اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 120

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 120

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امیر اژگر خان مجھے اپنے مہمان خانے تک چھوڑنے آیا۔ اگلے روز میں نے ہندوانہ لباس اتاردیا۔ ماتھے کا تلک دھو ڈالا۔ مسلمانوں کا لباس پہنا اور گھوڑے پر سوار ہوکر لاہور سے ملتان کی طرف روزانہ ہوگیا۔ آج کل کے ماڈرن ٹیکنالوجی کے زمانے میں آپ لاہور سے بوئنگ طیارے پر بیٹھ کر پندرہ منٹ میں ملتان ائیرپورٹ پر پہنچ جاتے ہیں لیکن آج سے پندرہ سو برس پہلے ایسا نہیں تھا۔ لاہور سے ملتان کا سارا علاقہ گھنا جنگل تھا اور لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہوئے ایک مہینے کے بعد ملتان پہنچتے تھے۔ 
راستے میں ڈاکوؤں کا ہر دم دھڑکا لگا رہتا تھا۔ یہ ڈاکو مسافروں کو لوٹ کر قتل کردیتے تھے۔ اکیلا آدمی کبھی سفر نہیں کرتا تھا۔ مگر مجھے نہ لٹنے کی فکر تھی اور نہ قتل کئے جانے کا ڈر تھا اس لئے اکیلا ہی سفر پر روانہ ہوگیا۔ میں اسی راستے پر چلاجارہا تھا جس راستے پر قافلے سفر کیا کرتے تھے۔ یہ جنگل سے بل کھا کر گزرتی ایک کچی سڑک تھی جس میں کہیں کہیں پڑاؤ بنے تھے اور وہاں کارواں سرائے میں مسافروں کے لیے کھانے پینے کا سامان رکھا جاتا تھا۔ رات کو مسافر ان کاروان سراؤں میں آرام کرتے اور صبح کو تازہ دم ہوکر پھر اپنے سفر پر روانہ ہوجاتے۔میں بھی ان چھوٹے چھوٹے پڑاؤ پر رکتا۔ گھوڑے کو تازہ دم کرتا اپنے سفر پر رواں دواں رہا اور آخر ملتان پہنچ گیا۔ ملتان شہر ایک بلند و بالا چار دیواری کے اندر تھا۔ یہاں مسلمانوں نے چند ایک بڑی خوبصورت مسجدیں بنائی تھیں جن کے گنبدوں پر نیلی ٹائیلوں کے ساتھ منقش کام کیا گیا تھا۔ شہر میں ہندو بھی مسلمان صوبیدار کے زیر سایہ امن و چین سے رہ رہے تھے۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 119 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شہر کافی کھلا اور کشادہ تھا دور تک کھیت اور پھل دار باغ تھے، آبادی کافی گنجان تھی میں کرواں سرائے میں آگیا۔ میرے پاس کافی دینار تھے۔ میں نے گھوڑے کو کارواں سرائے کے سائیس کے حوالے کیا اور خود شہر کی سیر کو روانہ ہوگیا۔ چلتے چلتے میں ایک بازار سے گزرا تو میں نے ایک مجذوب کو دیکھا کہ لڑکے اس کے پیچھے لگے تھے اور وہ ہر ایک سے ایک ہی سوال کرتا تھا۔
’’مجھے ایک دینار اپنی حلال کی کمائی میں سے دے دو اور یہ دینار مجھے بخش دو۔‘‘
یہ ایک نوجوان مجذوب تھا او رکسی کے آگے سوائے ایک دینار کا سوال کرنے کے اور کچھ نہ کہتا تھا۔ جب کوئی اسے دینار دیتا تو وہ کہتا کہ ’’یہ دینار قبرستان میں میرے دوست کی قبر میں لے جاکر ڈال دو۔‘‘ پھر خود ہی دینار کو ہوا میں اچھال کر آگے چل دیتا۔ اور دوبارہ دینار کا سوال دہرانے لگتا۔ وہ میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ سے بھی ایک دینار مانگا میں نے اسے ایک دینار نکال کر دیا تو میری طرف ملجتی نگاہوں سے دیکھ کر بولا۔
’’بھائی یہ دینار قبرستان میں میرے دوست کی قبر میں لے جاکر پھینک دو۔ میں جہنم کے عذاب سے بچ جاؤں گا۔‘‘
