میڈیا کے حالیہ بھاری اور ہلکے پھلکے موضوعات!
گزشتہ دنوں ملک میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن پر ایک سے زیادہ کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ بہت سے حضرات نے اردو اور انگریزی روزناموں میں ان پر طبع آزمائی بھی کی۔
مثلاً اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا چار روزہ دورۂ پاکستان اور ان ایام میں ان کے چند اہم مقامات کے دورے جن کے ڈانڈے پاک بھارت تعلقات سے ملے ہوئے تھے، قابل ذکر ہیں۔ من حیث المجموع مسٹر گوتریس کے بیانات کے بعض حصے بدیہی طور پر اس کہنہ روش کا ریورسل تھے جو ماضی میں ان کے پیشرووں کا وتیرہ بنی رہی۔لیکن ان ایام میں ایک چیز جو میرے نہاں خانہ ء دل و دماغ پر دستک دیتی رہی وہ یہ سوال تھا کہ سیکرٹری جنرل کا پاکستان پر یہ غیر معمولی التفات کیوں ہے اور اس کے پسِ پردہ محرکات کیا ہیں۔
اقوام متحدہ جب سے وجود میں آئی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے سیکرٹری جنرل کی آواز میں کون بولتا رہا ہے۔ یہ چار روزہ دورہ اس تناظر میں ایک طویل دورہ تھا اور اس میں بالخصوص آخری روز لاہور کی بادشاہی مسجد، کرتارپور راہداری اور شاہی قلعہ وغیرہ کا دورہ اور بھی معنی آفریں تھا۔ میرا خیال تھا شائد مسٹر گوتریس داتا دربار پر بھی حاضری دے کر اپنی اس وزٹ کو ایک یادگار سنگِ میل بنا دیں گے لیکن اچھا ہی ہوا انہوں نے روحانیت کے اس بوجھل فریضہ سے کنارہ کشی کی وگرنہ انڈیا کا ہندو نجانے اس کو کیا کیا معانی پہناتا۔ انہی ایام میں طالبان اور امریکہ کے درمیان اس ڈیل کا اعلان بھی کیا گیا جس پر 29فروری کو دستخط ہونے جا رہے ہیں۔ یہ معاہدہ اگر ہو گیا تو دیکھنا ہے اب کی بار یہ کب ٹوٹتا ہے، امریکہ افغانستان سے اپنے کتنے ٹروپس واپس لے جاتا ہے اور صدر اشرف غنی کو حالیہ الیکشنوں میں کامیاب ڈکلیئر کرنے میں ساڑھے پانچ ماہ کا عرصہ کیوں لگا ہے۔ اشرف غنی کا صدر بنایا جانا اور ان کے ”عہدِ اشرفی“ میں طالبان کا 29فروری کو امریکہ کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنا میرے نزدیک آگ اور پانی کا میل ہے۔
دوسرا ایک اور سنجیدہ موضوع جس پر پرنٹ میڈیا نے کالم آرائی کی وہ فاٹف (FATF) کے تنازع میں پاکستان کا سرخرو نہ ہونا بھی تھا۔ حافظ سعید کی قید کی سزا بھی پاکستان کو گرے لسٹ سے نہ نکال سکی تو اس کا مطلب میرے نزدیک جون 2020ء تک انتظار کی سول پر لٹکنا کوئی خوش آئندہ امر نہیں۔ امریکہ اپنی گیم کھیل رہا ہے اور پاکستان ہے کہ ابھی اس کے قابو میں نہیں آ رہا…… دیکھتے ہیں آنے والے چار ماہ میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اسی ہفتے کالم نگاری کے دوسرے سنجیدہ موضوع بھی تھے جن میں رعد ٹو کروز میزائل کا تجربہ بھی تھا۔ سوشل میڈیا پر ایک اور ڈویلپ منٹ یہ بھی ہوئی کہ گزشتہ ایام میں کئی ”انوکھی“نئی ویب سائٹ بھی کھل گئی ہیں۔ ARY کے صابر شاکر اور ایک اور نجی چینل کے سمیع ابراہیم کے بعد ہمارے ایک سابق وزیر قانون اور اب پی ٹی آئی کے ایک رہنما بابر اعوان کا منظر عام پر آنا پی ٹی آئی کی طرف سے پراپیگنڈے کا ایک اور نیا تجربہ ہے جس کا توڑ (Rebuttal) ہنوز اپوزیشن کی طرف سے دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند روز میں نون لیگ یا پی پی پی کا کوئی ”پٹھا“ بھی اس دنگل میں کود کر بابر اعوان جیسے پہلوان کا مقابلہ کرے گا۔ میں سوچتا رہا ہوں کہ آیا اپوزیشن اپنا کوئی ”مشترکہ پٹھا“ بھی میدان میں لائے گی یا یہ دونوں پارٹیاں (مسلم لیگ نون اور پی پی پی) اپنا الگ الگ پہلوان اس دنگل میں اتاریں گی!
