کیا آپ کو غصہ نہیں آتا؟
یہ واقعہ پاک بنگلہ دیش کرکٹ سیریز شروع ہونے سے ایک دن پہلے پیش آیا۔ میری کار سکولوں کی چھٹی کے وقت گلبرگ لاہور کے مین بلیوارڈ سے چھوٹی مارکیٹ کے راؤنڈ اباؤٹ کی جانب رواں تھی۔ اچانک آگے والی کار رُک گئی۔ مَیں نے بھی آرام سے بریک لگا لی۔ پر یہ کیا؟ دیکھا کہ اگلی گاڑی والے صاحب نیچے اتر کر کر میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ مَیں ڈرا، یہ سوچ کر کہ اب شاید کج بحثی کرنی پڑے، جس کی مشق برسوں سے نہیں کی۔ آتے ہی انہوں نے ہاتھ جوڑے اور کہا ”ویری سوری جی، ویری سوری۔۔۔ وہ تھا ہی بے وقوف آدمی، مجھے روکنی پڑ گئی۔ ویری سوری جی، ویری سوری۔“ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ بے وقوف آدمی کون تھا اور یہ صاحب بار بار معافی کیوں مانگ رہے ہیں۔ عرض کیا ”مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا“۔ ”نہیں جی، تکلیف تو ہوئی آپ کو، ویری سوری ویری سوری۔“ مَیں نے فیصلہ کن انداز میں انہیں اشارے سے سلام کیا اور یہ عجیب و غریب مکالمہ ختم ہو گیا۔
منزلِ مقصود کے لئے موڑ کاٹتے ہوئے واقعہ پر دوبارہ غور شروع ہوا تو ذہن میں بانیء پاکستان کے سرکاری سوانح نگار مصنف ہیکٹر بولیتھو کا نام ابھرا۔ وہ اِس لئے کہ کالج کے ابتدائی دنوں میں مذکورہ تصنیف میں ایک قصہ پڑھ کر سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ یہ بات کتاب میں درج کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ بات صرف اتنی تھی کہ محمد علی جناح نے بطور قانون داں اپنے موکل سے یومیہ پندرہ سو روپے فیِس لینے کا اقرار کیا۔ جب مقدمے کا فیصلہ محض دو روز میں ہو گیا تو تین ہزار روپے فیس کاٹی اور موکل کی طرف سے پیشگی ادا کردہ پانچ ہزار روپوں میں سے دو ہزار اُسے واپس بھیج دیے۔ مَیں نے تذبذب کے عالم میں ابا جان سے جا کر کہا تھا کہ یہ تو حساب کا سیدھا سا سوال ہے، کُل پانچ ہزار میں سے تین ہزار فیس لے لی اور دو ہزار واپس۔ ابا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ”انہوں نے واپس کر دیے، لوگ نہیں کرتے نا۔“
”لوگ نہیں کرتے نا“۔ اِسی نکتے کو بنیاد بنا کر ایک مرتبہ پھر خیال کیا کہ سفید کرولا والے آدمی نے، جو دیکھنے میں سید قائم علی شاہ کا چھوٹا بھائی لگتا تھا، آخر مجھ سے معافی کیوں مانگی۔ چند قدم آگے جا کر مَیں نے سیدھے ہاتھ میں استغاثہ اور الٹے میں فریقِ صفائی کا وکالت نامہ تھامتے ہوئے تصور کی مدد سے کچھ مزید سوچا۔ بے وقوف آدمی غالباً وہ ہے جس نے سفید کرولا کی پرواہ کئے بغیر راؤنڈ اباؤٹ پہ سیدھا جانے کی بجائے اچانک یو ٹرن لے لیا۔ کرولا والے کو یک لخت رکنا پڑا اور وہ یہ سمجھ کر ’ویری سوری، ویری سوری‘ کی تسبیح پڑھنے لگے کہ اُن کے بریک لگانے سے مجھے زحمت ہوئی گی۔ میرے اللہ، کیا شخص تھا۔ کچھ ہو جائے، وسطی پنجاب کا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے نہیں ہو سکتا کہ ہمارے لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ کے لوگ یوں نہیں کرتے۔
