صدر باراک اوباما کا سٹیٹ آف دی یونین خطاب
ڈیمو کریٹس صدر کے اس سالانہ خطاب کے سلسلے میں بہت پُرجوش تھے۔ غالباً ڈیمو کریٹس سمجھتے ہیں کہ عوامی بہبود کے لئے صدر باراک اوباما کے اقدامات کی کانگریس میں ری پبلکن اکثریت کی طرف سے مخالفت ڈیمو کریٹس کو آئندہ صدارتی انتخابات میں برتری دِلا سکتی ہے۔صدر باراک اوباما نے اپنے خطاب کے آغاز کے لئے اچھے اور پُراثر الفاظ کا چناؤ کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ ’’ایک روشن مستقبل ہم نے تحریر کرنا ہے۔ آئیں اس کے لئے ایک نئے باب کا مل کر آغاز کریں (شاید وہ ری پبلکن کو ساتھ دینے کے لئے کہہ رہے تھے) اور آیئے ابھی سے کام میں جُت جائیں‘‘۔
صدر کے اس اہم خطاب کے سلسلے میں ہفتہ بھر پہلے سے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ انٹرنیٹ تک یکساں رسائی، کالج کی تعلیم کے لئے مراعات اور بیماری بشمول زچگی کی چھٹیوں کا معاوضہ ادا کرنے کے بارے میں اعلانات کریں گے۔ بائیں بازو کے دانشوروں اور ڈیمو کریٹس کا خیال تھا کہ وال سٹریٹ کے امراء پر اضافی ٹیکس بھی لگائے جائیں گے۔انٹرنیٹ تک یکساں رسائی سے تو ری پبلکن کو کچھ زیادہ دلچسپی نہیں تھی، لیکن سائبر سیکیورٹی پر انہیں صدر سے اتفاق تھا اور خطاب سے پہلے ہی اس معاملے پر افہام و تفہیم ہو چکی تھی۔(ہمارے ہاں اسے ’’مُک مکا‘‘ کا نام دے کر بُرا سمجھا جاتا ہے) اس کے علاوہ صدر نے جتنے اعلانات کئے ہیں، کانگریس میں ان کو پاس کرانا بے حد مشکل ہو گا۔
کمیونٹی کالجوں میں دو سال کے لئے مفت تعلیم ایک اچھا اقدام ہو گا، کمیونٹی کالجوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے طلبہ کو تیار کرتے ہیں اُن میں شبینہ کلاسیں بھی ہوتی ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے مفید کورسز بھی کراتے ہیں۔ دراصل ان بنیادی کالجوں سے طلبہ کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے کہ انہوں نے کس مضمون کو اختیار کر کے آگے تعلیم جاری رکھنا ہے۔ اوباما نے اس کا اعلان ریاست ٹینیسی سے کیا تھا۔ اس وقت دو ری پبلکن سینیٹر بھی اُن کے ہمراہ تھے، جنہوں نے فوراً اس اقدام کو مسترد کر دیا تھا۔ مَیں یہ بات بارہا لکھ چکا ہوں کہ صدر باراک اوباما اور اُن کی ساری ٹیم میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو ری پبلکن کو قائل کر کے اپنے ساتھ ملا سکے۔ایسی کرشمہ سازی بش کے رفقائے کار لبرمین اور میک کین ہی دکھا سکتے تھے۔ بش کے بے حد متنازعہ اقدامات کے حق میں بڑے بڑے ڈیمو کریٹس ووٹ دیتے رہے ہیں۔ کمیونٹی کالجوں کی دو سال مفت تعلیم پر60بلین ڈالر خرچ آئے گا، جس کی منظوری ری پبلکن ہر گز نہیں دیں گے۔
