جیل بھرو جو ہم پر بیتی!

 جیل بھرو جو ہم پر بیتی!
 جیل بھرو جو ہم پر بیتی!

  


 تحریک انصاف جیل بھرو تحریک میں کامیاب ہے یا نہیں، یہ میرا مسئلہ نہیں، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تحریک اپنے چیئرمین عمران خان کے قول پر پورا اتری ہے،کپتان نے واضح کہا تھا کہ ان کو ہٹایا گیا تو وہ خوفناک ہو جائیں گے اور پھر اضافہ کیا بہت خطرناک ہو جاﺅں گا، چنانچہ اپنے قول کے مطابق وہ واقعی خطرناک ہو رہے ہیں اور ان کی جماعت والے ان کے مقاصد کی تکمیل دِل و جان سے کر رہے ہیں،اِس وقت جب معاشی بحران شدید ہے اور ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے کہ سارے اختلافات بالائے طاق رکھ کر ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لئے سب لوگ (سیاسی+ غیر سیاسی+ ٹیکنو کریٹ) ایک میز پر بیٹھ کر متفقہ حل تلاش کریں کیونکہ اِس وقت صورت حال قرض کی مہ پی کر فاقہ مستی کے رنگ لانے والی بات ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ دراز ہوا تو بھی مشکل در مشکل ہو گی کہ اب تو قرض اتارنے کے لئے قرض لئے جا رہے ہیں اور پھر ایک حد وہ بھی آ سکتی ہے جہاں یہ سب رک جائے،نہ قرض مل سکے اور نہ قرض کی قسط ادا کی جا سکے۔ضروری ہے کہ ملک کو ترقی کی ایسی شاہراہ پر ڈالا جائے جہاں جلد بدیر یہ نوبت آ جائے کہ ہم مزید قرض لینے کی حاجت سے ماورا ہو کر قرض اتارنا شروع کر دیں۔ورنہ تو جو غیر ملکی منصوبے قرض پر چل رہے ہیں اگر ان کی ادائیگی نہ ہوئی تو اخلاقی طور پر قرض دینے والے وصولی کے لئے خود یہ نظام سنبھال لیں گے،بہتر عمل تو یہی ہے کہ اتفاق رائے سے کاروبارِ مملکت اور کاروبارِ صنعت و تجارت چلے اور ہم نئے قرضوں سے پہلے چھٹکارا پا کر قرض اتارو مہم کا آغاز کر سکیں۔ اگر اتنا وسیع اتفاق رائے ہو گا تو قوم بھی پیروی کر لے گی مگر افسوس یہ خواہش اب تک تو خواہش ہی رہی ہے۔


یہ تو ایک خواہش اور التجا ہے جو مسلسل کی جا رہی ہے، اصل خبر تو یہ چل رہی ہے کہ جیل بھرو تحریک کے لئے فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر روز دو سو کارکن اور رہنما گرفتاری دیں گے تاحال80 سے زیادہ تعداد نہیں ہوئی اور خیبرپختونخوا سے تو صرف دو کارکن گرفتار ہوئے۔سندھ کا ابھی نمبر نہیں آیا،لاہور اور راولپنڈی بھگتائے گئے ہیں۔اب بھی فواد چودھری اکیلے ترجمانی کے فرائض انجام دیتے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک دو سو سے زائد رہنما اور اراکین جیل جا چکے ہیں۔انہوں نے بھی اپنے چیئرمین عمران خان کی طرح گرفتار ہونے والوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کرنے پر احتجاج کیا ہے۔ان کا یہ احتجاج بجا ہے،ویسے بھی اگر حالات یہی رہے اور گرفتاری دینے والوں کا تناسب بھی اسی طرح رہا تو فواد چودھری کی باری آنے میں دیر نہیں لگے گی،یہ تجربہ مجھے ذاتی طور پر ہے۔
پہلے تو یہ واضح ہو جائے کہ ماضی میں جو بھی تحریک چلی وہ طے شدہ حکمت عملی کے مطابق ہوتی تھی، تحریک قیام پاکستان سے لے کر ایم آر ڈی،پی این اے اور پی ایف یو جے کی تحریکوں تک مقصد زیادہ سے زیادہ گرفتاریاں دینا ہی ہوتا تھا، تاہم حکمت عملی کے مطابق گرفتاری پانچ افراد دیتے تھے، میں نے تحریک پاکستان کا ذکر کیا تو ہم اندرون شہر کے رہنے والے موچی دروازہ سے نکلنے والے جلوس میں شامل ہو کر نعرے لگاتے رہے۔ریگل چوک تک چلے جاتے تھے، جلوس یہاں پہنچتا تو پانچ افراد گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے آگے بڑھتے اور چیئرنگ کراس(بالمقابل اسمبلی ہال) کی طرف بڑھتے اور یہی پانچ گرفتار ہوتے تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک جب شروع ہوئی تو پروگرام تب بھی پانچ ہی کا ہوتا اور یہ سب جلوس کی صورت میں نعرے لگاتے آتے،تاہم پولیس صرف انہی پر اکتفا نہ کرتی بلکہ جلوس والے دیگر حضرات میں سے بھی کئی حضرات کو پکڑ لیتی تھی، اس تحریک کے لئے لاہور میں مورچہ بندی تھی اور ہر روز مقام تبدیل کر لیا جاتا تھا۔


