کئی وفاقی وزر اء سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جگہ نیا سپیکر لانے کیلئے کوشاں

کئی وفاقی وزر اء سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جگہ نیا سپیکر لانے کیلئے کوشاں
کئی وفاقی وزر اء سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جگہ نیا سپیکر لانے کیلئے کوشاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

بالکل درست فرمایا گیا ہے کہ نعیم الحق جذباتی آدمی ہیں، وہ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں، چاہے کوئی خوش ہو یا ناراض۔ غالباً انہوں نے کسی جذباتی کیفیت ہی کے زیر اثر کہہ دیا تھا کہ شہباز شریف کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ کیا وہ آئندہ ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ لینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس لئے وہ تقریر سوچ سمجھ کر کیا کریں، حالانکہ شہباز شریف کو اگر قومی اسمبلی میں سپیکر کے حکم پر بلایا جاتا ہے تو یہ بلانے والے کا حکم اور رولز کا تقاضا ہے۔ پھر شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہی نہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، اس لئے اگر سپیکر انہیں بلاتے ہیں تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی بلاتے ہوں گے۔ وہ اس معاملے میں صوابدیدی اختیار رکھتے ہیں جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کے خلاف درخواست کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور قرار دیا ہے کہ سپیکر کے کام میں مداخلت نہیں کی جاسکتی، لیکن حیرت ہے کہ ہائی کورٹ کے فاضل جج تو کسی مداخلت کو پسند نہیں کرتے لیکن نعیم الحق نے نہ جانے کس زعم میں یہ کہہ دیا کہ شہباز شریف اگر وزیراعظم کے خلاف تقریروں سے باز نہ آئے تو انہیں پروڈکشن آرڈر نہیں ملے گا، اس بات سے قطع نظر کہ ان کے اس بیان سے شہباز شریف کا استحقاق کتنا مجروح ہوا، سوال یہ ہے کہ نعیم الحق کو سپیکر کا اختیار استعمال کرنے کا داعیہ کیونکر ہوگیا۔ سپیکر اپنی صوابدید کے تحت آرڈر جاری کرتے ہیں اور آئندہ بھی مناسب سمجھیں گے تو کرتے رہیں گے۔ ویسے تو کابینہ کے ایک وزیر نے بہت شور مچایا ہوا تھا کہ شہباز شریف کو کیوں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا، وہ عدالت جائیں گے، لیکن عدالت کے فیصلے کے بعد وہ فی الحال خاموش ہیں، شاید وہ کسی ’’کفن‘‘ کی تلاش میں ہیں، جسے پھاڑ کر وہ اس ضمن میں کوئی اگلا بیان جاری کریں۔ ایک اور وزیر صاحب نے جو کاؤ بوائے کی طرح بوقت ضرورت پستول لگا کر بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں، یہ بھاشن دیا تھا کہ وہ کسی کے باپ کے نوکر نہیں کہ مختصر نوٹس پر کسی ایسے شخص کے سامنے پیش ہوں، جو نیب کے زیر حراست ہے، حالانکہ بعد میں پتہ چلا کہ انہیں تو کسی نے بلایا ہی نہیں تھا نہ جانے انہوں نے ہوا میں تلوار کیوں چلا دی، ایسے ہی ایک اور وزیر باتدبیر نے گزشتہ روز ایک ٹاک شو میں یہ پھل جھڑی چھوڑی کہ ہم نے ایک نیب زادے کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا جس کا ترکی بہ ترکی جواب احسن اقبال کی جانب سے یہ آیا کہ اگر وزیراعظم نیب زدہ ہوسکتا ہے تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بھی ہوسکتا ہے۔ ان کا اشارہ اس ریفرنس کی طرف تھا جو خیبرپختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر کے بلااستحقاق اور بے جا استعمال کے بارے میں نیب کے پاس زیر التوا ہے۔ شہباز شریف چونکہ اپوزیشن میں ہیں، اس لئے ثبوت سے پہلے حراست میں ہیں۔ وزیراعظم چونکہ حکومت کے سربراہ ہیں، اس لئے اس کیس سمیت ان کے خلاف کئی دوسرے کیس بھی فائلوں میں دب گئے ہیں، کسی وقت شاید ان کی گرد جھاڑنے کی ضرورت بھی محسوس ہو۔ بہرحال یہی وہ کیس ہے جس کے بارے میں وزیراطلاعات فواد چودھری نے براہ راست نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے بیرون ملک پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے، اس لئے یہ واپس لینا چاہے، انہوں نے اس پر بھی اظہار حیرت کیا تھا کہ زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو نیب کیوں گرفتار نہیں کرتا جس کا نیب کو باقاعدہ پریس ریلیز کی شکل میں جواب دینا پڑا کہ کسی کے کہنے پر گرفتاریاں نہیں ہوسکتیں۔ خیر یہ تو ایسا معاملہ ہے کہ نیب جانے اور وزیراطلاعات جانے، ہم تو بات نعیم الحق کی کر رہے تھے جو جذباتی بیانات ہی کی شہرت رکھتے ہیں اور جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں، اب انہیں کون روک سکتا ہے، لیکن اس ساری جذباتیت کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ قومی اسمبلی کا کاروبار نہیں چل رہا۔ اس کا الزام اپوزیشن کو دیا جاتا ہے لیکن اس میں چند وزرأ بھی باقاعدہ حصے دار ہیں، اصل میں معاملہ یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن اور حکومت کے ارکان کی تعداد میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اتنی بڑی اپوزیشن کبھی نہیں آئی، اپوزیشن کے ارکان کی تعداد ماضی میں اگر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر نہیں تو دو ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔ ایوب خان کی بالواسطہ منتخب اسمبلی میں چند ارکان اپوزیشن سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے حقیقی بھائی سردار بہادر خان قائد حزب اختلاف تھے۔ اس پر وہ اپوزیشن کا یہ کہہ کر مضحکہ اڑایا کرتے تھے کہ ان کے پاس تو قیادت کا اس حد تک قحط ہے کہ مجھے اپنی مخالفت کے لئے قائد حزب اختلاف بھی اپنے گھر سے دینا پڑا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن ارکان کی تعدا اگرچہ کافی تھی، لیکن ایک وقت وہ بھی آیا تھا جب قائد حزب اختلاف کو باقاعدہ ڈنڈہ ڈولی کرتے ہوئے ایوان سے باہر نکال دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود اپوزیشن اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف کو ایم ایم اے کی صورت میں ایک ایسی حزب اختلاف کا سامنا تھا جو ان کی تقریروں کے دوران مسلسل ڈیسک بجاتی رہتی اور ٹھنڈے ایوان میں جناب صدر کے پسینے چھوٹ جاتے، تاہم وہ اپنی تقریر پڑھتے رہتے اور آخر میں دونوں مکے فاتحانہ انداز میں لہراتے ہوئے رخصت ہوتے۔ یہ وہی اسمبلی تھی جس کے سپیکر چودھری امیر حسین نے مطالبوں کے باوجود مخدوم جاوید ہاشمی کا پروڈکشن آرڈر جاری نہ کیا۔ غالباً نعیم الحق کے ذہن میں بھی کوئی ایسا ہی سپیکر ہے جو ان کے ’’حکم‘‘ پر پروڈکشن آرڈر کا سلسلہ روک دے۔ شاید اس وجہ سے کابینہ کے اجلاس میں اس بات پر بھی غور ہوا کہ سپیکر اسد قیصر کی جگہ کوئی تابعدار قسم کا سپیکر لے آیا جائے، لیکن اس میں ایک بڑا رسک ہے، موجودہ سپیکر سے استعفا لے کر یہ ضروری نہیں کہ ان کی جگہ تحریک انصاف نیا سپیکر منتخب بھی کرا سکے، کیونکہ جب اسد قیصر منتخب ہوئے، اس وقت ابھی تحریک انصاف نے اقتدار نہیں سنبھالا تھا، اب اسے اقتدار سنبھالے پانچ ماہ ہوگئے ہیں اور اس عرصے میں سوائے مایوسیوں اور مہنگائی کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ حلیف جماعتیں بھی مایوس ہیں، مسلم لیگ (ق) کے فاصلے بڑھ گئے، بی این پی (مینگل) باقاعدہ حزب اختلاف کے اجلاس میں شریک ہونے لگی ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ایسا کوئی وینچر نہ کیا جائے ورنہ یہ منصب حزب اختلاف کے پاس بھی جاسکتا ہے۔
سپیکر