ایسا کر کے تو دیکھئے

ایسا کر کے تو دیکھئے
ایسا کر کے تو دیکھئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عمر 48سال، وزن 68کلوگرام، قد 180 سینٹی میٹر،  بی ایم آئی یعنی وزن اور قد کے تناسب سے جسم میں موجود چربی کی مقدار کو جانچنے کا فارمولہ بھی مقررہ حد کے اندر، روزانہ جم جا کر ورزش کرنا عادت میں شامل، مضر صحت خوراک سے اجتناب برتنا، سگریٹ و شراب نوشی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، ہر 6 ماہ بعد طبی معائنہ و ٹیسٹ کرانا معمول۔ جی ہاں میں بات کررہا ہوں بھارتی کرکٹ بورڈ کے موجودہ سربراہ و سابق کپتان سارو گنگولی کی۔


جو اتنی اچھی صحت ہونے کے باوجود دل کے عارضہ میں مبتلا ہو گئے۔ان کی انجیوگرافی سے 3 بند شریانوں کی نشاندہی کی گئی جنھیں 90% سٹنٹ ڈال کر کھول دیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گنگولی ذیابیطس، بلند فشار خون یا کسی اور بیماری سے تو نہیں لڑ رہے تھے پھر آخر کیوں؟ کھیل کے میدانوں سے رغبت رکھنے والے سپورٹس مین کو دل کے اسپتال کے درشن کرنا پڑے۔
اس کا سادہ سا جواب ہے۔زندگی سے ٹینشن یعنی پریشانی کا خاتمہ کرنا، اپنی تکلیفیں و مصیبتیں اپنوں سے شیئر کرنا، ہر وقت خوش رہنا وہ نسخہ کیمیا ہے جسے سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ یہ ہمارے اپنے بس میں ہے ہاں روزہ مرہ کے معمولات میں کچھ عوامل ایسے ہیں جو ہماری اضطرابی کیفیت کو نا چاہتے ہوئے بھی خوامخواہ بڑھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی طرف توجہ دینا کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں۔


اب آپ ٹریفک کی ابتر صورت حال کو ہی دیکھ لیں۔ آپ سڑک پر آئیں اور آپ کا بلڈ پریشر زیادہ نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔خاکسار نے اکثر مریضوں سے یہ سنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہم مکمل پرہیز کرتے ہیں۔میٹھے کو ہاتھ تک نہیں لگاتے نمک، مرغن غذاؤں اور ممنوع خوراک استعمال نہیں کرتے مگر پھر بھی ہمارا بلڈ پریشر اور شوگر کنٹرول نہیں ہوتے۔


مریض بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ دراصل یہ وہ انجانی پریشانی و تکلیف ہے جو چھوٹی چھوٹی بات پر دماغ میں جمع ہوتی رہتی ہے اور جب آپ سڑک پر آتے ہیں تو بے ہنگم ٹریفک کے اژدھام سے اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اس طرح یہ پریشانی بلند فشار خون اور ہائی شوگر کی وجہ بنتی ہے جو انسان کو فالج، دل کے دورے، آنکھوں کے اندھا پن اور گردوں کو فیل کر کے ڈائلسز پر منتقل کر دیتی ہے۔ اس کے حل کی طرف مجال ہے کوئی سوچے، سمجھے۔پرہیز علاج سے بہتر ہے کا مقولہ اپنے پلے باندھے۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں لوگ تیز رفتاری اور ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر موت کے منہ میں جاتے ہیں۔ جوشیلے نوجوانوں کو آپ جتنا مرضی سمجھا لیں۔وہ موٹر سائیکل پر ناصرف ون ویلنگ کریں گے بلکہ ہلیمٹ تک نہیں پہنیں گے۔ چاھے دماغ کی اندرونی چوٹ سے وہ اگلے جہاں سدھار جائیں۔


اکثر لوگ کہتے نظر آئیں گے۔ او جی، ہیلمٹ پہننے سے ہمارا دم گھٹتا ہے۔ جب تک ہم 100 کلومیٹر کی رفتار سے موٹرسائیکل اور 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی نہ بھگا لیں مزہ نہیں آتا۔
ٹریفک کا سرخ سگنل کراس کرنا، ایک طرف غلط سمت ڈھٹائی سے آنا اور دوسری طرف صحیح سمت سے آنے والے کی طرف سے اخلاقی سبق دینے پر جھگڑا کرنا ہماری شغل اعظم قوم کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔
اس سارے مسئلے میں قصور وان کون؟
1۔ عوام……وہ تو ہیں ہی ڈنڈے کے یار۔
 2۔سرکاری بابوز…… ان کو تو فرصت ہی نہیں کہ وہ اپنے دفتر سے نکل کر زمینی حقائق کا جائزہ لیکر کوئی منصوبہ بندی کریں۔ وہ تو سب اچھا کی رپورٹ دینے پر مصر۔
 3۔ حکومت…… وہ تو 24/7یہ کہتے نہیں تھکتی۔ہمیں سب پتہ ہے۔ ہمارا سر نہ کھائیں۔ہمیں لیکچر دینے کی ناکام کوشش نہ ہی کریں تو بہتر۔ وہ تو کب کا اپنے آپ کو عقل کل اور دوسروں کو فارغ البال کا سرٹیفکیٹ دے چکے۔