اب ذرا ذکر ہو جائے اپنی پی ایف یو جے کی اس تحریک کا جو برطرفیوںکے خلاف بھٹو دور میں43روز تک جاری رہی اور پھر بھٹو کے ساتھ معاہدہ ہو جانے کے بعد ختم ہوئی، یہ تحریک1974ءمیں روزنامہ ”مساوات“ کے39 کارکنوں کی برطرفی کے خلاف شروع ہوئی تھی کہ عباس اطہر نے میرے، ہمراز احسن اور اورنگزیب سمیت مجموعی طور پر39 ورکروں کو برطرف کر دیا اور اپنے محبوب جونیئر نوجوانوں کو اہم اور سینئر عہدوں پر بٹھا دیا تھا، سب مطالبات نامنظور ہونے کے بعد تحریک کا فیصلہ ہوا،یہ مئی، جون کے دن تھے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ محمد حنیف رامے (مرحوم) تھے، پریس کلب تب دیال سنگھ مینشن مال روڈ کے ایک فلیٹ میں تھی،یہیں اجلاس ہوتے تھے اور پھر تحریک بھی وہاں سے شروع ہوئی،ہر روز پانچ کارکن (صحافی+ نیوز ورکرز) ریگل چوک سے چیئرنگ کراس تک آتے اور یہاں ان کو144 ض ف کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ، رات تھانہ سول لائنز میں گذرتی اور اگلے روز عدالت میں پیش ہو کر جیل بھیج دیا جاتا۔اس تحریک میں شدید گرمی کے دوران خواتین نے بھی حصہ لیا تھا، میری، ہمراز احسن اور اورنگزیب کی شادی ایک ماہ کے وقفہ سے 1973ءکے آخر ی اور1974ءکے ابتدائی ماہ میںہوئی تھی، ہماری بیویاں بھی مسز تمکنت، شفقت تنویر مرزا کی قیادت میں جلوس میں شرکت کرتی تھیں، تنظیم نے گرفتاری دینے والوں کی فہرستیں مرتب کر لی تھیں اور ہر روز پانچ افراد جیل بھرنے جاتے تھے، میرے فرائض میں قانونی پیروی اور کارکنوں کی خدمت اور ان کو سہولت پہنچانا تھا، چنانچہ ہر روز گرفتاریوں کے بعد میں کھاناپکوانا اور دوپہر کو کیمپ جیل لے کر جاتا تھا جس کی بیرک10میں گرفتار ہونے والوں کو رکھا جاتا تھا۔


یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک روز کسی وجہ سے فہرست میں درج ایک ساتھی پہنچ نہ سکے تو ان کی جگہ میں نے اپنی خدمات پیش کیں اور گرفتار ہو کر رات سول لائنز کی حوالات میں گذاری،صبح کو جب عدالت جانے کا وقت آیا تو پولیس نے خلوص کے ساتھ گاڑی میں لے جانے اور ہتھکڑی نہ لگانے کی پیشکش کی، میں نے بشکریہ ہر دو خواہشیں مسترد کر دیں اور ہتھکڑی لگوا کر پیدل براستہ مال روڈ ضلع کچہری گئے، راستے بھر نعرے بھی لگاتے رہے۔ میں نے1963ءسے1970ءتک مسلسل کورٹس رپورٹنگ بھی کی تھی اس لئے ضلع کچہری میں فاضل مجسٹریٹ صاحبان اور اہلکار بھی شناسا اور محترم تھے۔چودھری لطیف(مجسٹریٹ درجہ 30) کی عدالت میں پیش کیا گیا، پہلے تو ریڈر اور اہلمد وغیرہ حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ کیا ہوا، میں نے ان کو بتا دیا کہ رضاکارانہ گرفتاری ہے۔چودھری لطیف (مرحوم) ریٹائرنگ روم میں تھے،میں نے ریڈر سے کہا کہ ان کو بُلا لیں تاکہ ہم جیل جا سکیں، چنانچہ وہ تشریف لائے اور ہمیں دیکھتے ہی مجھے مخاطب کر کے کہا ”اوئے،ایہ کہنوں لے آئے او، کی ہویا اے“ میں نے عرض کیا کہ تحریک کا سلسلہ ہے تو انہوں نے کہا مچلکہ دو اور ضمانت کرا کے جاﺅ ہم سب نے انکار کیا اور بتایا کہ جیل جانا ہے،انہوں نے یہ امر مجبوری ریمانڈ دیا اور پولیس والے ہمیں جیل حکام کے سپرد کر آئے اور باقی وقت ہم نے جیل میں گذارا کہ معاہدہ ہونے کے بعد رہا ہوئے،مجھ سے پہلے سلیم عاصمی اور افضل خان حضرات بھی یہاں موجود تھے اور بعد میں منہاج برنا صاحب بھی آئے، تو حضور! جیل بھرو کا طریقہ یہ ہوتا ہے یہ نہیں کہ اعلان ہو، روزانہ دو سو افراد گرفتاری دیں گے اور جانے والے80 اور81کے بعد صرف دو ہوں، اب ان حضرات کو پریشانی ہے کہ مختلف اور دور دراز والی جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے تو عرض یہ ہے کہ یہ خبر تو پہلے ہی نشر اور شائع ہو چکی تھی، پھر شکوہ کیسا، ہم صحافیوں اور کارکنوں کو تو1977ءمیں جنرل ضیاءالحق کی مشینری نے نہ صرف سخت اور دور دراز کی جیلوں میں بھیجا بلکہ تشدد بھی کیا اور کوڑے بھی لگائے تھے۔ ہمارا ایک ساتھی پیارا الطاف ملک جیل میں کی جانے والی بھوک ہڑتال کے باعث گردے خراب ہو جانے کے باعث ہمیں چھوڑ کر اللہ کے دربار میں حاضر ہو گیا تھا، واقعات بہت ہیں ایسے ہی کبھی کبھی کسی کا ذکر ہوتا رہے گا۔

مزید :

رائے -کالم -