بارش کا پہلا قطرہ اور یورپی یونین

بارش کا پہلا قطرہ اور یورپی یونین
بارش کا پہلا قطرہ اور یورپی یونین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہیں۔بالآخر یورپی یونین کو شدید سردی سے موت و حیات کی مشکلات میں گھرے ہوئے افغانیوں کی مدد کرنے کا خیال آ ہی گیا۔افغانستان کی حالیہ آزادی کے بعد یہ پہلی اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ یورپی یونین نے کابل میں اپنا سفارت خانہ کھول کر شدید سرد موسم میں بھوک کا شکار افغانیوں کے لئے امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔اسے بارش کا پہلا قطرہ کہہ سکتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ حکومت کی بحالی کے بعد افغانستان  کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔عالمی برادری مخصوص مفادات کی وجہ سے افغانستان کو آزاد ملک کا درجہ نہیں دے رہی ہے۔یہ وہی پرانی منافقت ہے،جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو ظالمانہ اور غیر منصفانہ اقدامات سے روکا نہیں گیا۔افغان حکومت بھی اسی منافقانہ پالیسی کا شکار ہے۔

افغانستان کی طرف سے متعدد بار اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کی آزادی کو باضابطہ طور پر تسلیم کر کے دنیا بھر میں اس کے مالی اثاثوں اور اکاؤنٹس کو بحال کیا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کو اقتصادی مشکلات سے نجات دلا سکیں،لیکن افغانستان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا۔ ایسی صورت حال میں یورپی یونین نے مظلوم اور بے بس افغانیوں کی مدد کا فیصلہ کیا اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس امدادی کارروائی کو یہ نہ سمجھا جائے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔یہ سب کام انسانی ہمدردی کے جذبے سے کیا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو تسلیم کرنے اور وہاں ہنگامی بنیادوں پر امدادی اقدامات شروع کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔پاکستان نے کئی بار افغان عوام کو درپیش سنگین مسائل سے بچانے کے لئے بھاری بھر کم امدادی سامان بھی بھیجا ہے۔اب یورپی یونین نے انسانی ہمدردی کے جذبات کے تحت کابل میں مشروط طور پر اپنا سفارت خانہ کھول کر امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا ہے۔


گزشتہ مہینے یورپی یونین میں شامل چار ممالک نے سفارتی سطح پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم از کم چار لاکھ افغان خاندانوں کو ان کے ممالک میں پناہ دی جائے گی۔یاد رہے پاکستان دو دہائیوں تک 40لاکھ افغانیوں کو پناہ دیتا رہا۔مشکلات اور مصائب کا شکار افغان عوام میں سے صرف چار لاکھ خاندانوں کی امداد اور پناہ کو یورپی یونین کی حقیر کوشش کہا جائے گا، لیکن موجودہ صورت حال میں اس حقیر کوشش کو بھی اہم سمجھنا چاہئے کہ جب تک معمولی تعداد میں افغانیوں کی یہ پناہ اور امداد عملی صورت میں سامنے آئے گی اس وقت تک ممکن ہے، بہتری کے مزید کئی راستے کھل چکے ہوں۔فی الحال یورپی یونین کا افغانستان میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کی تعریف ہونی چاہئے کہ انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت یورپی یونین میں شامل ممالک نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔یہ اچھا کام طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ ہے،اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے افغانستان کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بیان دے کر عالمی برادری کو مطمئن کیا تھا کہ طالبان حکومت نے اپنے تمام وعدے پورے کر دیئے ہیں،لہٰذا طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔

امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے افغانستان کی آزادی کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے فوجیں اس لئے واپس بلائی تھیں کہ جنگ زدہ ملک کو متحد رکھنا ممکن دکھائی نہیں دیا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بیس سال تک افغانستان میں بھاری بجٹ خرچ کرتے رہے۔ امریکہ کو ہر ہفتے ایک ارب ڈالر خرچ کرنا پڑتے تھے،جبکہ ہمارا ملک عزیز غیر معینہ مدت تک ایسا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔امریکی صدر جوبائیڈن کے اس موقف سے افغانستان کی اندرونی صورتِ حال اور مسائل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔افغانستان کے لئے عالمی برادری جس قدر جلد انصاف پر مبنی فیصلہ کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا شروع کرے گی اتنا ہی اچھا ہو گا۔ایسے میں یورپی یونین کا حالیہ اقدام ہر لحاظ سے قابل ِ تعریف اور مثبت قرار دیا جانا چاہئے۔


حالات کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں کسی نہ کسی حوالے سے امدادی کارروائیاں شروع ہوتی رہیں اور آہستہ آہستہ اس ملک کے مظلوم اور مصائب کا شکار عوام کو آزادی کے تسلیم کرنے کی خوشخبری ملنے لگے۔ اگر عالمی برادری افغان عوام اور طالبان حکومت کی مجبوری کو حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھ کر اصولی اور درست فیصلے کرے تو اس خطے میں امن،سلامتی اور تحفظ کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔اگر طالبان حکومت کے مالی اکاؤنٹس بحال کر دیئے جائیں تو اس ملک کے عوام قدرے سُکھ کا سانس لے سکیں گے۔حالت یہ ہے کہ افغانستان میں عوام کو خوراک کی کمی اور شدید سردی میں دن رات گزارنے کے غیر معمولی اور تکلیف دہ مسائل کا سامنا ہے۔وہاں سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی رقوم دستیاب نہیں،کیونکہ عالمی سطح پر افغانستان کے اثاثے منجمد ہیں اور حکومت اپنے معاملات کو جاری نہیں رکھ سکتی،جس ملک میں اقتصادی بحران اور مالی مشکلات کا یہ عالم ہو،وہاں بہتری اور معمول کی زندگی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔

سب کچھ عالمی برادری کے ضمیر پر منحصر ہے، المیہ یہ ہے کہ مخصوص مفاد پرستی اور منافقانہ پالیسی کی وجہ سے افغانیوں کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔اسے انتہائی بے حسی، سنگدلانہ اور غیر منصفانہ رویہ کہہ کر دِل کی بھڑاس تو نکالی جا سکتی ہے،لیکن جب تک یہ ناانصافی جاری رہے گی،افغان عوام کی مشکلات اور مصائب میں کمی نہیں ہو گی۔اس سلسلے میں پاکستان اپنی بساط کے مطابق آواز بلند کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا، پاکستانی سفارتی کوششوں سے یورپی یونین نے افغانستان میں مشروط طور پر اپنا سفارت خانہ کھولا ہے۔ایسی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آنے والے دِنوں میں دو چار ممالک کی طرف سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا جائے تاکہ بھرپور انداز میں افغان عوام کی مشکلات کی کمی کا سلسلہ شروع ہو اور اس خطے میں انصاف پر مبنی اقدامات سے اطمینان بخش صورت حال پیدا ہو سکے۔یورپی یونین نے انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت جو سبقت حاصل کی ہے، دوسرے ممالک کو بھی آگے بڑھنا چاہئے۔ یہی صحیح راستہ ہے!

مزید :

رائے -کالم -