تو وہ کیا کرتے ہیں؟ اِس کے لئے رواں صدی کی ابتدائی کہانی سنئے جب مَیں نویں نکور ہونڈا سوک پر نکلا کہ اُس سڑک سے لیفٹ ٹرن لے لوں گا جو تھانہ اچھرہ کے راستے کو نہر سے ملاتی ہے۔ ٹریفک کے احترام میں چپکا کھڑا تھا کہ رائٹ سے آنے والی ایک خاتون کی سوزوکی ایف ایکس بلا اشتعال زوردھار دھماکے سے میرے بونٹ سے آ ٹکرائی۔ سوزوکی میں بچے سوار تھے جو سکول سے گھر جا رہے ہوں گے۔ مَیں اطمینان سے اترا اور اپنی کار کے زخمی ماتھے اور ٹوٹی پھوٹی ہیڈ لائٹ پہ نظر ڈالے بغیر کہا ”مجھے خوشی ہے کہ آپ کا نقصان نہیں ہوا۔ آپ جائیے۔“ خاتون کو حوصلہ ہوا کہ بندے نے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی۔ شاید اِسی سے شہ پا کر کہنے لگیں ”ویسے آپ کو یہاں کار نہیں کھڑی کرنی چاہئیے تھی۔“ مَیں نے اپنی عظمت کا دامن ہاتھ سے پھر بھی نہ چھوڑا ”عرض کیا ہے کہ آپ جائیے۔“ وہ چلی گئیں۔
مجھے خوشی اِس پہلو سے ہوئی کہ یلغار کرنے والی گاڑی میں سوار سبھی بچے محفوظ تھے۔ دوسرے یہ کہ گھبرائی ہوئی خاتون کے ساتھ بحث مباحثہ کی نوبت نہ آنے پائی۔ بحث مباحثہ کیا تو جا سکتا مگر اِس کا کیا علاج کہ مجھے ضابطہء شاہراہ میں دئے گئے اصول ازبر تو ہیں، لیکن مجھ سے اونچا نہیں بولا جاتا۔ اِس کا سبب وہ دینی تعلیم ہے کہ بدترین آواز گدھے کی ہوتی ہے۔ یوں بھی حقِ خاموشی آزادیء اظہار کا حصہ ہے، سو جب انسان کو اپنے موقف کی سچائی کا یقین ہو تو زیادہ اونچا بولنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی عادت کو دیکھ کر ایک دوست نے ایک بار مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو بالکل غصہ نہیں آتا۔ کہا ”لوگ وہی کچھ کرتے ہیں جو اُن کے مفاد کا تقاضا ہو۔ اِس پہ غصہ کیسا؟ ہاں، کسی بے انصافی کا مداوا دُور دُور تک نہ ملے تو بے بسی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے۔ اور اِس کی مثالیں آئے دن دیکھتا رہتا ہوں۔“
تازہ مثال اُس نجی تعلیمی ادارے کی ہے جہاں نئی نسل کے شہزادوں، شہزادیوں کو براڈ کاسٹ جرنلزم پڑھانے کی میری کوشش تادمِِ تحریر۔ موازنہ کروں تو قدیم ترین سرکاری یونیورسٹی میں تدریس کا تجربہ کہیں زیادہ خوشگوار اور امید افزا ہے۔ وجہ یہ کہ نودولتیوں کے برعکس ہمارے اکثریتی متوسط طبقہ کے بچے زندگی میں کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں اور یوں تدریسی رہنمائی کی بدولت اِن کی کارکردگی کا معیار روزبروز بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نجی یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کو خلافِ منشا گھیر گھار کر کلاس روم میں لانا ضروری ہے۔ سرکاری شعبہ کے مقابلے میں البتہ یہاں اُستاد کو ملنے والا معاوضہ دوگنا ہے اور اِس کی وصولی کے لئے سمیسٹر مکمل ہو جانے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، تاہم اِس بار یہاں بھی حکم ہوا ہے کہ مزدور کو مزدوری پسینہ خشک ہونے پر ملے گی مگر پہلے یہ ثابت کرو کہ تمہیں واقعی پسینہ آیا تھا۔
