”تجاوز موت ہے“
کھانے کی میز کے گرد چاروں دوست دھواں دار بحث و تکرار میں مبتلا تھے۔لگتا تھاکہ وہ ریستوران میں کھانا کھانے کے لئے نہیں،بلکہ بحث و مباحثہ کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ان کے شور سے ریستوران میں موجود دیگر گاہکوں کے سکون و معاملات میں مداخلت ہو رہی تھی۔کئی ایک نے توبیروں کو بلا بلا کر اُنہیں خاموش کرنے یا کم آواز میں بات کرنے کابھی کہا۔چاروں دوستوں کے درمیان موضوعِ گفتگو وطنِ عزیز کے مختلف شعبہئ ہائے زندگی میں تنزل یا گراوٹ کی جُدا جُدا وجوہات تھیں۔چاروں کی آراء مختلف تھیں اور چاروں اپنی آراء پرشدت سے اڑے ہوئے تھے۔ایک کے نزدیک وطنِ عزیز میں معاشرتی اور معاشی بد حالی کی بُنیادی وجہ سیاسی نظام کامغرب کے نظامِ سیاست پر استوار ہوناہے۔دوسرے کی رائے میں اِن حالات کی ذِمّہ دار انتظامی مشینری یا بیوروکریسی تھی۔تیسرے کے نزدیک یہ سب عدالتی نظام میں کَجی کاکیادھرا تھا۔چوتھا اسے تعلیمی نظام کی ناکامی سے عبارت کررہا تھا۔
کتابوں کا سہارا لیں،عقل کے گھوڑے دوڑائیں،دانشوروں کی گفتگو سُنیں یا شاعروں،ادیبوں کی تخلیق کردہ اصنافِ اَدب کامطالعہ کریں تو معلوم ہو تا ہے کہ پوری کائنات اور کائنات کی جُملہ جُزیات کسی نہ کسی مربُوط نظام میں جُڑی ہیں۔ اولاً کائنات بذاتِ خودسب سے بڑا نظام ہے۔اگر اس کے اندر کوئی کَجی ہوتی تو صدیوں کے لامتناہی سلسلے لمحہئ موجودسے نہ جڑے ہوتے۔کائنات میں کچھ نظام، فطرت کے اصولوں کے تابع کر دیئے گئے ہیں اور کچھ کی تخلیق انسان نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر نظام ہائے فطرت کی تقلید میں خود کی ہے۔آج نوعِ انسانی ایک طرف نظامِ فلکی،نظامِ ماحولیات،نظامِ اَرضی،نظام تخلیقِ زندگی،نظامِ آب و ہوا کی مثالیں ہیں تو دوسری طرف نظامِ آبپاشی،نظامِ مواصلات،نظامِ نقل و حمل اور اسی طرح کمپیوٹر کا نظام،بارودی نظام اور سائنسی نظام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اپنی بات کو آگے بڑھانے اور کسی ریستوران میں بیٹھے دوستوں کوبحث وتکرار سے بچانے کے لئے ہم انسان کی مثال کو سامنے رکھتے ہیں۔حضرتِ انسان قدرت کا خوبصورت ترین تخلیقی کرشمہ ہے۔جہاں اسے قرآنِ کریم نے سورۃوالتین میں ”احسن التقویم“ قرار دیا ہے،وہاں سورۃ”بنی اسرائیل“ میں اسے اشرف المخلوقات کے لقب سے بھی نوازا ہے۔جب ہم انسان کی ساخت پرتوجہ دیتے ہیں توہر انسان کے اندر اَن گنت نظام اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ کارپاتے ہیں۔ ایک طرف انسان کادماغی واعصابی نظام ہے تودوسری طرف نظامِ دورانِ خون،نظامِ تنفس،نظامِ اخراج،نظامِ بصارت،نظامِ سماعت،نظامِ جلد اور دیگر پیچیدہ ساختیاتی نظام رواں دواں ہیں۔انسان کے روحانی،جذباتی اور نفسیاتی نظام کی ایک الگ اپنی کائنات ہے۔اگرچہ انسان کے اندر موجود ہر نظام اپنی جُداگانہ شناخت رکھتا ہے۔تاہم ان میں سے کوئی ایک نظام بھی تنہا اپنے وجود اور اعمال کو دوام نہیں بخش سکتا جب تک جسم کے دیگر نظام اُس کی معاونت میں مصروفِ عمل نہ رہتے ہوں۔گویا جسم میں موجود ہرنظامِ زندگی اپنی کارکردگی کے تسلسل کے لئے دیگر نظاموں کی کارکردگی کے تسلسل کا مرہونِ منت ہے۔
