خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ شیرِخدا حضرت علیؓ ابن ابی طالب
مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان نبوت اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا اعلان ایمان ہم عمر ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ مذہب اسلام سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا تعلق صدیوں پر محیط ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سیرت مبارکہ کو افراط و تفریط کے ترازو میں بانٹنے کی بجائے اگر اعتدال سے لکھا اور بیان کیا جائے تودور حاضر میں پروان چڑھتی فرقہ واریت اور تشدد کافی حد تک کنٹرول ہو سکتی ہے۔ اس نیک جذبے کے پیش نظر آنجناب رضی اللہ عنہ کی سیرت کے چند پھول چنے ہیں۔
ولادت:
صحیح بخاری کے مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت مکۃ المکرمہ کی مشہور وادی شعب بنی ہاشم میں ہوئی۔ صحیح مسلم کے معروف شارح امام نووی قصہ ذی قرد کے تحت لکھتے ہیں کہ جن دنوں آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی آپ کے والد گرامی جناب ابو طالب اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے بلکہ کسی سفر پر تھے آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت اسد نے آپ کا نام اپنے والد کے نام پر اسد رکھا۔ جب خواجہ ابو طالب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آپ کا نام ”علی“ رکھا۔
نام و نسب اور القاب:
نام:علی بن ابی طالب۔ کنیت:ابو الحسن، ابو تراب۔ القاب: اسد اللہ، حیدر اور المرتضیٰ
خاندانی پس منظر:
مشہور مورخ امام ابن کثیر نے اپنی مشہور زمانہ کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ خاندان بنو ہاشم کے چشم و چراغ ہیں، اور بنو ہاشم سرداران مکہ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ حرم کعبہ کی جملہ خدمات، چاہ زمزم کے انتظامی معاملات، حجاج کرام کی مہمان نوازی، ان کا اعزاز و اکرام اور معاونت کرنا بنو ہاشم کا طغرہ امتیاز تھا۔
خاندان:
والد: عبدمناف کنیت ابو طالب والدہ: فاطمہ بنت اسد برادران: طالب، عقیل اور جعفر طیار ہمشیرگان: ام ہانی، جمانہ
ازدواجی زندگی:
1:حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان سے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت زینب الکبریٰ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہم پیدا ہوئیں۔
قبول اسلام:
اسلام لانے میں سبقت کرنے کے مسئلہ پر سب سے راجح ترین تحقیق وہ ہے جسے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ و النہایہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے:آزاد مردوں میں سیدنا ابو بکر صدیق، خواتین میں ام المومنین زوجہ رسول سیدہ خدیجہ الکبریٰ، غلاموں میں زید بن حارثہ اور نوجوانوں میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سب سے پہلے ایمان لائے۔مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو تربیت میں آپ رضی اللہ عنہ پروان چڑھتے رہے گلستان نبوت میں کھلے اس گل کی ہر پتی سے بوئے نبوت مہک رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی عادات، اخلاق، اقوال و افعال میں نبوی تربیت میں ڈھلے ہوئے تھے۔
مکی زندگی:
اس میں اہل اسلام کے حالات اس قدر ناموافق، خطرناک اور دشوار گزار تھے کہ آج یہ لفظ ابتلاء، آزمائش اور امتحان کا استعارہ بن چکا ہے مشرکین مکہ دعوت اسلام کے پھیلاؤ سے بری طرح خائف اور پریشان تھے۔
مدینہ طیبہ میں:
مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں ہر لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے۔ صحابہ کرام جب ہجرت کر کے مدینہ آئے تو ان کے پاس رہنے کے لیے مکان، پہننے کے لیے نئے لباس اور کھانے کے لیے خوراک کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ اس وجہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کا تعلق قائم کرایا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں مناقب علی بن ابی طالب کے تحت لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نیحضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فرمایا:آپ دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہیں۔
غزوہ بدر میں:
حضرت فاطمہ الزہرا سے شادی:
2 ہجری غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا۔مسند احمد میں ہے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: جب میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اپنے نکاح کا پیغام دینے کا ارادہ کیا تو میں نے (دل میں) کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، پھر یہ کام کیسے ہو گا؟ لیکن اس کے بعد ہی دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا خیال آگیا۔ لہذا میں نے حاضر خدمت ہوکر پیغام نکاح دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا: تمہارے پاس (مہر میں دینے کے لئے) کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری زرہ کہاں گئی؟ میں نے عرض کی: وہ تو موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو (فروخت کرکے مہر میں) دے دو۔