میں کئی برسوں سے چیخ رہا ہوں کہ اردو زبان میں دفاعی امو رپر بھی کوئی صاحب آگے آئیں اور پرنٹ میڈیا کے قارئین کی وہ پیاس بجھائیں جو ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں کسی گروپ نے سوشل میڈیا پر ایک نئی سائٹ کا اضافہ کیا ہے اور رعد ٹو میزائل سے اس کا افتتاح کر دیا ہے۔ اس میزائل کی تکنیکی اور عسکری تفصیلات جو اس سائٹ پر بتائی گئی ہیں ہنوز بس واجبی سی ہیں اور ان کا پس منظر بیان کرنے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی، نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ یہ رعد۔2 انڈیا کے کس کروز میزائل کا جواب ہے اور اگر یہ میزائل انڈیا کے میزائلوں پر بھاری ہے تو اس کی برتر تکنیکی خصوصیات کیا ہیں اور پاکستان اگر اس فیلڈ میں انڈیا سے آگے جا رہا ہے تو اس کے امکانات کا خلاصہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ…… تاہم میرے نزدیک دفاعی موضوعات کی یہ دو تین سائٹس (Sites) بڑی کار آمد اور قابلِ ستائش ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ سامعین و ناظرین کو جدید عسکری اصطلاحات کی آوازیں کانوں میں پڑیں گی تو اجنبیت اور مغائرت کے وہ پردے تو کچھ نہ کچھ ضرور چاک ہوں گے جو ایک طویل عرصے سے اس پر پڑے ہوئے ہیں۔
تاہم اس ویب سائٹ کے کرتا دھرتا احباب کو میرا مشورہ ہے کہ کسی عسکری موضو ع کا سکرپٹ تحریر کرتے ہوئے جن تصاویر، خاکوں اور نقشوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان پر مزید توجہ دیں۔ تقریری حصہ کم ہو اور تصویری حصہ زیادہ ہونا چاہیے۔ دوسرے جو صاحب کسی عسکری موضوع پر کسی وڈیو کی تفصیلات کا ذکر کریں تو ان کی آواز میں پروفیشنل ازم جھلکنا چاہیے۔ اس وقت ان وڈیوز پر جو صاحبان تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں ان کی آواز کا آہنگ، تلفظ اور لب و لہجہ پیشہ واریت کی Tinge سے خالی ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کوئی پنجابی پلّے دار یا بیوپاری ہے جو منڈیوں کے بھاؤ بتا رہا ہے۔ عسکری ہتھیاروں اور ساز و سامان کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کے حصوں پرزوں کے نام کا تلفظ اور لہجہ وہی ہونا چاہیے جو موضوعِ زیرِ بحث کا پروفیشنل تقاضا ہے۔ میری نظر میں اگر کسی فوجی آفیسر کو یہ فریضہ سونپا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ابھی تو دفاعی موضوعات کی کوریج کی زبان نہایت سادہ اور آسان رکھی جا رہی ہے لیکن جوں جوں یہ سلسلہ آگے بڑھے گا، زبان و بیان اور ذخیرۂ الفاظ کی گرانباری بڑھتی چلی جائے گی۔