حکومتی اکابرین سے غلطی سے اگر کوئی کہہ دے۔ جناب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے کی سزا کا قانون پاس کر دیں۔ موٹروے پر ایم ٹیگ مع بیلنس بنا گاڑیوں کا داخلہ بند کر دیں۔ موٹروے پر لاہور سے ملتان جاتے شرقپور شریف ٹول پلازہ، عبدالحکیم ٹول پلازہ اور اسلام آباد،لاہور سے فیصل آباد جاتے پنڈی بھٹیاں ٹول پلازہ پر عوام گھنٹوں ذلیل و خوار ہو رہے۔ پٹرول کی بے جا کھپت اور ماحولیاتی آلودگی پر کوئی توجہ دے۔ان فضول ٹول پلازوں کو جو جی ٹی روڈ کا منظر پیش کررہے فی الفور ختم کیا جائے۔ کوئی سننے کو تیار نہیں۔ لگتا ہے، متعلقہ وزیر کی ڈیوٹی قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقاریر کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ ان کا عوامی مسئلے سے کیا سروکار۔ ان کو تو اس سے بھی غرض نہیں۔ لاہور، ملتان، سکھر موٹروے پر ریسٹ ایریاز ابھی تک فعال نہ ہو سکے۔ حتیٰ کہ کابینہ میں جناب عمران خان کی موجودگی میں فوری حل طلب ان مسائل پر بات ہوئی لیکن ابھی تک کارکردگی، صفر/صفر۔


خاکسار تو لاہور داخلے کے راستوں کا بار بار ذکر کر چکا کہ فیض پور موٹروے انٹرچینج، سگیاں پل تا لاہور سڑک میں گڑھے پڑ چکے۔ ٹھوکر نیاز بیگ، ملتان روڈ عرصہ 3 سال سے مرمت ہو رہی ان کا بھی کوئی پرسان حال بنے۔ بابو صابو تا شاہدرہ رنگ روڈ پر متعدد یوٹرنز ان پر ٹریفک وارڈنز تعینات کئے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بابو صابو لاہور پولیس ناکے پر موٹروے سے آنے والی ٹریفک کی ایک رو کو ہی نہ چلایا جائے دوسری عارضی سٹاپر لگی رو کو بھی چلایا جائے تاکہ آئے روز کے حادثات سے بچا جا سکے۔ ویسے اس ناچیز نے لاہور ٹریفک کی ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے ایک قابل عمل تجویز دی، راوی موٹروے ٹول پلازہ سے دریائے راوی کے کنارے سے دورویہ سڑک کو سگیاں پل سے ملا دیا جائے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اسلام آباد، ملتان سے آنے والی ٹریفک سیدھا مال روڈ، شاہدرہ، ڈیفنس اور جی ٹی روڈ سے منسلک ہو جائے گی۔ اس طرح کینال روڈ اور اندرون لاہور ٹریفک کے دباؤ میں کمی لائی جا سکے گی۔ صد افسوس کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔


حکومتی وزراء، مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج کو دن رات ٹوئیٹر پر اپوزیشن کے خلاف بیان بازی کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ کوئی جاکر ان کو بتائے آپ کے آئے روز کے یہ بھاشن کسی کام کے نہیں کہ ہم ملک میں اسپتالوں کا جال بچھا رہے ہیں، خدارا!اسپتالوں کو مریضوں سے بھرنے والی شوگر، بلڈ پریشر جو تمام بیماریوں کی ماں کو کوہ ہمالیہ کی بلندیوں پر لے جانے والی ٹینشن یعنی مستقل پریشانی بوجہ ٹریفک جو سالانہ سیکڑوں لوگوں کو ہڑپ کررہی۔ اس کا کچھ کیجئے۔آپ یقین جانیے۔ ہر شخص کا ذہنی سکون۔ نئے اسپتال بنانے اور اسپتالوں کے کروڑوں کے بجٹ اور ڈاکٹرز و طبی عملے کے بوجھ کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہو گا۔ ایسا کرکے تو دیکھئے۔

مزید :

رائے -کالم -