نظام کیا ہے؟ نظام ایک ساختیاتی تنظیم ہے جو مختلف جزیات پر مشتمل ہے اور ہر جزو دوسرے سے نہ صرف جڑا ہے بلکہ اپنی بقاء کے لئے دوسرے نظام کے افعال کی احسن ادائیگی کامرہونِ منت ہے۔نظامِ دورانِ خون کی ہی مثال لے لیجیے۔ بھلے دل اس نظام کا مرکزی پُرزہ ہے،تاہم اپنے فعل کی روانی کے لئے ہمیشہ وریدوں اور شریانوں کامحتاج ہے۔
ریاست ِ انسانی جسم کی مانند ہے،جس میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ نظام افعال ِ متعلقہ سرانجام دیتے ہیں اور ہرنظام اپنی بقاء کے لئے دیگر نظاموں کامحتاج ہے۔جیسے انسانی جسم میں ایک نظام میں نقصِ عمل پیدا ہوتا ہے توپورا جسم لاغروبیمار ہوتا جاتا ہے۔یہی حال ریاست کا بھی ہے۔ سیاسی نظام،ریاست کی اندرونی اور بیرونی بقاء کے لئے قانون سازی کا سزاوار ہے۔ انتظامیہ بنائے گئے قانون کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی پابند ہے۔ عدلیہ قانون کی تشریح،اطلاق میں پائی جانے والی لغزشوں کی درستگی اور انصاف کی ترسیل کویقینی بنانے کی ذِمّہ دارہے۔اگرچہ جسمانی نظام کی طرح ہر ریاستی نظام دوسرے نظاموں سے جُڑا ہے۔تاہم اگر ایک نظام کے اعضاء، جیسے دل یا جگر، اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگ جائیں اور علاج کے باوجود اپنی اصلی حالت میں نہ آپائیں تو نتیجہ موت ہوتا ہے۔اسی طرح ریاستی امور کی انجام دہی کے دوران دوسرے ادارں کی حدود میں داخل ہونا یاتجاوز کر جانا ریاستی بدن کو بیماراور کمزور کر دیتا ہے۔
آج ہر صاحبِ شعور اور باخبر شخص جانتا ہے کہ ریاستی ادارے یا مختلف نظام ہائے ریاست نہ صرف اپنی کارکردگی کوابترانداز سے چلا رہے ہیں بلکہ دوسرے نظامِ ہائے ریاست کی حدود پر تجاوزبھی کر رہے ہیں۔اپنے اپنے شعبوں میں مقتدر حیثیت میں بیٹھے احباب خود کو عقلِ کُل سجھتے ہوئے،اپنے ملازمتی گروہ سے وابستگی یا لگن کے باعث یا اپنے ادارے کو دیگر اداروں سے بلند و بَرتر ثابت کرنے کے جذبہ سے سرشار وہ سب کچھ کیے جا رہے ہیں،جس کا ذِکر اُن کے نصابِ حیثیت میں کہیں بھی درج نہیں ہے۔اُنہیں تعصب اور انانیت کے دبیز چشمے حقیقت کے ادراک سے کافی دور رکھے ہوئے ہیں۔اُن کی ادارہ جاتی کشمکش کا اثر عام شہری کی زندگی پر کیسے ہو رہا ہے،اس سے جیسے اُنہیں کوئی غرض ہی نہیں۔انہوں نے اپنے فرائض منصبی کَما حَقّہُ ادا کرنے کی بجائے نہ صرف دوسرے اداروں میں پائے جانے والی لغزشوں کی نشاندہی پر توجہ مرکوز کررکھی ہے،بلکہ ہرادارے نے دوسرے ادارں کے اختیار وفرائض میں مداخلت کو ضروری سمجھ لیا ہے۔جس کے ذمّہ قانون سازی ہے وہ گلیوں اور سڑکوں کے ٹھیکے دِلانے میں مصروف ہے،نائب قاصد اور چوکیدار کی تقرری اورتبادلے کرانے کے لئے دفتروں میں براجمان ہے۔انتظامی معاملات کو دیکھنے کے ذِمّہ دار تکنیکی شعبوں پر دسترس حکم میں مصروف ہیں۔انصاف کے تقاضے نباہنے کے ذِمّہ دارانتظامیہ کو نیچا دِکھانے کے دَرپے ہیں۔اگر یہ عمل اسی طرح جاری و ساری رہا تو ریستورانوں میں بیٹھے دوست یونہی بحث و تکرار میں الجھے، الگ الگ اداروں کو ذِمّہ دار ٹھہراتے رہیں گے۔