پھر غو رسے دینار کو ہتھیلی پر رکھ کر دیکھا اور ہوا میں اچھال کر آگے نکل گیا۔ نہ وہ کسی کو بتاتا تھا کہ قبرستان میں وہ کس قبر میں دینار پھینکوانا چاہتا ہے۔ یا ایسا کیوں کرنا چاہتا ہے؟ اور نہ کوئی اس کی طرف توجہ ہی دیتا تھا۔ یہ مجذوب ایک خوش شکل نوجوان تھا اور افغان لگتا تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ جب وہ شہر سے باہر نکل گیا تو میں بھی واپس شہر کی طرف چل دیا۔ جب میں ملتان کے بازاروں سے گزرنے لگا تو جو شکلیں مجھے پہلے روز دکانوں پر بیٹھی نظر آئی تھیں اب ان کی جگہ دوسرے لوگ بیٹھے تھے۔ میں اپنی کاروان سرائے میں گیا تو دیکھا کہ اس کی جگہ سات محرابی دروازوں والی ایک نئی کارواں سرائے تعمیر ہوچکی ہے اب اپنے پراسرار دوست کو تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے ایک آدمی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ غیاث الدین بلبن کا عہد حکومت ہے اور ملتان میں اس کا صوبیدار حکمران ہے۔ گویا میرے شہر سے باہر جانے اور اندر آنے میں دو سو سال کا زمانہ گزرگیا تھا۔ زمانہ تو گزرنا ہی تھا اور ہوائے برشگال کی طرح وہ مجھے اپنے ساتھ سوکھے پتے کی طرح اڑائے لئے جارہا تھا۔
میرا لباس وہی تھا جو دو سو برس پہلے میں نے پہن رکھا تھا۔ اس لباس میں صرف اتنا فرق آیا تھا کہ انگرکھے کے بل اور چنٹیں کم ہوگئی تھیَ بہرحال دو ایک نے میری طرف نظر اٹھا کر میرے لباس کو غور سے دیکھا باقی نے کوئی خاص پرواہ نہ کی۔ اب پھر مجھے ایک بات کی تصدیق کی ضرورت تھی کہ اس عہد میں میرا تشخص کیا ہے؟ کیا میں ایک اجنبی سیاح کی حیثیت سے اس عہد میں نمودار ہوا ہوں یا میری پہلے ہی سے کسی حیثیت کا تعین ہوچکا ہے۔
میری جیب میں دو سو برس پہلے سلطان مسعود کے عہد کے سونے کے سکے پڑے تھے جن کو میں نے بازار صرافہ میں نوادرات کے طور پر فروخت کردیا۔ اپنے لئے اس زمانے کے مطابق نیا لباس خرید کر پہنا اور سیدھا کارواں سرائے میں آگیا۔ میرا ارادہ ملتان سے دہلی کی طرف کوچ کرنے کا تھا جو اس زمانے میں غیاض الدین بلبن کا پایہ تخت تھا۔ ایک ہفتے تک انتظار کرنے کے بعد آخر میں ایک قافلے کے ساتھ ملتان سے عازم دہلی ہوا۔
التمش کی وفات کے بعد دہلی کی حکومت اس کے پالے ہوئے چالیس لے پالک بیٹوں نے آپس میں بانٹ رکھی تھی۔ یہ چالیس ترک ترکان چہل گانی کے نام سے مشہور تھے۔ ہندوستان کی حکومت کو آپس میں تقسیم کرنے کے بعد یہ گروہ ’’ترکان‘‘ ’’خواجہ تاش‘‘ کا نام اختیار کربیٹھا۔ غیاث الدین بلبن بھی ان ہی ترکان چہل گانی میں شامل تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد یہ ترک حکمران غرور و تکبر کے نشے میں چور ہوکر خود پرست اور بے قابو ہوگئے اور انہوں نے آپس میں جنگیں شروع کردیں۔ غیاث الدین بلبن نے ایک ایک کرکے ان سب کو شکست دی اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ حریفوں اور دشمنوں سے ملک کو پاک کرنے کے بعد بلبن نے حکومت کے انتظامی امو رکی طرف توجہ دی اور کچھ ہی عرصے میں اس نے سارے ملک کو اپنے زیر نگیں کرلیا۔ اس کی عظمت و شوکت یہاں تک بڑھی کہ عراق، خراسان، اور ماوراء النہر کے حکمرانوں نے بھی اس کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار کردیا۔(جاری ہے )

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 121 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں