انجمن ستائش باہمی کو درپیش چیلنجز !!!

وزیراعظم پاکستان عمران خان آج کل کچھ نئی مشکلات کا سامنا کررہےہیں ۔ کچھ سرکردہ سیاسی شخصیات کی بھرپور کوشش ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کمی لائی جائےکیونکہ رواں سال کے آخر میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں لہٰذا سب سے زیادہ " مہنگائی اورآٹے , چینی " کے بحران پرسیاست ہورہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات بھی کررہی ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر ہم سب کچھ پی ٹی آئی حکومت پر ڈال دیں تو کیایہ ٹھیک ہوگا ؟؟؟ جب پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا فیصلہ کیا تو اسی وقت قیاس کیاجانے لگاتھا کہ مہنگائی عوام کی کمر توڑنے والی ہے۔ عجیب بات یہ ہےکہ آج وہی لوگ مہنگائی کا رونارونے میں سرفہرست ہیں , جن کی وجہ سے ملک سودی قرضوں میں جکڑا گیااورمعیشت تباہ ہوئی۔ ذراغورفرمائیں کہ گندم اور چینی کا مصنوعی بحران کن عناصر نےپیداکیا ؟ وہ کون لوگ ہیں جنہوں آٹے اور چینی کی مارکیٹ میں سپلائی رکوائی ؟وہ کون لوگ ہیں جن کی فیکٹریوں سے آٹے اور چینی کی ہزاروں ٹن ذخیرہ شد ہ بوریاں پکڑےجانےکی بریکنگ نیوز چلتی رہی ہے؟لہٰذا سارا ملبہ حکومت پر نہیں ڈالا جا سکتا ۔
حکومت کےلیےبلدیاتی انتخابات میں کامیابی ایک بڑا چیلنج ثابت ہونےوالا ہے،حکومتی حلقوں میں اپنی ہی وزارتوں ,وزراء,ایم این ایز اور ایم پی ایز کی کارکردگی پر کافی عدم اطمینان پایاجاتاہے،عوامی نمائندے پہلے کی طرح اپنے حلقوں کے عوام سے رابطے میں نہیں ہیں ۔ میری ذاتی رائے یہ ہےکہ اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت میں کتنی کمی بیشی ہوئی ہے؟؟؟یا حکومتی کارگردگی کےحوالےعوامی رائےکیاہے ؟؟؟ تو بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات کاانعقاد یقینی بنانا ہوگا۔بدقسمتی سےماضی کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور بااختیار بنانےپرکوئی توجہ نہیں دی۔اگر دیکھا جائےتودنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں مالی معاملات بلدیاتی ٹاؤن اور لوکل باڈیز کے پاس ہوتے ہیں جبکہ پاکستان کی جمہوریت میں پارلیمنٹرینز کو ڈویلپمنٹ کے فنڈ دئیے جاتے ہیں حالانکہ سارے فنڈز بلدیاتی اداروں کے پاس ہونے چاہییں لہٰذا بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ایک جمہوری عمل میں تاخیرکا سبب بن رہی ہے ,جس کا فی الفور ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو حکومت کے خلاف موڑ کر نااہل قرار دلوانےکی منصوبہ بندی کن لوگوں نے کی ؟؟؟یہ وہی لوگ ہیں جوحصولِ اقتدار کی دوڑ میں شامل سمجھےجاتےہیں اور شہر اقتدارکی ہواؤں کا رخ بدلنےکی آس لگائے بیٹھےہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سے نہ صرف پیچھے ہٹنا پڑا بلکہ اپنے اٹارنی جنرل انور منصور کی بھی قربانی دینی پڑی ۔ حتٰی کہ نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اس معاملے میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور الٹا وزیرِ قانون فروغ نسیم کے خلاف درپردہ ایک سرد جنگ چھیڑ دی ۔اگر رسہ کشی مزید بڑھی تو وزیر قانون کو بھی قربانی کا بکرا بنانے پر غور خارج از امکان نہیں ہے۔ حکومت بہرحال اپنا دامن ہرحال میں بچانے کےلیے ہاتھ پاوں مارہی ہے۔ یہ صورتحال مزید خراب بھی ہوسکتی ہے
لہٰذا وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو " مجلسِ ستائش باہمی " کا منظر پیش کرنے کی بجائے اپنی خامیوں کو تلاش کرنے اور انہیں دور کرنے کےلیے مزید بہتر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی تاکہ علاقائی , صوبائی اور وفاقی ہر سطح پر درپیش مسائل کا تدارک ہوسکے۔ مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتاہےکہ یہ جو ہرطرف عوامی مسائل , آئینی التواء , قانونی الجھاؤ نظر آتے ہیں , کہیں سب ایک مصنوعی سیاسی منظر نامہ تیار کرنے کی کوئی نئی چال تو نہیں ؟؟؟۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