شراکت سے امارت

  شراکت سے امارت
  شراکت سے امارت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کیا کوئی ایسی بیماری ہے جس سے ہمارا قومی وجود محفوظ ہو۔ اگر کسی مرض سے محفوظ ہے تو پراپیگنڈہ ایسے کیا جاتا ہے جس سے یہ مرض بھی لاحق، لگتا ہے۔آرڈیننس پر آرڈیننس لائے جاتے ہیں۔ ایک پیکا ایکٹ میں ترمیم اور اضافہ لایا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس پر کہہ دیا۔”بس بھئی بس“۔
ہم آگ سے آگ کو بجھانے،جھوٹ سے جھوٹ کو دبانے، ظلم سے ظلم کو مٹانے اور خون سے خون کو دھونے کیلئے سرگرداں ہیں۔سیاست میں اختلاف برداشت سے باہررہا جوذاتیات سے آگے دشمنی  تک چلا جاتا ہے۔پی پی اور  ن لیگ نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کی حکومت کو دو دو بار گرانے کے بعد 14مئی 2006 کو چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت دشمنی سے تائب ہوگئیں۔اب مل کر تحریک انصاف کیلئے پرانے شکاری پرانا  جال بُن رہے ہیں جبکہ آپس کی نفرتوں میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔پی پی اور ن لیگ کو دست و گریباں رہنے سے اقتدارکے سرکس سے دس سال باہر ایک ٹانگ پر کھڑا رہنا پڑا تھا۔یہ لوگ پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کیساتھ خود بھی گرسکتے ہیں اور پھر اُٹھنے میں کتنا عرصہ لگے گا؟مہنگائی کا جن بے قابو نظر آتا ہے۔ مہنگائی ضرور ہے مگر نوبت  فاقہ کشی تک کبھی آئی ہے نہ آئے گی۔جب تک اہل دل،خانقاہیں اور مزارات موجود ہیں کوئی  بھوک سے نہیں مرے گا۔ مگریہ بھی درست ہے۔ع
اور بھی غم ہیں زمانے میں ”روٹی“ کے سوا


فاقہ مست تو مل جائیں گے فاقہ کش نہیں۔یہ ذرا متنازعہ موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔آج ایک ٹنشن اور اس کے تدارک کی بات کرتے ہیں۔
بحث اس جوش و خروش سے ہورہی تھی، یوں جانئے زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ ایک سیانے نے روایتی بات دہرائی۔ ”غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہورہا ہے۔ ایک طرف بلند و بالا محلات ایوان و شبستان تو دوسری طرف فاقہ مست انسان اور انکے ٹوٹے پھوٹے گھروندا نما مکان اور ایسے مکان بھی سب کی قسمت میں کہاں؟ دولت کا ارتکار چند ہاتھوں میں ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان مال و دولت کی وسیع خلیج ہے جو نفرت میں بدل رہی ہے۔ لوٹ مار کلچر کے باعث ایک طرف شاہانہ زندگی ہے تو دوسری طرف بھوک، ننگ اور افلاس و پسماندگی  ہے“… ان صاحب کی بات کاٹتے ہوئے دوسرے دانشور نے کہا حضور، بیماریوں کی نشاندہی ہوچکی…ع
علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں 


سیانے نے کہا ”ہاں ہے بالکل ہے۔ سب سے بڑی بیماری لوٹ مار، کرپشن، بے ایمانی، رشوت، ہیرا پھیری‘ ذخیرہ اندوزی  ہے۔ اسی کے سبب معاشرے میں بگاڑ ہے۔ اسکا خاتمہ صرف ایک اقدام سے کیا جاسکتا ہے، صرف ایک سے“… یہاں پہنچ کر سیانے نے توقف کیا تو ہر گوش ہمہ گوش اور ہر نظر اسکے چہرے پر گڑ گئی۔ تھوڑی دیر مزید خاموشی اختیار کی تو ایک بے چین آواز ابھری ”وہ کیا؟“ سیانے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”کرپشن ہونے دیں، لوٹ مار جاری رہے، جو بھی جو کچھ کر سکتا ہے، جائز ناجائز‘ اسے کرنے دیں، صرف معاشرے میں بے لاگ انصاف کی فراہمی یقینی بنا دیں تو ہر برائی کا خاتمہ ہوجائیگا۔اے آر خالد اپنی کتاب ”اعدلو“ میں امام غزالی  کے حوالے سے لکھتے ہیں۔”اللہ کریم اگر دنیا سے اپنی آخری کتاب  قرآن مجید واپس لے لے اور انسانوں کیلئے ایک لفظ اعدلویعنی عدل کرو رہنے دے  تو بھی معاشرہ زندہ و سلامت رہ سکتا ہے جس طرح ایک برگزیدہ شخص نے جھوٹ چھڑوا کر ایک گناہگار کو پارسا بنا دیا تھا“۔


”دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز، غربت میں اضافے اورآجر و اجیر کے درمیان بلند اور مضبوط ہوتی نفرت کی دیوار کے ڈھا دئیے جانے کا بھی کوئی حل ہے…؟“ محفل میں بیٹھے ایک اور زمانہ ساز نے پوچھا۔ اس پر سیانا خاموش رہا تو لباس اور وضع قطع سے جدت پسند نظر آنیوالا نوجوان خاموشی کو توڑنے ہوئے بولا ”جی ہاں، اس حوالے سے ہمیں مچھیروں سے رہنمائی لینی چاہئے“… ”مچھیروں سے؟“… نوجوان کی بات پر تین چار نے یک زبان ہو کر کہا، ”ہاں مچھیروں سے، میری اس حوالے سے کافی معلومات ہیں۔ کراچی کے ساحل سے ماہی گیر سمندر میں کشتی ڈالتے ہیں تو اس پر 40 سے 50 اور کبھی اس سے زائد افراد سوار ہوتے ہیں۔ ان کا مہینے بھر کا راشن بھی موجود ہوتا ہے۔ چھوٹی  کشتی کی بات نہیں ہورہی، ٹرالر کی بات کررہا ہوں۔ ٹرالر میں مچھلی کی گنجائش بارہ تیرہ سو من ہوتی ہے۔ سڑکوں پر چلتے ٹرکوں میں اس سے زیادہ بوجھ لدا ہوتا ہے۔ اتنا ہی ٹرالی پر گنا بھی لاد دیا جاتا ہے۔ مچھیرے سمندر میں اپنی مرضی کی مچھلی کی تلاش میں رہتے ہیں اور اسی جستجو میں دوسرے ممالک کی حدود میں داخل ہونے پر پکڑے بھی جاتے ہیں۔ انکو مرضی کی مچھلی مل جائے تو اندازہ کیجئے وہ کتنے فائدہ میں رہیں گے؟“ سب اپنے اپنے اندازے لگا رہے تھے کہ نوجوان نے بتایا۔ ”ہوسکتا ہے کہ مچھیروں کو پہلے دن ہی مچھلیوں کے غول مل جائیں اور وہ دوسرے دن ٹرالر بھر کر واپس چلے آئیں۔ دو، چار، دس دن اور مہینہ بھی لگ سکتا ہے۔ اگر مرضی کی مچھلی مل جائے تو اسکی قیمت ایک کروڑ اور اس سے زائد بھی ہوسکتی ہے“۔

اس پر محفل کے تمام شرکاء  چونکے اور وضاحت طلب نظروں سے اپنی جگہ کسمساتے ہوئے نوجوان کی طرف دیکھا ”ٹرالر میں پچاس ہزار کلو (1250 من) مچھلی آسانی سے سما سکتی ہے۔ آپ اپنے ہاں مچھلی کی قیمتوں کا اندازہ کیجئے۔ پانچ 6 سو تین سو سے کم نہیں ملتی۔ بہترین مچھلی کی قیمت ہزارپندرہ سو روپے کلوسے بھی زیادہ ہے۔ ماہی گیر اگر ۵ سو روپے کلو بھی فروخت کریں تو رقم  ڈھائی کروڑ بنتی ہے۔ ہم بات مچھلی کے کاروبار کی نہیں، دولت کے ارتکاز اور نفرتوں کے خاتمے کی کررہے ہیں۔ ان ڈھائی کروڑ کا کوئی ایک مالک نہیں ہوتا۔ کشتی پر سوار کشتی کا مالک بھی مزدور ہوتا ہے۔ ایک ضابطے کے تحت حصے مقرر کئے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ کشتی کے 8 حصے ہیں جس میں تیل، پانی اور خوراک کے اخراجات بھی آجاتے ہیں۔ ڈرائیور(نکوا)، مزدور، خانسامے اور بیرے ہر ایک کا حصہ مقرر ہے۔ جب غول نظر آئے تو ہر مزدور اس پر لپکتا اور جھپٹتا ہے۔ اپنی جان لڑا دیتا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اسکی مزدوری طے نہیں، اسے حصہ ملے گا۔ جتنی زیادہ مچھلی جال میں آئیگی اتنی زیادہ اسکی زندگی میں خوشحالی آئیگی۔ آپ یہ سسٹم روزمرہ زندگی میں سمندر کے باہر بھی آزما کر دیکھ لیں۔ جہاں ممکن ہے وہاں تنخواہوں کے بجائے آمدن میں سے حصہ مقرر کردیں تو مزدور، چپڑاسی سے منیجر تک اپنے خون پسینے کا ایک ایک قطرہ کاروبار کو انتہا تک پہنچانے کی خاطر بہانے پر جوش و جذبے کے ساتھ آمادہ و مائل ہوگا“۔ ایسی شراکت سے امارت کے دروازے یقیاً کھل سکتے ہیں۔ نظر آئے گا۔

مزید :

رائے -کالم -