احساس پروگرام اور بلدیاتی انتخابات
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں لیہ میں خواتین میں گائے، بکریاں اور بھینسیں تقسیم کیں، مظفر گڑھ میں انہوں نے ایک سڑک کے افتتاح کے ساتھ طیب اردوان ہسپتال کا فیتہ بھی کاٹا، جس کے بارے میں ن لیگ الزام لگارہی ہے کہ اس ہسپتال کا افتتاح شہباز شریف پہلے ہی کر چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ ہر طرح کے منصوبوں کا فیتہ کاٹتے رہے ہیں، لیکن عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو منصوبوں کا افتتاح کرنے پر نون لیگ وقت کی حکومت کے لتے لیا کرتے تھے اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، وہ منصوبوں کے افتتاح اور فیتے کاٹنے کو شوبازی قرار دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی ساری ترقی صرف اخباروں میں ہے، ن لیگ صرف اشتہارات پر پیسہ بہاتی ہے، نواز شریف اور شہباز شریف فیتے کاٹنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے۔
عمران خان یہ بھی کہتے تھے کہ ہم ان سے جتنے بھی سوال پوچھتے ہیں شریف برادران اتنے زیادہ فیتے کاٹنا شروع ہوجاتے ہیں، مگر اب تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے، تبدیلی کی دعویدار حکومت میں کچھ تبدیل ہو نہ ہو مگر عمران خان ضرور تبدیل ہورہے ہیں، عمران خان شہباز شریف کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے کہ وہ عوام کے پیسوں سے لیپ ٹاپ بانٹ کر خود کی نمائش کرتے ہیں مگر اب عمران خان خود عوام میں گائے، بھینس اور بکریاں بانٹ رہے ہیں، عمران خان اب اہم لیکن چھوٹے چھوٹے منصوبوں کا افتتاح خود کرتے ہیں، وزیراعظم عمران خان ایسے ایسے منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں جن کے افتتاح پر وزیراعظم کل تک تنقید کرتے تھے، ایک لنگر خانہ بھی کھولنا ہو یا سالن کی پلیٹ بانٹنی ہو تو وزیراعظم خود لنگر خانے پہنچ جاتے ہیں، کسی ٹرین یا نئے روٹ کا افتتاح کرنا ہو، کسی نہر کی تعمیر کا افتتاح ہو یا کسی پناہ گاہ کی اوپننگ کی فیتہ کانٹنا ہو تو عمران خان خود فیتہ کانٹنے حاضر ہوجاتے ہیں، محض ایک ماڈل پولیس اسٹیشن کا افتتاح بھی کرنا ہو تو عمران خان موقع ضائع نہیں کرتے، اس میں کوئی شک نہیں کہ لنگر خانہ ہو یا شیلٹرز ہومز یہ غریب عوام کے مفاد میں ہیں، عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جتنی بھی کوشش کی جائے وہ کم ہے، ہم ایسے منصوبوں اور اقدامات کو سپورٹ کرتے ہیں، لیکن ہماری تنقید ان منصوبوں پر نہیں ہے بلکہ خود عمران خان کے طے کردہ معیار پر ہے جہاں وہ ماضی کی حکومت پر تنقید کرتے تھے، عمران خان اخبار اور ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات پر شہباز شریف کو شوباز شریف کہتے تھے جن میں ان کی تصویر شائع ہوتی تھی مگر اب عمران خان بدل گئے ہیں، عمران خان کے وسیم اکرم پلس یعنی عثمان بزدار وہی کارنامے انجام دے رہے ہیں مگر عمران خان اسے شوبازی نہیں قرار دے رہے، تبدیلی کی حکومت میں عمران خان کے معیار بدل رہے ہیں اور وہ اپنے ہی دعووں سے پیچھے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔
یہ تو ہے وہ تنقید جو اس وقت میڈیا عمران خان پر کر رہی ہے لیکن میڈیا کے یہ حلقے اس بات کو زیر بحث نہیں لا رہے ہیں کہ احساس پروگرام دراصل آئندہ بلدیاتی انتخابات جیتنے کی ایک چال ہے اور حکومت غریبوں کی غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے دراصل اپنے سیاسی عزائم پورا کرنا چاہتی ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس وقت حکومت بری طرح پٹ چکی ہے اور اس کی مقبولیت پاتال کی گہرائیوں میں گری ہوئی ہے اور اوپر سے بلدیاتی انتخابات ہونیو الے ہیں۔ چنانچہ جس تیزی کے ساتھ عمران خان احساس پروگرام کے تحت ایکٹو ہو گئے ہیں اس سے ایک عام سمجھ بوجھ کا انسان بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ یہ تمام تر پاپڑ دراصل بلدیاتی انتخابات کا گراؤنڈ بنانے کے لئے بیلے جا رہے ہیں۔ کیونکہ خواتین کو گائے، بکریاں اور مرغیاں دینے کا پروگرام بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاونڈیشن نے 2016ء میں افریقا میں شروع کیا تھا لیکن وہ پروگرام کامیاب نہیں ہوسکا تھا، پاکستان میں یہ پروگرام کامیاب ہو یا ناکام ہو لیکن پی ٹی آئی کو اس کا کچھ فائدہ ضرور ہوگا!
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ صحت انصاف کارڈ پر پاکستان کے جھنڈے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کا جھنڈا گاڑ دیا گیا ہے، اگر عمران خان نے یوٹیلیٹی سٹورز سے اپنی تصویر ہٹا سکتے ہیں تو صحت انصاف کارڈ سے اپنی پارٹی کا جھنڈا بھی ہٹوائیں وگرنہ عدلیہ کا دروازہ کھلا ہے!