اسی طرح کم از کم فی گھنٹہ معاوضے میں اضافے کا معاملہ ہے۔ اگرچہ ریاستیں اور بعض تجارتی ادارے اس عوامی مطالبے کو مجبوراً تسلیم کر رہے ہیں، لیکن وفاقی سطح پر اس کی منظوری کانگریس سے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے ملازمین کے لئے فی گھنٹہ کم از کم معاوضے میں اضافے کے لئے بھی دو بلین ڈالر درکار ہوں گے، جن کی منظوری کانگریس ہی دے سکتی ہے۔ ریاست ’’مین‘‘ سے آزاد سینیٹر اینگس کنگ جو سینیٹ کی بجٹ کمیٹی میں شامل ہیں اس معاملے پر کہتے ہیں کہ یہ صرف اخراجات کا معاملہ ہی نہیں ہے یہ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کھیل بھی ہے۔
انٹرنیٹ تک یکساں رسائی اور سائبر سیکیورٹی کے نام پر حکومت کو پھر عام لوگوں کے نجی معاملات تک رسائی حاصل ہو جائے گی، جو اب بھی کسی نہ کسی طرح ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے معاملے پر ری پبلکن بھی متفق ہیں کہ وہ بھی نہیں چاہتے کہ خفیہ معاملات کی فائل ویب سائٹس ہیک ہوتی رہیں۔ البتہ ابھی اس پر اتفاق نہیں پایا گیا کہ کون سی سرکاری ایجنسی اس سلسلے میں معلومات جمع کرے گی، لیکن سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ری پبلکن چیئرمین سینیٹر رچرڈ برّ کہہ چکے ہیں کہ یہ قانون ابھی اور فوراً پاس ہونا چاہئے جب وائٹ ہاؤس اس سے متفق ہے، تو سینیٹ میں اس پر کوئی تاخیر نہیں ہو گی، لیکن جہاں تک انٹرنیٹ تک یکساں رسائی کا معاملہ ہے وہ کچھ یوں ہے کہ انٹرنیٹ کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کا خیال ہے کہ اب انٹرنیٹ دو طرح کا ہونا چاہئے۔ بڑی کمپنیوں کے لئے تیز رفتار، جس کی قیمت زیادہ ہو اور عام لوگوں کے لئے معمولی رفتار والا، جو اب باہمی مقابلے کی وجہ سے سستا ہو چکا ہے اور ان کمپنیوں کے لئے ممکن نہیں کہ اسے مہنگا کر سکیں۔ ری پبلکن اس سلسلے میں ایک ہی حوالے سے مخالفت کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیوں کے تجارتی معاملات میں ضرورت سے زیادہ مداخلت کا ارتکاب کر رہی ہے جو کیٹپلزم کے آزاد تجارت کے نظریئے کی خلاف ورزی ہے۔ باراک اوباما پہلے ہی اس معاملے کو فیڈرل کمیونی کیشن کے حوالے کر چکے ہیں، جو پہلے ٹیلی فون وغیرہ کے سلسلے میں نگرانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ کمیشن کو کہا گیا ہے کہ جس طرح ٹیلی فون میں مقابلے کی فضا کو برقرار رکھا جاتا ہے اسی طرح انٹرنیٹ کے سلسلے میں اجارہ داری کی روک تھام کی جائے۔ دیکھئے اب یہ ادارہ کیا فیصلہ کرتا ہے؟
ری پبلکن کو جس بات پر شدید غصہ ہو سکتا ہے وہ حکومت کے تعاون سے دیئے جانے والے قرضوں کی فیس میں کمی ہے۔ صدر کا کہنا ہے کہ اس تجویز سے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کے لوگوں کو ہر سال ایک ہزار ڈالر کی بچت ہو گی۔ری پبلکن کا کہنا ہے کہ حکومت کو جائیداد کی خریدو فروخت اور اس کے لئے مالیاتی امور، مار گیج کے معاملات سے دور رہنا چاہئے۔ البتہ مار گیج کے لئے قرض دینے والی دو کمپنیوں کی امداد میں بدستور کمی پر دونوں جماعتوں میں اتفاق ہو گیا ہے اور اب جب یہ معاملہ کانگریس میں آئے گا، تو فوراً پاس ہو جائے گا اس سے قبل ڈیمو کریٹس اکثریت نے اسے پاس نہیں ہونے دیا تھا۔
صدر باراک اوباما نے امراء پر ٹیکس بڑھانے کے لئے ٹیکس اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ ہمارے ٹیکس نظام کا کوڈ(جس سے ٹیکس کے معاملات طے پاتے ہیں) دھاندلی زدہ ہے۔ اس میں ایسے ’’لوپ ہول‘‘ ہیں جن سے امیر طبقے اور کارپوریٹ سیکٹر ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے کانگریس سے اصلاحات کے لئے کہا ہے، جس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی کے سلسلے میں انہوں نے ایران کے خلاف مزید پابندیوں کو ویٹو کر دینے کا بھی کہا۔ ری پبلکن کی اکثریت ایسی پابندیوں کی حامی ہے۔ ری پبلکن موسمی تبدیلی کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور اس سلسلے میں حکومت کے اخراجات کو بے جا اور فضول خرچی قرار دیتے ہیں۔صدر نے کانگریس کو توجہ دلائی اور کہا کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔انہوں نے داعش کے خلاف فوجی کارروائیوں کے جاری رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے ٹریڈ پروموشن اتھارٹی سے کہا کہ وہ ایشیا سے تجارت کو کم کرتے ہوئے یورپ سے تجارت میں اضافہ کرے۔ امریکہ میں اکثر حلقے چین کے ساتھ زیادہ تجارتی تعلقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، اس طرح وہ حلقے خوش ہو گئے ہوں گے، اکثر ری پبلکن بھی یورپ سے تجارت کے حامی ہیں۔ اب جبکہ بھارت اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ صدر کا ٹریڈ پروموشن اتھارٹی کے نام یہ پیغام بھارت کی امیدوں پر اوس ڈال سکتا ہے۔ صدر باراک اوباما نے کانگرس کو خبردار کیا کہ وہ اُن کی امیگریشن اصلاحات، صحت پروگرام اور مالی اصلاحات کو مسترد کرنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ وہ ایسی کوششوں کو ویٹو کر دیں گے۔ انہوں نے نیو یارک ٹائمز کے صحافی سے اُس کے خبر کے ذرائع دریافت کرنے والے قضیئے کے بارے میں کہا کہ اس سلسلے میں اتفاق رائے سے کوئی معاملہ طے کر لیا جائے۔
انہوں نے ملک کو ایک خاندان قرار دیا اور کہا کہ ہمارا باہمی رشتہ بے حد مضبوط ہے اور سخت ترین حالات میں ہم نے خاندان کی طرح ایک دوسرے سے جُڑ کر حالات کا مقابلہ کیا ہے۔ تاہم ایک بات تو ظاہر ہے کہ صدر باراک اوباما نے وہ باتیں کی ہیں جو عملاً خواہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہوں، عوام کو خوش کرنے کے مترادف ضرور ہیں اور قبولیت عامہ کے حوالے سے اُن کی پذیرائی ہو گی اگر کانگریس نے ان اقدامات کی منظوری نہ دی تو اس سے ڈیمو کریٹس کو آئندہ انتخابات میں فائدہ ہو گا اور وہ عوام کے پاس ووٹ لینے اسی بات پر جائیں گے کہ ری پبلکن تمہارے مفادات کو منظور نہیں ہونے دیتے۔ جنوبی ریاستوں میں تو اس حوالے سے شاید کم ہی کوئی تبدیلی آئے، لیکن شمالی ریاستوں میں جہاں گزشتہ نومبر میں ڈیمو کریٹس کی مقبولیت میں واضح کمی محسوس کی گئی، شاید کچھ بہتری پیدا ہو سکے۔