غزوہ احزاب میں:
5 ہجری شوال میں غزوہ احزاب جسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے، پیش آیا۔ دشمن کی دس ہزار کی فوج خندق کے قریب آ کر رک گئی، اور تعجب سے کہنے لگی: یہ نئی جنگی تدبیر ہے عرب اس سے واقف نہیں۔اس کے بعد وہ خندق کے ایک تاریک اور تنگ راستے سے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ تلواروں کی جھنکار سے رزم گاہ گونج اٹھی، دشمنان اسلام کے دلوں میں اسلام کی ہیبت اترنا شروع ہوئی اور اہل اسلام کے قلوب میں نصرت خداوندی کی امید؛ یقین کا روپ دھارنے لگی۔ کچھ ہی لمحوں میں حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے عمرو جیسے دیوہیکل انسان کو خاک و خون میں ڈھیر کر دیا۔
غزوہ خیبر میں:
7 ہجری محرم کے آخر میں یہ معرکہ شروع ہوا، مدینہ کے شمال مغرب میں خیبر نامی ایک یہودیوں کی ایک کالونی آباد تھی، یہ نہایت زرخیز مقام تھا یہاں پر یہودیوں نے چند قلعے بنا رکھے تھے۔ یہود دیگر قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک عرصے سے جنگی اسلحہ جمع کر رکھا تھا۔ قبیلہ بنو غطفان اور قبیلہ بنو اسد کو نصف کجھوروں کے باغات کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا چکے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تیاریوں اور اسلحہ جمع کرنے کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سباع بن عرفطہ غفاری رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر فرمایا اور خود 1400افراد پر مشتمل صحابہ کرام کے قافلے کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ادھر رئیس المنافقین عبداللہ بن اْبی نے کسی طریقے سے یہودیوں کو خفیہ طور پر مسلمانوں کی روانگی کی اطلاع دے دی۔پہلے تو یہود نے کھلے میدان میں لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک میدان میں نکل آئے ان کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کو خیبر پہنچنے میں کچھ دن لگ جائیں گے،چند دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقامِ رجیع میں فوجیں اتاریں، خیمے، مستورات اور بار برداری کا سامان یہاں اتار دیا گیا جبکہ اصل لشکر نے خیبر کا رخ کیا۔مقام صہبا ء پر پہنچ کر نمازِ عصر ادا کی گئی اور اس کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ستو نوش کیے۔ رات ہوتے ہوتے لشکر خیبر کے قریب پہنچ گیا تھا اور عمارتیں نظر آنے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکنے کا حکم دیا اور یہاں رک کر دعا فرمائی۔دوسرے دن خیبر پہنچے۔ یہود ایسی بزدل قوم تھی جب انہوں نے اہل اسلام کی جنگی تیاریاں دیکھیں تو کھلے میدان کے بجائے قلعہ بند ہو کر لڑنے لگے۔خیبر کی آبادی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کل میں اسے جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ وہ شکست کھانے والا اور بھاگنے والا نہیں ہے۔ خدا اس کے ہاتھوں سے فتح عطا کرے گا۔“یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خواہش کرنے لگے کہ کاش یہ سعادت انہیں نصیب ہو۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ انہیں آنکھ کی تکلیف ہے اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ مبارک ان کی آنکھ پر لگایا آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھ کی تکلیف بالکل ختم ہو گئی۔دوسرے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ میدان میں اترے تو یہودیوں کے مشہور پہلوان مرحب کا بھائی حارث مسلمانوں پر حملہ آور ہوا مگرحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے ایک ہی وار میں قتل کر دیا اور اس کے ساتھی بھاگ گئے۔ اس کے بعد مرحب رجز (جنگی اشعار)پڑھتا ہوا میدان میں اترا۔ اس نے زرہ اور خَود پہنا ہوا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے بھی جواب میں رجز پڑھا اور مرحب کے سر پر اتنے زور سے تلوار کا وار کیا جس سے خَود دو ٹکڑے ہو گئی اور مرحب دو دھڑوں میں کٹ گیا۔ اس کی ہلاکت کے بعد باقی یہودی خوفزدہ ہو کر قلعہ میں جا گھسے۔ حضرت علی عنہ نے قلعہ کا دروازے کو دونوں ہاتھوں سے پورا زور سے اکھاڑلیا۔ اس کے بعد آپ نے اس دروازے کو قلعہ قموص کے آگے والے گڑھے پر رکھا تا کہ اسلامی فوج گھوڑوں سمیت قلعہ میں داخل ہو سکے،اسلامی فوج داخل ہوئی، یہودی سہم گئے انہوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیے اورقلعہ قموص بھی فتح ہو گیا۔
