شعبہ صحت بھی مہنگا، غریب کدھر جائیں؟
کمر کا درد آج کا مسئلہ نہیں، یہ پہلے بھی کبھی کبھار ہوتا تھا، کہ قریباً پندرہ سولہ سال قبل، جب رہائش شادباغ میں تھی تو نیم پلیٹ کی مرمت کرتے ہوئے گر گیا تھا اور کمر کو سخت چوٹ لگی، تب بھاٹی گیٹ کے باہر ایک دیسی ماہر سے علاج کرایا اور درد ٹھیک ہو گئی، پھر اللہ نے مہربانی کی، ہم منتقل ہو کر مصطفےٰ ٹاؤن آ گئے، سیر صبح بھی ہوتی رہی، اسی دوران ایک بار پھر پرانی تکلیف عود آئی، اس بار دوستوں کے مشورے پر مزنگ سے جا کر ویسا ہی دیسی علاج کرا لیا اور تکلیف دور ہو گئی، کئی سال گذر گئے،مَیں تو اس تکلیف کو بھول بھی گیا تھا، لیکن قریباً ڈیڑھ سال قبل ایک ”بزرگ“ نے ہماری سیر پر تبصرہ کیا اور دوستوں کی توجہ دِلا کر داد دی کہ خوب سیر ہوتی ہے، اب معلوم نہیں ان کی تحسین کا اثر تھا یا خود ہم سے کوئی غلطی ہوئی،
کمر کی درد پھر سے شروع ہو گئی،درمیان میں ایک آرتھوپیڈک پروفیسر دوست نظامی صاحب کی توجہ ہوئی تو پھر سے قدرے بہتری آ گئی اور سیر کا معمول بھی جاری ہوا۔ سوچا عمر کا تقاضہ ہے اس لئے احتیاط شروع کر دی، وقت کم ہوا تو رفتار بھی مدھم ہو گئی۔ قریباً ساڑھے تین ماہ قبل پھر سے درد شروع ہو گیا اور چلنا مشکل، سیر ختم ہو گئی۔ ہمارے قریبی برخوردار عامر کی توجہ سے ان کے دوست سے چینی طرز علاج (آکو پنکچر)کرایا کچھ بہتری تو ہوئی مگر تکلیف بدستور رہی، پھر سے ایلوپیتھی کی طرف رجوع مجبوری بن گیا اور درد کش ادویات سے فرق پڑ گیا، معمولات قریباً شروع ہوئے کہ گذشتہ ماہ پھر سے کوئی غلطی ہو گئی، تب سے یہ تکلیف دوبارہ آ چکی ہے، اب تو یہ ہوتا ہے کہ کمر سے درد شروع ہو کر ٹانگ سے ہوتا ہوا پاؤں تک آ جاتا،فرق صرف اتنا ہے کہ بیٹھ جاؤں تو افاقہ رہتا ہے،رات کو نیند بہرحال آ جاتی تھی۔
یہ بدھ کی شب کا ذکر ہے کہ معمول کے مطابق سویا، لیکن رات ایک بجے درد نے جاگنے پر مجبور کر دیا، پانی کا گھونٹ پی کر سہارا لیا،لیکن بازو کے درد کو فرق نہ پڑا،میرا 2009ء ستمبر میں بائی پاس آپریشن ہو چکا ہے اس لئے بازو میں ہونے والے درد نے فکر مند کر دیا، مجبوراً صاحبزادے عاصم چودھری کو فون کر کے جگانا پڑا اور اس سے درخواست کی کہ ہسپتال کا چکر لگا لیں، عاصم کی تجویز تھی کہ کسی نجی ہسپتال چلتے ہیں، مَیں نے یہ مشورہ بوجوہ رد کر دیا کہ بائی پاس والے مریض کے بازو والے درد کے باعث یہ نجی صحت کدہ والے لٹا لیں گے اور میٹر چلنا شروع ہو جائے گا، جبکہ مجھے دِل کی کوئی تکلیف نہیں ہو رہی تھی، قریب تر جناح ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال ہیں، ہم پہلے جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے، رات کا قریباً ڈیڑھ بج چکا تھا، ایمرجنسی کے باہر دونوں اطراف میں صورتِ حال یہ تھی کہ مریضوں کے تیمار دار فرش پر ہی کپڑے بچھائے لیٹے اور بیٹھے تھے اور تعداد کافی زیادہ تھی۔ صاحبزادے نے پرچی بنوائی جس کی فیس پچاس روپے ادا کی تھی،ڈیوٹی ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انہوں نے ای سی جی کا مشورہ دیا، یہ بھی مناسب تھا۔
یہ بتا دیں کہ جناح ہسپتال کی ایمرجنسی قدرے بہتر اور یہاں دو تین وارڈوں کے علاوہ ہنگامی آپریشن تھیٹر بھی ہے، عاصم نے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ وارڈ کے اندر سے جائیں اور اگلے کونے پر عملہ ہے، جو یہ فرض انجام دے گا، جب اس طرف نظر دوڑائی تو اللہ یاد آ گیا، کیونکہ وارڈ میں باقاعدہ بھیڑ تھی اور اس میں سے گذر کر جانا کافی محنت طلب نظر آیا، بے شمار لوگ بغیر ماسک، سماجی فاصلے کا کوئی دھیان نہیں تھا۔عاصم نے یہ سب دکھا کر میری رائے لی تو مَیں گھبرا گیا اور فوراً ہی باہر نکل آیا، اگلے مرحلے کی سوجھی، طے ہوا کہ شیخ زید بھی قریب ہے،چل کر دیکھتے ہیں۔
