خواتین کی تعلیم او رقومی ترقی
خواتین ہماری آبادی کا آدھا حصہ ہیں تو جب تک یہ آدھا حصہ ملکی معاملات میں برابر کا شریک نہ ہو‘ ہم ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ سیاسی‘ سماجی اور معاشی ترقی میں خواتین کو مساوی سطح پر لانے کے لیے تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر معاشرتی بیداری میں اولین چیز تعلیم ہے۔ ایک پرانا مقولہ ہے کہ: ”مجھے پڑھی لکھی مائیں دو اور میں ترقی یافتہ معاشرہ دوں گا۔“اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک پڑھی لکھی باشعور ماں ایک ایسے معاشرے کو جنم دیتی ہے جو قوم کی تقدیر بدل دے۔ ترقی کی بنیاد یہیں سے شروع ہوتی ہے مگر صرف اسی امر سے یکدم تبدیلی نہیں آتی۔جب تک ہم خواتین کو ایک انسان‘ ایک ذمہ دار شہری کی نظر سے نہیں دیکھیں گے‘ تب تک ملک کی ترقی میں تعلیم یافتہ خواتین کے کردار کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ دنیا میں انقلاب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ روسی انقلاب کے فوراً بعد سب سے زیادہ سکول لڑکیوں کے کھولے گئے۔ لڑکیوں کے لیے ہر کالج اور یونیورسٹی میں لڑکوں کے برابر جگہ رکھی گئی۔ خواتین کو نہ صرف تعلیم دینے کے لیے مقرر کیا گیا بلکہ طب‘ انجینئرنگ اور سائنس کے اہم شعبوں میں خواتین کو فوقیت دی گئی۔ یہی لائحہ عمل بعد میں انقلاب قبول کرنے والے ممالک نے اختیار کیا۔ یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد وہاں بھی خواتین کی اہمیت کو سمجھا گیا اور انہیں زندگی کے ہر شعبہ میں شامل کیا گیا۔
قائداعظمؒ نے قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران اور پھر پاکستان کے بن جانے کے بعد بھی اپنی ہر تقریر میں خواتین کی تعلیم پر زور دیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستانی خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ قومی ترقی میں حصہ لینا چاہیے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب ہم عورت کو کمزور سمجھنا چھوڑ دیں۔اسلام ایک انقلابی مذہب ہے جس نے ایک ایسے قبائلی معاشرہ میں جہاں لڑکیوں کو غیرت کے نام پر زندہ دفن کردیا جاتا تھا‘ اُن کے کوئی حقوق نہیں تھے‘ جو اپنے رشتہ دار مردوں کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں‘ خواتین کو برابری کا حق دیا۔ خواتین اور مردوں کو پیدائش کی بنیاد پر نہیں بلکہ اُن کے عمل کی بنیاد پر مقام دینے کی بات کی۔ سزا اور جزا برابر رکھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین مردوں سے کم تر نہیں۔ خواتین کو وراثت میں حق دیا۔ شادی میں اُن کی رضا مندی کو اُن کا حق سمجھا۔ جہاں قرآن نے خواتین اور مردوں دونوں کو قرآن پڑھنے کے لیے کہا۔
عالم اسلام کی آبادی ایک ارب بیس کروڑ ہے جس کی نصف خواتین ہیں۔ مسلم معاشروں کی خواتین کو باقی دنیا بھر کی خواتین سے بالکل علیحدہ حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسلام کے نام پرہی اُن کے دائرہئ کار کو مردوں سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم اور ملک کی ترقی سے الگ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔ یہ بات بھی سوچنے والی ہے کہ تعلیم کا مقصد محض دستخط کرنا یا محض ڈگریاں حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ذہنی تربیت‘ ذہنی بیداری اور شعور کی پرورش ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں جو ایک ترقی پذیر اور زرعی ملک ہے‘ تعلیم کا انداز نصابی نہیں بلکہ تربیتی اور خود احتسابی پر مبنی ہو تو فروغِ علم اور تحصیلِ علم کے سرچشمے زیادہ وسعت حاصل کرسکتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف کتاب پڑھنا نہیں بلکہ موجودہ غربت‘ جہالت‘ گندگی اور بیماریوں کو مٹانا ہے۔ زمین اور انسان کے رشتے کو مضبوط کرنا ہے‘ زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے لئے سائنسی اور فنی طریقے اپنانا ہیں‘ ٹیکنالوجی کے ذریعہ چھوٹی صنعتیں لگانی ہیں۔
ہمیں دیہات اور شہروں کے سکولوں کے نصاب کو الگ الگ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صرف عام مضامین میں بی اے یا ایم اے کی ڈگری لے کر نوکری کے لئے سرگرداں بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے سے ترقی نہیں ہوتی۔ غربت‘ افلاس اور بھکاری پن کا طوق اُتارنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی آدھی آبادی اور قوم کو ایسی معیاری تعلیم سے آراستہ کریں جس سے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دے کر ملک کو تیزی سے خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچائیں۔ ترقی کے لیے ایسا علم درکار ہے جو مارکیٹ کی ضرورت ہو‘ جو صنفی مساوات‘ خواتین کو بااختیار بنانے اور ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرسکے‘ جو خواتین کو اپنے ملک کے اندر پالیسی سازی میں شریک کرے۔ عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے۔ جوں جوں عورت مردوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں حصہ لے گی‘ اُسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا۔ اپنے وطن کی ترقی کا خواب دیکھنا اچھا لگتا ہے‘ کیوں نہ ہم آج ایک عہد کریں کہ قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مادرِ ملتؒ کے خواب کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی عورت امن‘ علم اور یکجہتی کا عَلم اُٹھا کر ایک نئی دنیا جو آج سے بہتر ہوگی‘ بنا کے دم لے گی۔ دنیا جو میری ہے نہ تیری ہے بلکہ ہم سب کی ہے۔
عورتوں کو وٹے سٹی کی شادی یا قرآن سے شادی کردینا‘ جنسی طور پر ہراساں کرنا‘ کام کی جگہ اور تعلیمی اداروں میں پریشان کرنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں عورتیں سرکاری اداروں جیسے پولیس‘ جیل اور وہاں کے متعلقہ افراد پر بھی اعتماد نہیں کرسکتیں حالانکہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر ایسی دستاویزات موجود ہیں جو عورتوں پر تشدد کے خاتمہ کے لئے مملکت کی ذمہ داری کا تعین کرتی ہیں۔ عورتوں کے خاندان والے ان کے گھروں سے باہر نکلنے سے‘ خصوصاً کسی دوسرے شہر میں تعلیم یا نوکری کے لئے بھیجنے سے گھبراتے ہیں۔ عام طور پر وہ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں تک رسائی سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔ ملازمت اور تربیت کے مواقع بھی اسی پابندی کی وجہ سے کھو بیٹھتی ہیں۔ معاشرے کی سرگرمیوں میں آزادی سے حصہ نہیں لے سکتیں اور بہت سا اہم تجربہ بھی حاصل نہیں کر پاتیں۔ یہ کمی آگے جاکر اُن کی ترقی میں حائل ہوتی ہے‘ مثلاً نوکری کے بہت سے مواقع کھو کر یا نوکری میں ترقی کے مواقع ان کو نہیں ملتے کیونکہ مردوں کے برعکس اُن کا تجربہ زیادہ نہیں ہوتا۔
پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابری کا حق دیتا ہے اور عورتوں اور بچوں کا تحفظ مملکت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے‘لہٰذا خواتین کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرکے ہم وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر تیزی کے ساتھ گامزن کرسکتے ہیں۔