خلفاء ثلاثہ سے محبت و معاونت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مبارکہ کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے سے پیشرو خلفاء ثلاثہ (سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم) کے ساتھ برادرانہ برتاؤ اور مذہبی و سیاسی امور میں محبت و معاونت کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو اہل اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں۔
بطور خلیفہ پہلا خطبہ:
35 ہجری 24 ذوالحجہ جمعہ کے دن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بطور خلیفہ جو سب سے پہلا خطبہ دیا، وہ یہ تھا:بعد حمد و صلوٰۃ!اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو ہدایت دینے والا بنا کر بھیجا ہے جو خیر اور شر کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے، اس لیے خیر کو لے لیجیے اور شر کو چھوڑ دیجیے، اللہ تعالیٰ نے بہت ساری چیزوں کو حرمت کا درجہ دیا ہے، ان میں سے سب سے زیادہ حرمت مسلمان کی ہے، اللہ تعالیٰ نے توحید و اخلاص کے ذریعہ مسلمانوں کے حقوق کو مضبوطی سے باہمی ربط دیا ہے، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں، مگر یہ کہ دین اور احکام شریعت ہی کا یہ تقاضا ہو کہ مسلمان کا احتساب کیا جائے اور اس پر قانون شریعت جاری کیا جائے، کسی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کو تکلیف دینا جائز نہیں مگر یہ کہ ایسا کرنا واجب ہو چکا ہو، عوام و خواص دونوں کے حقوق ادا کرنے میں جلدی کیجیے، لوگ آپ کے سامنے ہیں اور قیامت پیچھے ہے جو آگے بڑھ رہی ہے، اپنے آپ کو ہلکا پھلکا رکھیے کہ منزل تک پہنچ سکیں، آخرت کی زندگی لوگوں کی انتظار میں ہے۔
مرکز خلافت کی کوفہ منتقلی:
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ حکمت و تدبر اور شجاعت و عزیمت کے حسین امتزاج کے ساتھ چلاتے رہے، جب مدینہ طیبہ میں سیاسی و عسکری، انتظامی و تربیتی نظام کا چلانا بہت مشکل ہو گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مرکز خلافت کوفہ منتقل کر دیا تاکہ مدینہ طیبہ کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے والوں کو اس کا موقع ہی نہ ملے۔
اسوہ مرتضوی مشعل راہ ہے:
دشمن اسلام خواہ کسی بھی روپ میں ہو (کافر، مشرک،بت پرست، یہودی، عیسائی، خوارج، سبائی) حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کرم اللہ وجہہ اپنی حکمت و بصیرت اور معاملہ فہمی اور دانائی کی ایسی مثالیں چھوڑ گئے کہ اگر امت مرحومہ کو کبھی باہمی انتشار کا سامنا کرنا پڑجائے تو وہ کیا کرے؟جمل و صفین کے حالات میں آپ کرم اللہ وجہہ کے بصیرت افروز فیصلے؛اہل اسلام کے آپسی معاملات کے حل اور باہمی اعزاز و تکریم میں امت کی رہنمائی کے لیے کافی و افی ہیں۔چنانچہ مناقب ابی حنیفہ میں امام موفق مکی رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے: جس نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی اس میں حق پر حضرت علی ہی تھے (غیر مسلموں کے بارے میں حق بمقابلہ باطل ہے اور اہل اسلام کے بارے میں حق بمقابلہ اجتہادی خطاء ہے) اگر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا طرز عمل موجود نہ ہوتا تو کسی کو بھی معلوم نہ ہوتا کہ جب مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو اس وقت کیا کیا جائے۔؟
شہادت باسعادت:
امام ابن کثیر نے البدایہ میں لکھا ہے کہ تین خارجی عبدالرحمان ابن ملجم الکندی، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی نے حرم کعبہ میں بالترتیب حضرت علی، امیر معاویہ اور عمرو بن عاص کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اور سترہ 17 رمضان 40 ہجری کی تاریخ متعین کی۔ مقرر کردہ تاریخ کے مطابق ابن ملجم کوفہ آیا اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے راستے پر بیٹھ گیا، آپ صبح کی نماز کے لیے گھر سے نکلے اور لوگ بھی نماز کے لیے نکل کر آ رہے تھے اسی دوران اس بدبخت نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر مبارک کے اگلے حصے پر وار کیا، خون کی ایک دھار داڑھی مبارک تک آ پہنچی بالآخر حملے کے کاری وار سے آپ جاں بر نہ ہو سکے او ر21 رمضان کو شہادت کا جام نوش کر گئے۔
بوقت شہادت تلاوت قرآن:
آپ نے کل چار سال نو ماہ تک خلافت کے امور سرانجام دیے،21رمضان المبارک کو جان جان آفریں کے سپرد کی۔ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے آخری وقت اپنے صاحبزادوں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو خوف خدا اور حسن عمل کی وصیت کی اور یہ سورۃ الزلزال کی آخری دو آیات کریمہ تلاوت فرمائی۔
نماز جنازہ:
آپ کرم اللہ وجہہ کی نماز جنازہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، کوفہ ہی میں داراالامارۃ میں دفن کیے گئے۔