وزیر اعلیٰ کوپولیس کارروائیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت
لاہور میں حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈی آئی جی آپریشن ساجد کیانی کے بارے میں مختلف حلقوں اور محکمہ پولیس میں یہ بحث و مباحثہ اور قیاس آرائیاں تعیناتی سے لے کر آج تک جاری ہیں کہ انہوں نے یہ اہم سیٹ سفارش کے بل بوتے پر حاصل کی ہے اگر مبالغہ آرائی سے کام نہ لیا جائے تو حقیقت کا اس سے دور دور کا واسطہ تک نہیں ہے۔ ساجد کیانی نے محکمہ پولیس میں ایک غیر سیاسی آفیسر کے طورپر شہرت پائی ہے۔ یہ ایماندار، بہادر اور دیانتدار آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان پر کرپشن کا کبھی الزام لگا اور نہ ہی کبھی ان کے حوالے سے کسی قسم کا سیاسی ایجنڈا سامنے آیا ہے۔ پولیس کا وسیع تجربہ رکھنے اور اپنی ذمہ داریاں نہایت ہی ایمانداری سے سر انجام دینے کے پیش نظر انھیں لاہور میں تعینات کیا گیا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے اور حساس ادارے میں گہری رشتے داریاں رکھنے کا انہیں شرف حاصل ہے۔، CPO راولپنڈی پوسٹنگ کیلئے یہ خواہش مند ضرور تھے مگر ان کے سفارشی تعلق داروں نے انہیں لاہور میں کام کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
پہلے بھی یہ کئی ذمہ دار سیٹوں پر ایک کامیاب آفیسر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں، بہتر کام اور خدمات کے پیش نظر سابق ڈی آئی جی آپریشن اشفاق احمد خاں لاہور سے جانے کے باوجود آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، مگر ساجد کیانی ان سے بھی زیادہ عوام کی خدمت اور دوستوں کی بھلائی کا جذبہ لے کر آئے ہیں کسی فورس کو لیڈ کرنے کے لئے صرف ایمانداری ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ لیڈر شپ کی خوبیوں کا ہونا بھی ضروری ہے ساجد کیانی میں یہ دونوں خوبیاں بیان کی جاتی ہیں۔ منگل کے روز ہماری آئی جی پولیس انعام غنی سے ان کے دفتر میں ہونے والی میٹنگ کے دوران جس میں سینئر کالم نویس و تجزیہ نگار روزنامہ پاکستان کے گروپ ایڈیٹر کوآرڈی نیشن ایثار رانا، کالم نویس و تجزیہ نگار شعیب احمد اور لقمان شریف بھی موجود تھے۔ لاہور پولیس کی ٹیم اور دیگر کئی امور پر باتیں زیر بحث آئیں وہاں بھی ساجد کیانی کے پروفیشنل ہونے کی سبھی نے تعریف کی علاوہ ازیں لاہور میں امن و امان سی آئی اے کی ناقص کارکردگی اور شہر میں بدمعاشوں کے خلاف جاری آپریشن پر بھی بات کی گئی تو اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وہ سی آئی اے کے کپتان کو تبدیل کرکے جلد ہی نیا آفیسر لانا چاہتے ہیں۔ بدمعاشوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کے خلاف عارضی آپریشن کرکے عوام میں یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
تاکہ مافیا نے متنازعہ جائیدادیں سستے داموں خریدنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ بند ہوسکے۔آئی جی پولیس انعام غنی دن رات محنت اور لگن سے ادارے کے مورال میں بہتری لانے کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں اور وہ اس ادرے کو ہر صورت گڈ گورننس کا باعث بنانا چاہتے ہیں،معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والی ناانصافیوں کا خاتمہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے جبکہ وزیر اعظم پاکستان کے ویژن کے مطابق وہ اس ادارے کو ہر صورت عوام کا خادم بنانا چاہتے ہیں۔آئی جی پولیس چاہتے ہیں کہ ان کے تمام آفیسرز لوگوں کے لیے آسانیوں کا باعث بنیں، ادارے میں کرپشن کو ختم کرکے اس کی سربلندی کے لیے کام کریں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا، حقائق بڑے تلخ ہیں۔ محکمہ پولیس نے قبضہ گروپوں کے الزام میں شریف شہریوں کا بھی جینا حرام کر دیا ہے۔ منشیات فروشوں، قمار بازوں،لڑائی جھگڑے اور عام مقدمات میں ملوث افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے زمین تنگ کر کے پولیس مال کمانے میں مصروف ہو گئی ہے،سرکار کی اس پالیسی نے محکمہ پولیس میں کرپشن کو جنم دیا ہے۔
سی آئی اے اہلکاروں نے ملزمان اور ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے کی بجائے اپنی توجہ مال اکھٹا کرنے کی طرف مرکوز کرلی ہے،ایک طرف یہ ادارے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنے کام سے توجہ ہٹ جانے کے باعث کرائم کی شرح میں اضافہ قدرتی امر ہے،آپریشنل پولیس کے کام سی آئی اے اہلکاروں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں جس سے ادارے کی ساکھ بری طرح متاثر ہونے کے ساتھ یہ حکمرانوں کی بیڈ گورننس کا بھی باعث بن رہے ہیں۔سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر خود تو اچھی شہرت کے مالک ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ا نہیں ادارے اور اپنے کمانڈر کی بدنامی کا باعث بننے والے افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لانی چاہیے۔۔
افسوس ناک خبر یہ ہے کہ اختیارات سے تجاوز اور حکمرانوں کی بدنامی کا باعث بننے پر گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے محکمہ پولیس کے آر پی او گوجرانوالہ،ڈی پی او سیالکوٹ،ڈی ایس پی ڈسکہ،ڈی ایس پی سمبڑیال کو عہدوں سے ہٹانے اور معطلی کے احکامات جاری کیے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو4مارچ کو وضاحت کیلئے طلب کر لیا ہے۔ آئی جی پولیس انعام غنی نے یقینا کبھی بھی اپنی فورس کو ایسا پیغام نہیں دیا کہ جس سے ادارے کامورال ڈاؤن ہو، البتہ یہ ادارے کے منہ پر ایک ایسا سیاہ دھبہ لگ گیا ہے کہ جسے برسوں مٹایا نہیں جاسکے گا،اب یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت جن اداروں کی وجہ سے بدنامی کا باعث بن رہی ہے ان پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