حالیہ ایام میں ایک اور سنجیدہ موضوع جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں اٹارنی جنرل انور منصور خان کا استعفیٰ ہے۔ ان کی جگہ نئے اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان کی تقرری کا نوٹی فیکیشن جاری ہو چکا ہے اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ انہوں نے اس کیس کی پیروی کرنے سے معذرت کر لی ہے اور کہا ہے کہ یہ مفادات کے ٹکراؤ کا کھیل ہے۔اس کیس کی پیش رفت جس ماحول اور کیفیت میں ہوئی اس کی فضا کچھ ایسی حوصلہ افزا نہ تھی اور اس سے حکومت کی اگر سبکی نہ بھی ہوئی ہو تو مخالفین کو انگشت نمائی کا موقع تو مل ہی گیا۔ بہتر ہوتا اگر یہ بدمزگی پیدا نہ ہوتی۔ حکومت، اپنے اٹارنی جنرل کے اس بیان سے دور تو ضرور ہوئی جس کو سپریم کورٹ نے میڈیا پر آنے اور رپورٹ ہونے سے روک دیا لیکن مکرر کہنا پڑ رہا ہے کہ اگر ایسانہ ہوتا تو اچھا ہوتا۔
یہ ایشوز اور موضوعات جن کا سطورِ بالا میں ذکر ہوا ان پر تبصرے اور تجزیئے پرنٹ میڈیا کے قارئین کا ایک مختصر طبقہ ہی دلچسپی سے پڑھتا ہے لیکن عوام کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو ان کی تفصیل کو بوجھل اور مشکل سمجھتا ہے۔ اس طبقے کو آسانی سے خارج از بحث قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ درست ہے کہ دفاع،بین الاقوامی سیاسیات، اقتصادیات اور انٹرنیشنل تعلقات وغیرہ ایسے موضوعات ہیں کہ ان کو آسان زبان میں بیان کرنا دشوار ہے۔ لیکن میں گزشتہ دو تین عشروں سے دیکھ رہا ہوں کہ اردو پرنٹ میڈیا کا کوئی قاری اوپر بیان کئے گئے موضوعات میں دلچسپی لیتا بھی ہے تو بس واجبی سی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستانی قارئین کی مین سٹریم ان موضوعات سے وابستہ تعلیم و تربیت اور ویژن کے تناظر میں ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ وہ ان موضوعات کی گرانباری کو سنبھال سکے اور ہضم کر سکے۔ میں انگریزی زبان کے اخبارات دیکھتا ہوں تو یہ خیال کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ان میں اگر روزمرہ کے حالات و واقعات کا ذکر بھی ہو تو ان کا اندازِ نگارش، انتخابِ الفاظ و محاورات اور پیرایہء اظہار اس کینڈے کا ہوتا ہے کہ اس کو سمجھنے کے لئے قاری کا مبلغِ علم و معلومات وسیع و بسیط ہونا اولین شرط ہوتی ہے۔
مغرب میں اخبار بینی کی روائت ہم سے کم از کم ڈیڑھ دو صدیاں آگے ہے، اس لئے ان سے مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن مقابلے کی کوشش نہ کرنا بھی کچھ ایسا مستحسن نہیں۔ اردو پرنٹ میڈیا کا قاری روز مرہ کے آسان اور عوامی موضوعات کی معلومات کا طالب بلکہ پیاسا ہے۔ اس کو دفاع اور اقتصادیات کے ادق جھمیلوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس کے لئے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہو،ملک کی اقتصادی حالت خوشحالی کے سفر پر گامزن ہو اور اس خوشحالی کو نہ صرف نظر آنا چاہیے بلکہ آبادی کے ایک کثیر حصے کو اس کا فائدہ پہنچنے کے آثار بھی دکھائی دینے چاہیں۔ کسی کالم نگار کو صرف ایک ہی موضوع سے چمٹنے کا عارضہ ہو تو اس کے آداب اور حدود و قیود بھی مقرر ہیں۔ ایسے حضرات کو گاہے بگاہے اپنے مخصوص دائرہ خیال و تحریر سے باہر نکل کر بھی قارئین کو انفارم اور ایجوکیٹ کرنا چاہیے۔