جمہوریت یا داشتہ
امن و امان کے حوالے سے خوف زدہ صوبائی حکومت نے بالآخر ضلع سانگھڑ میں بلدیاتی انتخابات کرا ہی دیئے۔ ایسا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا جو سب کے لئے درد سر بنتا۔ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ فنکشنل پر فوقیت حاصل رہی۔ ضلع کونسل کے علاوہ کئی میونسپل کمیٹیوں اور ٹاؤن کمیٹیوں کی سربراہی اس کے ہی نامزد نمائندے کرسکیں گے۔ ان نمائندوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ لوگ اپنی ذمہ داری ادا کرسکیں گے۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے انہیں اپنا وقت دینا ہوگا۔ اب وہ دور نہیں رہے جب لوگ منتخب ہونے کے بعد اپنے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا پیسہ بھی لگا دیا کرتے تھے۔ سندھ کے دیگر شہروں کی طرح سانگھڑ کی صورت حال نا گفتہ بہ ہے۔ پورا ضلع دیگر اضلاع کی طرح اس خود کار نظام کی وجہ سے چل رہا ہے کہ لوگوں کو تو زندہ رہنا ہے۔ ہر نئی صبح انہیں اپنے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے۔ پھر رات کو انہیں کسی چھت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس کے تحت سب ہی مجبور ہیں۔ لیکن اس نظام میں حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ہے۔ حکومت سے مراد صرف موجودہ حکومت نہیں ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی بھی قابل ستائش نہیں رہی ہیں اسی لئے تو کسی منصوبہ بندی کے بغیر چاروں طرف بے ہنگم انداز میں پھیلتا ہوا سانگھڑ شہر سب ہی حکومتوں کی ناقص کار کر دگی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ لوگوں پینے کا صاف پانی کو میسر نہیں، اسپتالوں کی حالت اطمینان بخش نہیں ، آمد ورفت کے لئے کوئی انتظام نہیں ، سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتیں بے بسی کی شکایت کرتی ہیں،دروازے کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ دیگر سرکاری عمارتیں بھی مختلف اوقات میں ان اداروں کی سربراہی کرنے والوں کو روتی نظر آتی ہیں۔ کیا شہر اسی طرح بنتے اور چلتے ہیں۔ کیا لوگ صرف کسی روبوٹ کی طرح زندہ رہتے ہیں کہ جو مل گیا، کھا لیا اور بس۔ عام لوگوں کے مکانات دیکھو تو دکھ کے سواکچھ نہیں ملتا۔
بڑی بڑی گاڑیوں، کاروں میں دندناتے پھرتے امیدواروں کو اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت دیکھ کر افسوس کیوں نہیں ہوتا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی اولادیں سانگھڑ میں نہیں رہتی ہیں۔ سانگھڑ سے کھپرو تک فاصلہ55 کلو میٹر بنتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور پیپلز پارٹی کی حکوت کے خلاف اتحاد قائم کرنے والے رہنماؤں کو کسی ایسی بس جس میں عوام سفر کرتے ہیں، بٹھا کر سانگھڑ سے کھپرو تک سفر کرایا جائے تاکہ انہیں احساس ہو کہ لوگ کس طرح کی سڑک پر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کا کتنا وقت ضائع ہوتا ہے اور انہیں کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کیا یہ رہنماء اپنے اہل خانہ کو خواتین کے اس پولنگ اسٹیشن پر لا ئیں گے جہاں خواتین کھلے آسمان کے نیچے ووٹ دینے آئی تھیں۔ صرف قنات لگا دی گئی تھی، کوئی شامیانہ بھی نہیں لگایا گیا تھا حالانکہ موسم بہت سرد تھا۔ ان کے بیٹھنے کے لئے کسی کرسی کا انتظام نہیں تھا۔ عورتیں زمین پر بیٹھی تھیں۔ کیا الیکشن اس طرح ہوتا ہے؟ نام نہاد رہنماؤں کی طرح بڑے عہداوں پر فائز بڑے افسران درجنوں پولس موبائل کے جلو میں دورے کرتے پھر رہے تھے ، کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ عوام کی عدالت میں فیصلہ دینے والوں کی تذلیل کس طرح ہو ری تھی؟ تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے لوگ صورت حال کا ذمہ دار کرپشن کو ٹہراتے ہیں لیکن غیر ذمہ داری کا تو مرض پرانا ہے۔
میں نے کئی پولنگ سٹیشنوں پر لوگوں سے ایک ہی سوال کیا کہ آخر ایسے انتخابات کا کیا فائدہ ؟ آپ لوگ ووٹ ڈالتے ہیں، اپنے من پسند نمائندے کو منتخب کرتے ہیں لیکن آپ کی حالت اور آپ کے علاقوں کی حالت تبدیل کیوں8 نہیں ہوتی۔ ایک عمر رسیدہ شخص سے جب میں نے سوال کیا کہ لوگ آخر شکایت کیوں نہیں کرتے ۔ ان کا جواب سادہ مگر چونکا دینے والا تھاکہ شکایت کس سے کریں؟ کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ بس اللہ سے شکایت کرتے ہیں۔ ان کا یہ جواب تو میرے ذہن میں ہی تھا ۔ جب میں نے کھپرو میں دیکھا کہ ایک ’’ رہنماء‘‘ اپنی بڑی گاڑی میں آئے، لوگوں نے ان کی گاڑی کو گھیر لیا اور ان کے حق میں نعرے بازی شروع کردی۔ گاڑی کے دروازے کے قریب کھڑے چند لوگوں نے ان سے ہاتھ ملانے کی ’’ سعادت ‘‘ بھی حاصل کر لی ۔ چند منٹوں بعد ان کے ڈرائیور نے گاڑی آگے کی طرف چلادی اور گاڑی دیکھتے دیکھتے نظروں سے غائب ہو گئی۔ میں سوچتا رہا کہ اگر یہ رہنماء گاڑی سے نیچے اتر کر لوگوں سے ہاتھ ملا لیتا اور ان سے گفتگو کرلیتا ، تو کیا حرج ہو جاتا؟ ان رہنماؤں کا رویہ ایسا ہی رہتا ہے۔ انہیں عوام صرف اس روز یاد آتے ہیں جس روز انتخابات ہو رہے ہوتے ہیں۔ اسی دن کو یہ رہنماء عوام کی عدالت قرار دیتے ہیں۔ یہ معصوم لوگ ہیں جو ان کے ہی نعرے لگاتے ہیں اور اسی میں خوش رہتے ہیں کہ ان کے رہنماء نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ان سے ہاتھ ملا لیا۔ یہاں تو ایسے رہنماء بھی پائے گئے ہیں جو ہاتھ ملانے کے بعد ہاتھ دھوتے ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ ایسے رہنماؤں کے نام میں دانستہ نہیں لکھ رہا ہوں۔ عام لوگوں کو خیال ہی نہیں آتا کہ یہ رہنماء ان کے ووٹ حاصل کر کے جس عہدے پر فائز ہوگا، اس کے بعد یہ رہنماء اپنی ذاتی ضروریات اور خواہشات پوری کرے گا۔ اپنا کاروبار بڑھائے گا۔ اپنا محل اونچا تعمیر کرے گا۔ اسے ان لوگوں کی کوئی فکر آئندہ انتخابات تک نہیں کھائے گی، نہ ہی اسے اپنے ووٹروں کی یاد ستائے گی۔ ووٹ لینے کے لئے اس نے جمہوریت کے ہاتھ پیلے کئے۔ اس کے بعد بیگم جمہوریت بھی آئندہ انتخابات تک کے لئے ایک طرح سے بیوہ ہو جائے گی۔ یہ بیوہ جمہوریت ہی تو ہے کہ رات دو بجے پولنگ اسٹاف پولنگ اسٹیشن کی جگہ تلاش کر رہا تھا ۔ انہیں صبح پولنگ کا انتظام کرنا تھا اور آرام کئے بغیر کیوں ممکن تھا کہ وہ لوگ ضابطوں کے مطابق پولنگ کرا سکیں گے۔ پولنگ اسٹاف راستہ بھر ہوٹل ہوٹل ٹہر کر سلیمان راجپوت گاؤں کا پتہ پوچھ رہا تھا انہیں پولنگ اسٹیشن نمبر ایک پر جانا تھا۔ بیلٹ پیپر سمیت تمام سامان اور اسٹاف ایک ٹرک پر لدا ہوا تھا۔ الیکشن کرانے کے ذمہ دار افسران نے اپنے تئیں طے کر لیا تھا کہ اسٹاف خود پولنگ اسٹیشن پر پہنچ جائے گا۔ جمہوریت بیوہ نہ ہوتی تو ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔
ضلع پر حکمرانی کی پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ برابر کی دعوی دار ہیں لیکن کار کردگی کسی نے نہیں دکھائی۔ فنکشنل پر زیادہ ذمہ داری اس لئے عائد ہوتی ہے کہ سانگھڑ شہر سے ہی پیر پگارو ششم پیر صبغت اللہ راشدی المعروف سھوریہ بادشاہ نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند تھا ۔ تحریک کی ابتداء یہیں سے ہوئی تھی۔ بلا مبالغہ ہزاروں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ بے گھر ہونے سے زیادہ اذیت کوئی اور نہیں ہوتی لیکن پیر صاحب کے حامی یہ لوگ تو ہر ہر طرح کی اذیتیں برداشت کرنے کی انتہاء سے گزر گئے تھے۔ قید و بند، پھانسیاں تک کھائی تھیں۔ خود پیر پگارو ششم سھوریہ بادشاہ کو پھانسی گھا ٹ جانا پڑا تھا۔ پیر صاحب سے خوف زدہ انگریز نے ان کی لعش تک غائب کر دی تھی۔ حیدرآباد میں قائم حر کیمپ ایسے ہی اذیتیں برداشت کرنے والے لوگوں کی تکلیف دہ داستان بیان کرتا ہے۔ فنکشنل لیگ کے رہنماؤں ، خصوصا موجودہ پیر پگارو اور ان کے بھائی صدرالدین راشدی نے اپنے دادا مرحوم کے شہر کے لوگوں کی حالت بدلنے کے لئے کیا قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں؟ صدر الدین عرف یونس سائیں تو آج بھی وفاقی حکومت میں وزیر ہیں۔ وہ چاہیں تو سانگھڑ کی حالت تبدیل کرنے کے لئے کسی دیر پا مضبوط منصوبے کا آغاز کر ا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ان کے سمدھی ہیں، ان کے دور میں بھی کسی منصوبہ کی ابتداء کرائی جاسکتی تھی۔ پیر پگارو ہشتم اور ان کے بھائی وفاقی وزیرصدر الدین راشدی سیاسی طور پر اتنے کمزور نہیں ہیں کہ وہ سانگھڑ کے عوام کے لئے کچھ نہ کر سکیں۔ سانگھڑ میں سیاست کا کاروبار کرنے والوں کو معلوم ہے کہ اس تماش گاہ میں جن لوگوں کے پاؤں میں جوتا یا چپل بھی صحیح حالت میں نہیں ہوتے وہ پھر بھی بیوہ جمہوریت کو ووٹ دینے پر مجبور ہیں۔ وسائل والے امیر کبیر لوگ اس جمہویت ، جسے وہ بیگم جمہوریت سمجھتے ہیں ، کے نام پر بار بار منتخب ہوتے ہیں، ہر بار اس جمہوریت کے ہاتھ پیلے کرتے ہیں لیکن ان کے ہر بار منتخب ہونے کے بعد ہی وہ جمہوریت بیوہ ہوجاتی ہے۔ اس جمہوریت کی سوکن ان منتخب نمائندوں کی جاہ و جلا ل کی تمنا ہے، ان کی ذاتی خوشحالی کا منصوبہ ہے ۔ یہ لوگ اس جمہوریت کے ساتھ ایسا ہی کھیل کھیلتے ہیں جیسا نودولتئے اوباش فطرت لوگ داشتاؤں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