پسینہ آنے کا سچا ثبوت تو میرے دوست اور خاندانی رشتہ کے اعتبار سے تایا زاد بھائی فواد حسن فواد نے فراہم کیا ہے۔ انیس ماہ تک ریمانڈ پہ ریمانڈ جھیلتے ہوئے اُن کا اتنا پسینہ بہا کہ فردِ جرم کے انتظار میں بزرگی کی عمر کو پہنچ کر پہلے تو دورانِ اسیری اعلی ملازمت کی قید سے چھوٹے اور پھر ضمانت ہو گئی۔ فواد کی رہائی کے بعد مَیں اُن سے ابھی تک نہیں ملا۔ اِس کا سبب شرمساری کا شدید احساس ہے۔ شرمندگی اِس لئے کہ عدالتی جنگ کے کسی محاذ پر مَیں نے تخلیقی ذہانت کے مالک ایک ایسے آدمی کے لئے کچھ نہیں کیا جو، میری دانست میں، کوئی خلافِ قانون حرکت کرنے کے جبّلی میلان سے عاری ہے۔ فواد کے خلاف مقدمات کی فائلیں تو میری نظر سے نہیں گزریں، مگر ایک مرحلے پر جب انہیں عدالتی کارروائی کے دوران تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تو مَیں نے منصف کے بارے میں سوچا کہ بیٹا، تُو کالج میں فواد کو ٹکرتا تو وہ باتوں باتوں میں تجھے مزا چکھا دیتا۔
کسی سرکاری افسر کی حکمران اشرافیہ سے قربت کِس حد تک ہونی چاہیے اور اِس کی نوعیت کیا ہو؟ پاکستان میں رہتے ہوئے مجھے اِس کا حتمی جواب معلوم نہیں۔ دراصل اِس ذہنی الجھاؤ کا شکار اپنے بندے کو اللہ نے خاص مہربانی سے سول سروس کے عذاب سے بچائے رکھا۔ فواد اِس دلدل میں کیوں پھنسا؟ یہ ذاتی فیصلہ سازی کا معاملہ ہے، وگرنہ نوعمری میں ہم دونوں کے دل میں یہ بھرپور عزم تھا کہ وکالت کو پیشہ بنائیں گے اور قانون کی بالادستی قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ مَیں نے اُس وقت لے ”یو ٹرن“ لیا جب اولین منتخب وزیر اعظم سے نجات حاصل کرنے کے لئے اعلی ترین عدالت کو تختہء مشق بنایا گیا۔ دلِ ناکردہ کار نے سوچا کہ مقتدر حلقوں کی بصیرت سے ماورا حکمت عملیوں کے ہوتے ہوئے مَیں کِس کِس کو انصاف دلاؤں گا اور کیسے۔ وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب مجھ سے سات سال چھوٹے فواد نے اخبار میں بی بی سی کا اشتہار دیکھ کر کہا تھا ”ملک صاحب، یہ پوسٹ تو ہے ہی آپ کے لئے۔“ تھینک یو، فواد۔
اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ شاہد بھائی جان، یہ سب کچھ بیان کرتے ہوئے بھی کیا آپ کو غصہ نہیں آیا یا آپ صرف صلح صفائی کی ایکٹنگ کر رہے ہیں۔ اِس مرتبہ یہ سوال سُن کر امکان یہ ہے کہ مَیں چکرا جاؤں۔ یہ اِس باعث کہ فریقِ استغاثہ اور صفائی دونوں کے حق میں بیک وقت دلائل وضع کرنے کی پرانی عادت کے باوجود آج کل میرا کوئی بھی تجزیہ تبدیل شدہ حالات میں کام کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ جب تجزیہ کام نہ دے تو حساس انسان باہر دیکھنے کی بجائے اپنے باطن میں جھانکنے لگتا ہے۔ اِسی لئے تو جنرل ضیاالحق کے عہد سمیت ہر دورِ جبر میں تصوف نے بہت ترقی کی۔ دوسرا راستہ شاعری کی پناہ گاہوں میں مورچہ بند ہونے کی آپشن ہے۔ مگر شاعری، کونسی شاعری…… محض داخلی واردات، معروضیت کو چھوتا ہوا خارجی مشاہدہ یا وہ جس میں حقیقت اور مجاز کے رنگ ملے ہوئے ہوں؟ اِس پہ مشورہ تو ماضی میں انعامی مشاعروں کے ڈیڑھ درجن طلائی تمغات جیتنے والے فواد حسن فواد ہی سے ہوگا۔ فی الحال فواد ہی کے حوالے سے شہزاد احمد کا مطلع سنئے اور مجھے اجازت دیجئے:
نویدِ موسمِ گُل تو خزاں سے آئے گی
جو لُٹ چکی ہے وہ دولت کہاں سے آئے گی
ٖ