انسان میں جنون ہو تو وہ منزل پا ہی لیتا ہے،ماضی کی معروف ہیروئن اور ماڈل سونیا کی باتیں
حسن عباس زیدی
عکاسی:ذیشان منیر
قیام پاکستان سے لے کر آج تک بہت سارے باصلاحیت فنکاروں نے فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا ہے ان میں سے چند ایسے خوش نصیب بھی ہیں جن کی پہلی ہی فلم کو زبردست کامیابی ملی ان میں سے ایک نام ماضی کی معروف ہیروئن اور ماڈل سونیا کا ہے وہ کئی برس قبل شوبز کو خیرباد کہہ کر بیرون ملک منتقل ہوگئیں تھیں کچھ عرصہ قبل سونیا نے اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کے مشورہ کے بعد ایک بار پھر شوبز میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ گزشتہ دنوں پاکستان آئی تھیں لاہور میں اپنے قیام کے دوران سونیا سے ان کے فنّی کیرئیر کے حوالے سے گفتگو ہوئی ۔سونیا نے’’پاکستان‘‘کو بتایا کہ میں نے 1994 میں شوبز چھوڑ دیا تھا اور میں ناروے چلی گئی تھی کیونکہ ان دنوں پاکستان میں زیادہ تر پنجابی فلمیں بن رہی تھیں جن میں مجھے کردار بھی ایک جیسے ہی مل رہے تھے لہٰذامیں نے یہی مناسب سمجھا کہ میں اب مزید کام نہ کروں،میں پی ٹی وی کو کسی طرح بھی فراموش نہیں کرسکتی کیونکہ میں نے اپنی زندگی کا یادگار کام پی ٹی وی پر کیا،’’خواہش‘‘،’’ سورج کے ساتھ ساتھ‘‘ اور ’’مدار‘‘ میری ناقابل فراموش ڈرامہ سیریلز ہیں۔اس وقت معاوضہ صرف2200 ماہانہ ملتا تھا،لیکن اس کے باوجود کام اتنا زیادہ اچھا ملتا تھا کہ ہر کوئی اس کا تذکرہ آج بھی کرتا ہے۔اب میری واپسی بھی پی ٹی وی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔میں تو اتنا جانتی ہوں کہ انسان میں جنون اور لگن ہوتو وہ منزل پا ہی لیتا ہے ۔
2013 میں میری شاعری کی کتاب’’آدھی صدی میں کتنی صدیاں‘‘ کی تقریب جب لاہور میں ہوئی تو بہت سے لوگوں نے شوبز میں واپسی کے لئے کہا لیکن تب میں نے کہا کہ میں واپس نہیں آنا چاہتی مگر بعد دوستوں کے مشورے سے کام کا دوباہ فیصلہ کیا۔ایک سوال کے جواب میں سونیانے بتایا کہ میں نے نجی ٹی وی کے لئے بنائی جانے والی ایک ڈرامہ سیریل میں کام کامعاہدہ کیا ہے جس کے ڈائریکٹر شہزاد کشمیری ہیں اور اس ڈرامہ سیریل کی کہانی بہت اچھی ہے۔اس میگا پراجیکٹ میں میرا رول انتہائی پاور فل اور پرفارمنس سے بھرپور ہے میں شوبز میں اپنی واپسی کو یادگار بنانا چاہتی ہوں۔سونیا خان نے کہا کہ میں نے شوبز میں آنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔میں اس وقت ساتویں جماعت میں تھی جب ایک پروڈیوسر کو اپنی فلم کے لئے میری عمر کے جوڑے کی تلاش تھی،چونکہ انہوں نے مجھے کہیں دیکھا ہوا تھا لہذہ انہوں نے میرے سکول آکر کہا کہ مجھے تو اسی لڑکی کی تلاش تھی جس کے بعد مجھے انہوں نے اپنی فلم’’دو بھیگے بدن‘‘میں کاسٹ کرلیا۔اس فلم کے رائٹر لیجنڈ منو بھائی ،ڈائریٹررائے فاروق اور موسیقار روبن گھوش تھے ۔یہ فلم ڈاہا پروڈکشن کے بینر تلے بنائی گئی تھی ۔فلم’’بھیگے بدن‘‘میں میرے ساتھ اچھی خان اور وکی نے بھی اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا ۔اچھی خان کاشمار پاکستان فلم انڈسٹری کے جانے مانے فنکاروں میں کیا جاتا ہے ۔ یہ فلم سپرہٹ ہوئی بلکہ اس نے کئی ریکارڈ بھی بنائے جس کے بعد مجھے بارہ کے لگ بھگ فلموں میں کاسٹ کیا گیا جن میں سے اکثر فلمیں سپرہٹ رہیں۔ میں نے مجموعی طور پر 75فلموں میں کام کیا ہے۔
پی ٹی وی لاہور سنٹر کے سپرہٹ سیریل’’سورج کے ساتھ ساتھ‘‘ میں عابد علی کی وجہ سے کاسٹ ہوئی کیونکہ وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا میری میری بیٹی کا رول ہے جس پر میں تیار ہوگئی ۔ ’’سورج کے ساتھ ساتھ‘‘میرا پہلا ڈرامہ تھا جس سے مجھے بہت شہرت ملی ۔مستنصر حسین تارڑ نے بہت اچھی کہانی لکھی تھی۔ اس وقت پی ٹی وی کے ڈراموں کے وقت گلیاں بازار سنسان ہوجایا کرتے تھے کیونکہ ہر کسی کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ تفریح کے لئے ڈرامہ دیکھے۔اس کے بعد میں نیڈرامہ سیریل ’’خواہش‘‘کی جو بہت ہی زیادہ ہٹ ہوئی اور آج بھی لوگ اس ڈرامے کو یاد کرتے ہیں۔سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں فلم اور ٹی وی کے علاوہ سٹیج پر بھی کام کیا لیکن مجھے زیادہ آسانی ٹی وی پر لگتی تھی۔ تھیٹر کا آغاز میں ا لحمرا ء سے کیا جہاں مجھے خالدعباس ڈار اور بندیا لے کر گئے تھے۔اس زمانے میں سٹیج پر بہت اچھے ڈرامے ہوتے تھے،فنکار کو اصل اعتماد سٹیج پر کام کرنے سے ملتا ہے۔ویسے بھی وہاں فوری رسپانس ملتا ہے جیسا کہ آج کل سوشل میڈیا سے ملتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈراموں کی بھرمار سے اتنے زیادہ فنکار آرہے ہیں ان کا نام بھی یاد رکھنا ممکن نہیں ہوتا جبکہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس وقت فنکار بھی کم تھے۔