کراچی میں50 فیصد کچی آبادیاں آمروں کی یاد گار ہیں ،جام خان شورو
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو نے کہا ہے کہ کراچی میں 50 فیصد علاقے ایسے ہیں ،جو کچی آبادیاں ہیں اور اس میں زیادہ تر ماضی میں آمروں کے دور میں بنائی گئی ہیں اور وہاں واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی محکموں کا انفراسٹریکچر ہی موجود نہیں ہے۔ واٹر بورڈ میں بلاجواز ہزاروں کی تعداد میں بھرتیاں کی گئی اور بلدیاتی اداروں کو تباہی کے داہنے پر پہنچا دیا گیا ہے۔ موجودہ سندھ حکومت اور محکمہ بلدیات ایک دن میں تمام مسائل حل نہیں کرسکتی، ہم کوشش کررہے ہیں کہ معاملات کو درست سمت کی جانب گامزن کیا جاسکے۔ پانی کی تقسیم کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے اور جن علاقوں میں حب ڈیم سے پانی کی فراہمی ہوتی ہے، وہاں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تمام اقدامات بروئے کار لایا جارہا ہے۔ شہر میں نالوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے کی مہم تیز کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں تمام اداروں کو آن بورڈ لیا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو سندھ اسمبلی میں مختلف ارکان کے توجہ دلا نوٹسز کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر کی جانب سے بلدیہ ٹان اور ڈسٹرکٹ ویسٹ کے دیگر علاقوں میں پانی کی قلت کی جانب سے توجہ دلا نوٹس کے جواب میں صوبائی وزیر جام خان شورو نے کہا کہ یقیناًکراچی شہر میں پانی کی کمی کا سامنا ہے اور ہمارے پاس اس وقت طلب 1100ملین گیلن روزانہ کی ہے اور رسد 550 ایم جی ڈی دھابیجی سے اور 100 ایم جی ڈی حب ندی سے ہے تاہم بارشیں نہ ہونے کے باعث اس وقت حب ڈیم سے پانی کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس سے ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہم نے شہر میں پانی کی تقسیم کی نظام کو اس انداز میں بنایا ہے کہ ان علاقوں میں بھی پانی کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ ایم کیو ایم کے رکن جمال احمد کی جانب سے توجہ دلا نوٹس کے جواب میں صوبائی وزیر جام خان شورو نے کہا کہ شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف مہم کے لئے کے ایم سی اور تمام ضلعی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں اور یہ آپریشن جاری ہے اور اس میں ہمیں مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے تمام نالوں پر تجاوزات قائم ہیں،جس کے باعث سیوریج کا نظام بھی شدید متاثر ہورہا ہے اور یہ تجاوزات ایک یا دو سال میں نہیں بلکہ سالہا سال سے قائم ہیں اور ان کو ہٹانے کے لئے بھی وقت اور عملہ درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شہر میں تجاوزات کے خلاف مہم میں تمام اداروں کو آن بورڈ لیا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی شہزاد وحید کے توجہ دلا نوٹس پر جام خان شورو نے کہا کہ واٹر بورڈ کی تباہی کے ذمہ داران کو اگر تعین کیا جائے تو بات بہت آگے نکل جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں واٹر بورڈ سمیت محکمہ بلدیات کے تمام اداروں میں ہزاروں افراد کو بلاجواز بھرتی کیا گیا ہے اور آج اس کا خمیادہ ہمیں موجودہ صورتحال میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ میں تنخواہوں اور دیگر مد میں ملازمین کی ادائیگی کے بعد ترقیاتی کاموں کے لئے کوئی فنڈ باقی ہی نہیں رہتا اور ہمیں مجبورا سندھ حکومت کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ انہو ں نے کہ آج بھی شہر کے 50 فیصد علاقوں میں واٹر بورڈ کا انفرا اسٹریکچر ہی موجود نہیں ہے اور اس کی وجہ ماضی کے آمرانہ دور میں شہر میں تیزی سے غیر قانونی کچی آبادیوں کا بننا ہے اور ان انفرا اسٹریکچر کے بغیر بننے والی ان آبادیوں میں جہاں پانی، سیوریج اور صفائی ستھرائی کے حوالے سے فقدان ہیں وہاں ہماری بھرپور کوشش ہے کہ ہم سالانہ ترقیاتی فنڈز اور دیگر فنڈز سے ان معاملات کو درست سمت کی جانب گامزن کریں۔ انہوں نے رکن سندھ اسمبلی شہزاد وحید کی جانب سے کورنگی کے مختلف علاقوں میں سیوریج کے حوالے سے توجہ نوٹس پر کہا کہ اس سلسلے میں واٹر بورڈ کی انتظامیہ کو پہلے ہی ہدایات جاری کردی گئی ہیں اور وہ خود ان تمام صورتحال کا جائزہ لینے جائیں گے۔