جب اس ہسپتال سے رجوع کیا تو احساس ہوا کہ قدرے رش کم ہے، مریض تو ہیں لیکن یہاں بہتری تھی تاہم یہ ایمرجنسی مختصر تھی اور قریباً 24 بستروں پر مشتمل تھی اور ہر بیڈ پر مریض تھے۔ ڈاکٹر آن ڈیوٹی نے فوراً توجہ دی، کھڑے کھڑے ہم سے بات پوچھی،مَیں نے درد کا بتایا اور عاصم نے لقمہ دیا کہ بائی پاس والے مریض ہیں، ڈاکٹر موصوف نے بات مکمل ہونے سے قبل ہی نسخہ لکھ کر حوالے کر دیا اور وارڈ کی طرف اشارہ کیا۔ عاصم ایک کرسی پر مجھے بٹھا کر گیا اور تھوڑی دیر میں ادویات لے کر آ گیا، جو دو انجیکشنوں اور ایک ٹیوب انجیکشن پر مشتمل تھیں،کرسی پر بیٹھے بازو آگے کیا کہ یہاں نس تلاش کر کے لگا دیں تو کہا گیا اس سے چکر آتے ہیں لہٰذا بیڈ پر لیٹ جائیں جو بیڈ خالی تھا اس پر روئی کے ٹکڑے اور خون کے بھی داغ تھے، مَیں نے بصد ادب محترمہ نرس صاحبہ سے گذارش کی کہ اس کی چادر تو بدلوا دیں انہوں نے وارڈ بوائے سے کہا تو وہ یہ جواب دے کر چلتا بنا سٹور کی چابی نہیں ہے، نرس نے بھی مجبوری ظاہر کر دی تاہم مجھ سے یہاں نہ لیٹا جا سکا تو مجھے جانے کی اجازت دے دی گئی،مَیں کسی علاج کے بغیر باہر آ رہا تھا، ادویات وہیں رہ گئی تھیں،باہر آتے ہوئے ڈاکٹر متعلقہ سے ملاقات ہو گئی،انہوں نے پوچھا انجیکشن لگ گیا، عرض کی کہ چادر کا مسئلہ ہوا مجبوراً واپس جا رہا ہوں کہ کوئی اور ہی جراثیم لے کر نہ چلا جاؤں۔ ڈاکٹر موصوف کو کوئی پریشانی نہ ہوئی اور انہوں نے مجھے جانے دیا، باہر آمد پر عاصم نے بتایا کہ شیخ زید ہسپتال میں صرف مشورہ مفت، پرچی سے ادویات تک ہر شے خریدنا پڑی اور ہسپتال کی فارمیسی پر ہی ادائیگی کی،
تکلیف نے مشکل سے دوچار کیا،کسی اور ہسپتال کی سوجھی تو پھر اسی طرح کے حالات کا خدشہ ہوا، صاحبزادے کو ایک اور بات سوجھی اور وہ اس فارمیسی پر آ گیا جہاں سے مستقل ادویات خریدتا ہے اور وہاں جا کر اس فارمیسی کے ڈاکٹر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، وہاں 24گھنٹے ایک ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں، جب وہ آئے تو ان کو مسئلہ بتایا گیا۔ تفصیل جان لینے کے بعد انہوں نے درد کش گولیاں تجویز کر کے دیں کہ ایک اب اور ایک صبح کھا لیں اور دن میں اپنے معالج سے رجوع کریں اس نسخے نے کام دکھایا اور بالآخر خوار ہونے اور ڈھائی بجے گھر آنے کے بعد سونا نصیب ہوا۔ اس اثناء میں عاصم چودھری نے بتایا کہ اب ہسپتالوں کی ایمرجنسیاں فری نہیں، جناح اور جنرل ہسپتال ایسے ہیں جہاں اکثر ادویات ملتی ہیں۔ اگرچہ کئی بازار سے لانا ہوتی ہیں،لیکن اب مسئلہ ادائیگی کا ہے۔ شیخ زید ہسپتال میں رش کچھ کم اِس لئے تھا کہ وہاں ادویات خود خریدنا ہوتی ہیں،ٹیسٹوں کی فیس دینا ہوتی ہے اگر داخلہ ہو تو وارڈ یا کمرے کے اخراجات اور ڈاکٹر کے ساتھ دوسرے عملے کی فیس بھی ادا کرنا ہوتی ہے۔اگرچہ یہ نجی ہسپتال کی نسبت تھوڑا سستا ہے،لیکن عام آدمی کے لئے بہت مہنگا ہے۔
صبح اُٹھ کر اپنا اخبار دیکھا تو مزید تصدیق ہوئی،خبر موجود تھی کہ سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بند ہو گئی۔ یہ سب یوں عرض کیا کہ آج کے نئے پاکستان میں ہم سفید پوشوں کے لئے علاج کی گنجائش بھی ختم ہو گئی اور اب جو کچھ بھی کرنا ہے،اپنی ہی جان پر کھیل کر کرنا ہو گا کہ اب سرکاری ہسپتال بھی مہنگے ہیں اور سہولتیں نہ ہونے کے برابر، جبکہ صحت اور صفائی کی حالت ہم بیان کر چکے، ایسے میں کورونا نہ پھیلے گا تو اور کیا ہو گا۔