جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو وہ حماقتوں پر حماقتیں کئے چلا جاتا ہے۔ کوئی ان سرکاری افسروں سے پوچھے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں کیا قانونی طور پر گرفتار کئے گئے کسی ملزم کو اس کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔

اب نوازشریف جتنے مرضی بڑے جلسے کر لیں، سخت بیانات دیں، عوامی ریلیاں نکالیں، کیا اُس سے اُن کی نااہلی ختم ہو سکتی ہے، کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ اس طریقے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، ہرگز نہیں، یہی حال ان سرکاری افسروں کا ہے جو تالابندی کئے بیٹھے ہیں، انہوں نے تو یہ حرکت کرکے بیوروکریسی پر پڑا ہوا پردہ ہی ہٹا دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ قانون کو نہیں مانتے اور کرپشن کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ذرا سوشل میڈیا پر دیکھیں کہ خلقِ خدا اُن کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے، اُنہیں کن القابات سے نوازا جا رہا ہے۔

بیوروکریٹس نے یا تو عوام کو کوئی ریلیف دیا ہو، اُن کے مسائل حل کئے ہوں، اُنہیں اُچھوت نہیں انسان سمجھا ہو، تب تو لوگ اُن کی حمایت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں۔ وہ تو ایک بے رحمانہ دفتری نظام کے گاڈ فادر ہیں، اُن کے تو دفتر میں داخل ہونا ہی عوام کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے۔

جن کا امیج صرف یہ ہے کہ رشوت کے بغیر کام نہیں کرتے، جو ایک ایسے بے حس نظام کے چوکیدار بنے ہوئے ہیں جو عوام کی اذیتیں اور دکھ بڑھاتا ہے کم نہیں کرتا۔

اب اس تاثر کی موجودگی میں یہ افسران جب نیب کے ہاتھوں ایک مبینہ کرپٹ افسر کی گرفتاری پر تالے لگاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں تو اس راز کو خود ہی فاش کر رہے ہوتے ہیں کہ چور کے گواہ جیب کترے بن گئے ہیں۔

اس کا مطلب ہے وہ علی الاعلان یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اُن پر کوئی قانون لاگو نہیں ہونا چاہئے اور وہ جو کر رہے ہیں، اُس پر کسی قسم کی قدغن نہ لگائی جائے، دوسرے لفظوں میں اُنہیں نیب کی دسترس سے بالا کر دیا جائے۔

ان دنوں عزت نفس کا بھی بڑا ذکر ہو رہا ہے۔ پنجاب کابینہ بھی کہہ رہی ہے اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی کہ نیب سرکاری افسروں کی عزت نفس کا خیال رکھے، ویسے تو یہ بڑی اچھی بات ہے، لیکن حتمی سوال یہ ہے کہ یہی افسران جب روزانہ لاکھوں لوگوں کی عزت نفس پامال کرتے ہیں، اُنہیں اپنے دفاتر کے باہر کئی کئی گھنٹے انتظار کراتے ہیں، کوئی بلا اجازت اندر آ جائے تو اُسے چپڑاسی سے کہہ کر باہر نکال دیتے ہیں، تب اُنہیں خیال نہیں آتا کہ اِن پاکستانیوں کی بھی کوئی عزت نفس ہے۔ انہی کے ٹیکسوں سے تمہیں تنخواہ ملتی ہے اور تمہارے سب ٹھاٹھ باٹھ بھی انہی لوگوں کی وجہ سے قائم ہیں۔


عمران خان نے تو احد چیمہ کو طوطا کہا ہے، مَیں تو اُنہیں ہاتھی کہتا ہوں، جس کے پاؤں میں سب کا پاؤں نظر آ رہا ہے اور احد چیمہ کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کی وجہ سے اُن کے جاں نثاروں کی ایک بڑی تعداد سانپ کی طرح لوٹ رہی ہے۔

سرکاری افسران تو پہلے بھی گرفتار ہوتے رہے ہیں، بلوچستان میں سیکرٹری فنانس تک گرفتار ہو چکا ہے۔ مگر اتنے ماتمی ڈھول نہیں بجے جتنے احد چیمہ کی گرفتاری پر بج رہے ہیں، کسی گئے گزرے ملک میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کس آئینی ادارے نے کرپشن کے الزام میں سرکاری افسر کو پکڑا ہو اور حکومت نے اُسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہو۔

آج تک تو ہم یہی دیکھتے آئے ہیں کہ کسی سرکاری ملازم کو جب نیب، اینٹی کرپشن یا ایف آئی اے نے بدعنوانی کے الزام میں پکڑا تو حکومت نے اُس کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ یہاں نوٹیفکیشن تو کیا جاری ہونا تھا، احد چیمہ کو 19 ویں سے بیسویں گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔

اس ساری مشق کا کیا فائدہ ہوا۔ خادم اعلیٰ کی شخصیت پر حرف آیا، چیف سیکرٹری کے منصب کی توہین ہوئی۔ دفاتر کو تالے لگانے والے افسران عوام کی نظروں میں مزید گر گئے، لیکن احد چیمہ باہر نہیں آیا، بلکہ اُس کے انکشافات پر مزید لوگ اندر جا رہے ہیں، جہاں بیوروکریسی اس کیس کی وجہ سے زیرو پر چلی گئی ہے، اُسی طرح نیب نے ایک ہی جست میں زیرو سے سو تک کے مراحل طے کر لئے ہیں۔

میرا نہیں خیال کہ اب کوئی سرکاری افسر نیب کے بلاوے پر انکار کی جرأت کرے گا، قانون سے خود کو ماورا سمجھنا سب سے بڑی بغاوت ہے، احد چیمہ کو یہی بغاوت لے بیٹھی، وہ اگر نیب کے بلاوے پر پیش ہو جاتے اور کسی زعم کا شکار نہ ہوتے تو شاید اُن کے خلاف تفتیش کسی اور طریقے سے چل رہی ہوتی۔

مگر وہ اس خوش فہمی میں تھے، وزیراعلیٰ کی وہ آنکھ کا تارا ہیں۔ چیف سیکرٹری اُن سے پوچھ کر چلتے ہیں، پنجاب میں اُنہوں نے چن چن کر اپنے گروپ کے افسر لگوائے ہیں، اُن پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔

بھٹو جیسا بڑا لیڈر بھی اس خوش فہمی کا شکار تھا کہ اُنہیں سزائے موت دی گئی تو ہمالیہ روئے گا۔ اس لئے ضیاء الحق یہ قدم اُٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا، لیکن بھٹو زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ کس قدر بے یارومددگار انداز میں اُن کی نماز جنازہ ہوئی اور اُن کی جماعت کے رہنما چوہوں کی طرح بلوں میں گھسے رہے۔ سنا ہے نیب کے پر کاٹنے کے لئے حکومت کوئی آرڈیننس لانا چاہ رہی ہے۔ یہ ایک اور احمقانہ حرکت ہو گی۔

اُسی طرح کی جیسے نااہلی کے باوجود نوازشریف کو پارٹی کا صدر بنانے کے لئے ترمیم کی گئی تھی، جو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دی۔

مزید :

رائے -کالم -