چینی افواج کا ماضی اور حال (2)
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی کہ ایک آفیسر کا بیٹا جو اے لیول کا طالب علم تھا اس نے پوچھا: ”انکل یہ بتائیں کہ امریکہ کے سپرپاور ہونے کا راز کیا ہے؟ کیا اس کی فوج بڑی ہے یا اس کے پاس دولت زیادہ ہے یا ٹیکنالوجی میں امریکی قوم سب سے آگے ہے؟“…… اس پر میرے وہ معزز مہمان تو ذرا سوچنے لگے لیکن میں نے یہ کہا کہ میری نظر میں امریکی قوم کے عظیم ہونے کا راز یہ نہیں کہ ان کے پاس دولت زیادہ ہے یا فوج کی تعداد کثیر ہے بلکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کی عظمت کا راز یہ ہے کہ امریکی موت سے نہیں ڈرتے۔ ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں امریکن ٹروپس کو اتحادیوں نے ”گرین ٹروپس“ کا نام دے رکھا تھا جس کا ترجمہ ”تھڑدلے ٹروپس“ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن شاید یہی طعنہ تھا جو ان کو عظمت کی راہ پر ڈال گیا۔ فضائی قوت کے وہ موجد تو تھے ہی…… انہوں نے اس قوت کو بحراوقیانوس عبور کرکے یورپ کے جنگی میدانوں میں جا نکلنے کے لئے استعمال کیا۔ اس دور میں امریکی بحریہ بھی اتنی تیز رفتار نہ تھی کہ وہ واشنگٹن سے فرانس اور برطانیہ کے ساحلوں تک جانے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتی۔
پھر دوسری جنگ عظیم میں بھی امریکہ اس وقت تک اس جنگ میں شامل نہ ہوا جب تک پرل ہاربر پر جاپانیوں نے حملہ نہ کیا۔ اور پرل ہاربر پر جاپانی حملے کی تاریخ 7دسمبر 1941ء ہے۔ دوسری عالمی جنگ یکم ستمبر 1939ء کو شروع ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ سوا دو برس تک (ستمبر 1939ء تا دسمبر 1941ء) گومگو کے عالم میں رہا۔ اس نے اتحادیوں کو انصرامی (لاجسٹک) سپورٹ ضرور فراہم کی لیکن اپنے کسی سپاہی، ملاح یا ہوا باز کو اس جنگ میں نہ جھونکا۔…… کہا جا سکتا ہے کہ پرل ہاربر پر جاپانی حملہ امریکہ کے لئے ایک واٹرشیڈ ثابت ہوا۔ اب اس کو فیصلہ کرنا تھا کہ اس جنگ کا محض ’ناظر‘ رہے یا باقاعدہ ایک فریق بن جائے۔ سو اس نے موخرالذکر آپشن کو گلے لگایا اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
میری نظر میں امریکی عظمت کا یہ پہلا قدم تھا اور دوسرا قدم وہ ایٹم بم تھا جو اس نے اگست 1945ء کو جاپان پر گرایا اور اس خونریز جنگ کا خاتمہ کیا۔ یہ وہ ایام تھے جب اس کے اتحادیوں (فرانس، برطانیہ وغیرہ)کی کمر ہٹلر کی افواج نے توڑ کر رکھ دی تھی۔ اس جنگ میں اگرچہ سب سے زیادہ اموات (سول اور ملٹری) روس کی ہوئیں لیکن جب یہ جنگ ختم ہوئی تو امریکہ واحد فاتح ملک تھا۔ باقی اتحادی اقوام فاتحین میں شامل تو تھیں لیکن زخم زخم تھیں۔ اگر امریکہ نہ ہوتا تو سارا یورپ، جرمنی کے سامنے سرنگوں تھا۔ ہم پاکستانیوں کو اس جنگ کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ برطانیہ، برصغیر سے کیوں نکلا۔ جنگ تو اگست 1945ء کو ختم ہو گئی تھی۔ لیکن انگریز برصغیر میں جنگ کے خاتمے کے بعد بھی دو سال تک ٹکا رہا۔ اہلِ ہند ان دو برسوں میں بھی یہ اندازہ نہ لگا سکتے کہ برطانیہ اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اگر اہلِ ہند (ہندو، مسلمان، سکھ) ہمت کرتے تو اگست 1945ء کے بعد انگریزکو برصغیر سے دھکے دے کر باہر نکال سکتے تھے…… ہمارے ہاں 88سال پہلے 1857ء میں ایک جنگ ہوئی تھی جس کو انگریز نے بغاوت اور غدر کا نام دیا تھا اور ہم اسے اب پہلی جنگِ آزادی کہتے ہیں۔ اگر 1857ء میں تقریباً ایک سو سال پہلے ہندوستان کے باسیوں نے انگریزوں کا تیا پانچہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی تو 1945ء کے اواخر میں کس بات کا انتظار تھا؟…… جس طرح مئی 1940ء میں ہٹلر نے فرانس کو شکست دی تھی اور جس طرح فرانسیسیوں نے ملک کے جنوبی حصے میں پسپا ہو کر ایک مزاحمتی تحریک منظم کر لی تھی اور جس میں چارلس ڈیگال جیسے لوگ پیدا ہو گئے تھے تو کیا ہندوستان میں ویسا کوئی ایک بھی آزادی کا طلبگار وطن پرست نہ تھا کہ وہ اسی قسم کی تحریک کو منظم کرنے میں کوئی کردار ادا کرتا؟……
میرے ان دلائل کے بعد مباحثے کا ٹمپو خاصا تیز اور گرم ہو گیا تھا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ بہ فیضِ میڈیا، اب گھر گھر میں ایک ٹاک شو دیکھنے میں آتا ہے۔ لوگ طنز و مزاح اور تفریح طبع نام کے الفاظ بھول چکے ہیں۔ اب ہر گھر کا بالغ فرد (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) سیاسیات پر بات کرنا اپنا انفرادی اور اخلاقی فرض گردانتا ہے…… ایک اور دوست نے میری تائید کی اور کہا امریکہ نے جب محوری قوت جاپان کو جوہری بموں کے ذریعے شکست پر مجبور کر دیا تو اس نے واحد عالمی قوت کا تاج اپنے سر پر سجانے کا فیصلہ کر لیا…… وہ امریکی جو چند برس بیشتر ”تھڑ دِلا“ کہلاتا تھا، اب فکرِ مرگ سے آزاد نظر آنے لگا۔
دوسری عالمی جنگ جب اگست 1945ء کو ختم ہوئی تو چار برس بعد کوریا کی جنگ شروع ہو گئی۔ یہی پہلی جنگ تھی جس میں چینیوں نے اپنے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کی زیرِ قیادت جنگ عظیم کے واحد فاتح امریکیوں سے ٹکر لی اور نہ صرف اپنی کثرتِ تعداد کے بل پر بلکہ جدید جنگ کے تمام داؤ پیچ اور جدید حرب و ضرب کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر امریکہ کی آٹھویں فوج کو شکست دی۔ لیکن یہ بات پھر بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ چینیوں نے اس معرکے میں بھی دفاعی جنگ میں اپنا لوہا تو منوایا لیکن جارحانہ جنگ میں امریکہ کا مقابلہ نہ کر سکے…… دوسری طرف امریکہ جنگ کوریا کے بعد ویت نام، افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن وغیرہ میں جارحانہ جنگوں کو آزماتا رہا۔ ان جنگوں میں اس کا جانی نقصان تو ہوا لیکن اس نے اس نقصان کی پرواہ نہ کی…… اور یہی امریکی برتری کا راز ہے! امریکہ اپنے جانی نقصانات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک کے بعد دوسری جارحیت کا ارتکاب کرتا رہا ہے اور کامیاب ہوتا رہا ہے…… دوسرے لفظوں میں امریکہ کسی ”سرد یا مصنوعی“ جنگی ایکسرسائز کا قائل نہیں۔ وہ ”گرم اور اصلی“ جنگ کا قائل ہے۔ وہ اپنے ٹروپس کو منگولوں کی طرح سچ مچ کی زندہ جنگ میں دھکیل کر عسکری تربیت کا سامان کرتا رہتا ہے…… اور اب چین بھی اسی راستے پر گامزن ہونا چاہتا ہے۔
چینی لیڈروں نے جس ”سخت تر“ ٹریننگ کا بیڑا اٹھانے کا عزم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ چینی عسکری لیڈرشپ اصل اور گرم جنگ کا ماحول تخلیق کرکے جنگی ٹریننگ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
یہ سن کر ایک اور نوجوان مہمان نے بڑا مدلل تبصرہ کیا۔ وہ کہنے لگا: ”اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین بغیر کسی گرم جنگ کا بازار گرم کئے بغیر گرم جنگ کی تربیت حاصل کرنا چاہتا ہے!…… یہ کیسے ممکن ہے؟ چین کا ٹریک ریکارڈ تو یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے حصول سے لے کر آج تک اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر نکل کر جنگ آزما نہیں ہوا۔ اس نے تو صرف ایک ماہ تک اگر انڈیا کے خلاف جنگ کی بھی ہے تو یہ عرصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری طرف انڈیا، پاکستان کے خلاف چار جنگوں میں شریک رہا ہے…… 1947-48، 1965ء، 1971ء اور 1999ء کی جنگوں کا دورانیہ کم و بیش ضرور ہوتا رہا لیکن اس میں خونریزی کی شدت کم نہیں تھی۔ گزشتہ برس 15جون کو چین نے مشرقی لداخ میں جھیل پاگونگ کے کناروں پر انڈیا کے 20سورما ہلاک کر دیئے تھے۔ لیکن اس کے بعد ایسا سٹینڈ آف قائم ہوا کہ بالآخر دونوں فوجوں کو اپنے اگلے مورچے ختم کرکے واپس پہلے والی پوزیشنوں پر جانا پڑا۔ چین ایک عرصے سے کہتا رہا کہ 15جون والی لڑائی میں دونوں طرف اموات ہوئی تھیں۔
لیکن PLA (پیپلزلبریشن آرمی) کے کتنے ٹروپس مارے گئے تھے اس کی کوئی سُن گُن عالمی میڈیا کو نہ دی گئی۔ اب تقریباً ایک ہفتے سے چین کی وزارتِ دفاع نے پہلی بار یہ اعلان کیا ہے کہ اس کے 4سپاہی 15جون والے حملے میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے…… دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اعتراف کے بعد بھارت کا بیانیہ تبدیل ہو گیا۔اب انڈیا کہتا ہے کہ اس کشمکش / جھڑپ میں دونوں اطراف کے 24آفیسرز اور سپاہی مارے گئے تھے۔ اس بیانیے میں ویسے تو کوئی بات غلط نہیں لیکن جو بات واضح نہیں وہ یہ ہے کہ چین کے صرف 4ٹروپس مارے گئے اور انڈیا کے 20ہلاک ہوئے…… ان دونوں میں ایک اور پانچ کی نسبت ہے۔ یعنی چین نے اپنے ایک سپاہی / آفیسر کے بدلے انڈیا کے پانچ آفیسرز / سولجر مار ڈالے تھے…… اگر چین اس طرح کی جھڑپوں کو ”سخت تر“ ٹریننگ کا نام دیتا ہے تو اسے اپنی دیرینہ روائت کو خیر باد کہنا پڑے گا۔
چین کا کوئی سپاہی اقوام متحدہ کی کسی امن فوج میں بھی شامل نہیں …… البتہ چین اب کچھ عرصے سے اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر اپنے ہمسایہ ممالک (روس، پاکستان، کرغستان وغیرہ) کی افواج کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں کر رہا ہے۔ لیکن یہ مشقیں بھی خواہ کتنی ہی سخت ہوں، گرم اور اصل جنگ کا مماثل تو قرار نہیں دی جا سکتیں۔ ان مشقوں کا ایک بڑا مقصد تو جنگ کے دوران مختلف حربی صورت حال (Situation) کی وضاحت کرنے کے لئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ زبان و بیان کی یکسانیت ہے…… پاکستان اور چین کی فورسز کے درمیان زبان کا اختلاف ظاہر و باہر ہے اس لئے ”باہمی آپریشن کاری“ (Interoperability) کی غرض سے جس زبان اور جن اصطلاحات کی ضرورت ہے، وہ انہی مشقوں سے حاصل کی جاتی ہے۔
اتنے میں 11بج چکے تھے…… ڈرائنگ روم کے دروازے پر دستک ہوئی اور بتایا گیا کہ میز پر کھانا چن دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس طرح یہ ”گھریلو ٹاک شو“ اختتام کو پہنچا۔(ختم شد)