سرکاری ملازمین اور احتجاج
فارسی کا محاورہ ہے ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“ …… حکومت کی بار ہا یقین دہانیوں کے باوجود سرکاری ملازمین کی حالت زار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ملازمت پیشہ افراد نے جب جب اپنے حقوق کے لئے صدا بلند کی تو جیلیں، تشدد اور ظلم و جبر ہی ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس بار پھر جب حالات سے تنگ آ کر سرکاری ملازمین نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا توحکومت نے آنسو گیس سے اُن کی مہمان نوازی کی بعد ازاں معاملے کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر حکومت کھسیا نی بلی کی طرح شرمندہ ہو کر سرکاری ملازمین کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر رضا مند ہو گئی اور تنخواہوں میں 20سے25فیصد تک اضافے پر بات ختم ہوئی۔
مَیں حکومت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ دو سال سے مہنگائی کی چکی تلے پسے ہوئے عوام کریں تو کیا کریں؟، ان بے چارے ملازمین کو تو نہ احتجاج کا حق حاصل ہے اور نہ ہی اپنی مجبوریوں و مسائل کا رونا رونے کی اجازت، کیونکہ وطن ِ عزیز میں حکومت جو کوئی بھی ہو سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں ان کو کبھی کسی حکومت میں ریلیف نہیں ملا۔ سچ تو یہ ہے کہ کبھی کسی حکومت نے بھی سنجیدگی سے ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔درحقیقت ترقی یافتہ قومیں آمدنی اور مہنگائی کے تناسب کو ہمیشہ برقرار رکھتی ہیں ورنہ رشوت و بددیانتی کے طوفان کو کسی طور بھی نہیں روکا جا سکتا۔ اگر حکومت کو سرکاری ملازمین کا احتجاج اتنا ہی ناگوار تھا تو ان کے مطالبات کو پہلے ہی منظور کیوں نہیں کیا گیا؟ آخر ان کو احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ خاص طور پر انسان دوستی کا دعویٰ کرنے والے حکمران آخر کیوں اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ان کو اپنے مسائل کے برعکس کچھ نظر نہیں آتا۔ جناب تھوڑا سا توقف کر کے سرکاری ملازمین کی حالت زار بھی دیکھ لیجئے جو غربت و افلاس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، سفید پوشی کی چادر میں سمٹے اپنی عزت کے بھرم کو قائم رکھے ہوئے ہیں مگر ان کے مسائل و مشکلات ان کی زندگی کا مستقل روگ ہیں۔
برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر، ٹونی بلیئر، ڈیوڈ کیمرون سمیت سب حکمرانوں کے ادوار میں مہنگائی کے خلاف احتجاج و ہڑ تالیں ہوئیں جن میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر بھی آئے مگر مجال ہے کہ حکومت نے کسی فورس کو استعمال کرنے کی رتی برابر بھی کوشش کی ہو۔اسی طرح گزشتہ سال سپین اور یونان کی معاشی بدحالی کے دوران عوامی احتجاج کو کسی طرح کے ظلم و تشدد سے نہ تو روکا گیا اور نہ ہی ان کو پُرامن احتجاج پر اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا، مگر ہمارے یہاں مثالیں تو ریاست مدینہ کی دی جاتی ہیں اور کام بنانا لینڈ سے بھی بتر ہے۔ میں مانتا ہوں کہ احتجاج کے قواعد و ضوابط تو ہونے چاہئیں اور حکومت کو اس کا اثر بھی لینا چاہئے تاہم احتجاج چیچو کی ملیاں میں ہو یا کسی بھی اسمبلی کے باہر دونوں کی اہمیت و آواز کو سننا و سمجھنا چاہئے،کیونکہ یہ ہی حقیقی جمہوریت ہے۔
حال ہی میں سی ای آئی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا جی ڈی پی گذشتہ سالوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بڑھنے کے باوجود مہنگائی میں ہوش رُبا اضافہ کیا گیا تاکہ غریب کبھی اپنے پاوں پر کھڑا نہ ہو سکے۔ ملک میں مافیا اْسی طرح عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں مگر ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا نہیں ہے۔ حکومت کی ساری تانیں مظلوم و کمزور عوام پر ٹوٹتی ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام کو ہمیشہ ہی اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دیکھا کر لوٹا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ حکومتیں بھی یہی چورن بیچتی رہیں ہیں اور آج بھی انہی وعدوں سے معصوم عوام کے دل بہلائے جا رہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت، پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے سنجیدہ ہے تو خدا را سودی نظام کے خاتمے پر کام کیجئے، جس کی اہمیت کو لگزمبرگ جیسے ملک نے سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہو گئے،،عیسائی آبادی اور یورپ کے وسط میں موجود ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے ملک کو سود سے مکمل طور پر پاک کر کے اسلامی معاشی نظام رائج کر دیا جو ہر اسلامی فلاحی ریاست کا دعویٰ کرنے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے، جو عرصے دراز سے قرآن کے اس بنیادی حکم کو بھی نافذ نہیں کر سکے اسی اسلامی فلاحی ریاست کے زریں اصولوں میں پسینہ بہنے سے پہلے مزدور کی اُجرت دینے کا حکم تو ہے مگر اس کا حق نہ رکھنے کا بھی حکم ہے۔
اشفاق احمد فرماتے تھے کہ جب وہ یورپ کی عدالت میں گئے تو جج اور عدالتی عملے نے اٹھ کر استقبال کیا کہ عدالت میں ایک استاد موجود ہے، مگر عجیب لوگ ہیں ہم استاد، وکیل، ڈاکٹر حتیٰ کہ مزدور، کسان اور نابینا افراد بھی اپنا حق مانگیں تو ان کی لاٹھی، گولی، جیل و آنسو گیس سے تواضع کی جاتی ہے، حالانکہ اسلام میں تو جانورں کے بھی حقوق ہیں ان پر بھی بے جا ظلم کرنے کا کسی کو حق نہیں تو پھر انسانوں کے ساتھ ناروا سلوک تو انتہائی شرم ناک بات ہے۔ہمارے وزاء کی سنجیدگی کا عالم تو یہ ہے کہ غریب و مجبور کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ظلم کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اسی اسلام آباد کی سڑکوں پر ہم نے احتجاج کرنے والوں کو پی ٹی وی، سپریم کورٹ اور ریڈ زون میں کھڑے ہو کر بجلی کے بل جلاتے اور سول نافرمانی کی بات کرتے دیکھا و سنا تو پھر کسی مظلوم کے احتجاج پر اتنا غضب کیوں؟
اب اس کلچر کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ موجودہ حکومت تو ملک سے ظلم و نا انصافی کے خاتمے کا نعرہ لے کر آئی تھی، مگر صورتحال اس سے قدرے مختلف نظر آرہی ہے،اب اگر موجودہ حکومت بھی اسی روش پر چلی تو پھریہ تبدیلی کی درست سمت نہیں ہے۔ احتجاج کو ختم کرنے کے دنیا میں بے شمار طریقے ہیں جن میں سب سے اہم اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ہے جس کے بعد مذاکرات کا نمبر ہے اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو آخری حل اپنی نا اہلی تسلیم کر لینا ہی بہادری ہے۔