نظام کی تبدیلی کی بازگشت اور ایمنسٹی کی رپورٹ
ملکی سیاسی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت سیاست میں ایک ارتعاش سا محسوس ہو رہا ہے۔ ہر طرف سے بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی ہیں۔ کوئی تین ماہ اہم قرار دے رہا ہے تو کوئی اکتوبر نومبر میں ’’ تبدیلی‘‘ کی پیشگوئی سنا رہا ہے۔ کہیں پارلیمانی نظام کے حق میں دلائل دیے جارہے ہیں تو کہیں پارلیمانی نظام کی خامیاں محفلوں کا موضوع بن رہی ہیں۔ کہیں صدارتی نظام کو ملکی مسائل کا حل بتایا جارہا ہے تو ساتھ ہی صدارتی نظام لانے کی امیدیں بھی دلائی جارہی ہیں۔ ملکی مسائل کا حل صدارتی نظام کے تناظر میں پیش کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاریوں میں ہے تو دوسری طرف حکومت بھی کسی صورت اپوزیشن کو سافٹ کارنر دینے کو تیار نہیں۔
بات آج کل صدارتی نظام کی چل نکلی ہے ، کوئی سرکاری میٹنگ ہو یا نجی محفل ، پارلیمنٹ ہو یا چوک چوراہے اور گھروں کے ڈرائینگ روم، ہر جگہ آج کل کا موضوع صدارتی نظام بنا ہوا ہے۔ نظام کی تبدیلی کی بات کی جائے تو ہمارے ہاں سات دہائیوں میں متعدد بار نظام کی تبدیلی کی گئی ہے۔ مریض کے لیے دوائیاں بدلی جارہی ہیں لیکن اصل مرض کی تشخیص نہیں ہو رہی۔ہرکوئی اپنی منطق پیش کررہا ہے۔ کوئی پارلیمانی نظام کے حق میں دلائل دے رہا ہےتو کوئی صدارتی نظام کی خوبیاں گنوا رہا ہے۔
ہماری ملکی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں ہر کچھ سال بعد نظام کی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے۔ متعدد بار نظام بدل کر دیکھ لیا لیکن مسائل جوں کے توں رہے۔ نظام بدلا حکمران بدلے، نہیں بدلی تو عوام کی قسمت نہیں بدلی۔ جیسے ہی جمہوری و پارلیمانی نظام پٹری پر چڑھنے لگتا طالع آزماؤں نے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا اور اختیارات فر د واحد کے ہاتھ میں چلے جاتے رہے۔ ایوب خان سے لیکر یحیی خان تک اور پھر صدر ضیا سے لیکر مشرف کے دور حکومت تک (مارشل لاء ادوارمیں)ملک میں صدارتی نظام رہا۔ لیکن عوام کی قسمت وہی رہی جو ان کے حصے میں شروع سے آئی۔
یہاں متعدد بار پارلیمانی نظام بھی آزمایا گیا۔ لولی لنگڑی جمہوریت بھی کسی حد تک چل ہی رہی ہے۔ ایک جمہوری حکومت آئی اس کو خفیہ ہاتھوں کے ذریعے گرایا گیا تو دوسری آنیوالی حکومت کیخلاف بھی ایسے ہی ہتھکنڈے استعمال ہوتے رہے۔ الغرض حکومتیں بدلیں، نظام بدلا ، چہرے بدلے لیکن عوام کی کھوٹی قسمت نہ بدل سکی۔ اس کی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی ہوتو نظام کوئی بھی ہو وہ بہتر انداز میں چل سکتا ہے۔ قانون کی حکمرانی ہو تو عوام کو جینے کے حقوق ملتے ہیں۔ قانونی کی حکمرانی ہو تو امیر اور غریب کے لیے ایک جیسا قانون ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی ہو تو پھر کوئی قاتل ’’ ہسپتال ‘‘ میں قید نہیں ہوتا بلکہ حقیقی طور پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔
جب قانون کی حکمرانی ہو تو پھر کوئی سانحہ ساہیوال جیسا واقعہ پیش آتاہے نہ ہی کسی طاقتور کی گاڑی راہ جاتے مسافروں کو روند کر جانے کے باوجود آزادنہ گھوم سکتی ہے۔ قانون کی حکمرانی ہو تو پھر نہ ذخیرہ اندوزی کے ذمہ داران بچ سکتے ہیں اور نہ کوئی کرپٹ حکومتی ایوانوں میں پناہ لے سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کی یہ ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں قانون تو موجود ہے، قانون بنانے والے بھی موجود ہیں، قانون پر فیصلہ دینے والے بھی موجود ہیں، قانون پر عملدرآمد کروانے والے بھی ہیں لیکن پھر قانون پر عملداری کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔
آپ نظام کو کیا دوش دے سکتے ہیں نظام تو دنیا بھر میں کئی قسم کے چل رہے ہیں۔ امریکا برطانیہ اور امارات کو دیکھ لیں یہاں صدارتی، پارلیمانی اور بادشاہی نظام بالترتیب چل رہے ہیں۔ ہر ملک نے اپنے مطابق نظام حکومت کو اپنایا اور پھر کامیابی سے چلایا بھی۔ امریکا میں صدارتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے، برطانیہ میں پارلیمانی ، امارات میں بادشاہی نظام کے تحت حکومتی امور سرانجام دیے جارہے ہیں لیکن تینوں نظم احسن انداز سے چل رہے ہیں، عوام خوشحال ہیں، قانون سب کے لیے برابر ہے۔ وہاں ایسا تاثر ہی نہیں کہ کوئی غیر قانونی کام کرے اور قانون کی گرفت اس پر نہ آسکے چاہے وہ کوئی طاقتور شخصیت ہو یا حکومتی اہلکار ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں اربوں روپوں کے قرضے معاف کروانے والے بھی حکومتی صفوں میں شامل ہو کر ’’ پاکیزہ شخصیات‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہاں تو قانون کو امرا نے گھر کی باندی بنا رکھا ہے، جس کا دل چاہا قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیا اور پھر دوسری جماعت میں شامل ہو کر ’’ مقدس گائے‘‘ بن گئے۔ کسی کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہے تو وہ فوراً ای سی ایل سے نام نکلوا کر باہر چلا جائے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جب یہاں قانون کی حکمرانی ہو گی ، امیر غریب کے لیے ایک قانون ہو گا ۔ اربوں کے گھپلے کرنے والے کے لیے بھی قانون کے مطابق سزا ہو گی جیسے ایک سائیکل چور کے لئے قانون و آئین سزا تجویز کرتا ہے تو پھر ہی کوئی نظام یہاں کامیاب ہو پائے گا۔ پھر چاہے وہ صدارتی ہو یا پارلیمانی اس سے فرق نہیں پڑتا۔
ابھی یہ تحریر لکھی جارہی تھی کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرپشن کے حوالے سے عالمی رینکنگ کی خبر نے ٹی وی سکرینوں پرکھلبلی مچا دی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن نے سابقہ ادوار کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر 180ممالک میں کرپشن کے اعتبار سے 124ویں نمبر سے 140ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزیراعظم کے خصوصی معاون شہباز گل نے ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ساکھ پر ہی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
یاد رہے یہ وہی ایمنسٹی انٹرنیشنل ہے جس کی رپورٹس پر وزیراعظم عمران خان اپنے اپوزیشن ادوار میں سابقہ حکومتوں کے لتے لیتے رہے۔ انہیں ہدف تنقید بناتے ہوئے ایجنسی کی رپورٹس کا حوالہ دیتے رہے۔ کرپشن کو ملکی سلامتی اور معاشی صورتحال کے لیے زہر قاتل قرار دیتے رہے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ان کے اپنے دور حکومت میں کرپشن نے سات دہائیوں کے ریکارڈ تین سال میں توڑ کر ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا ہے۔ ایمنسٹی کی یہ رپورٹ حکومت کے بیانیے میں آخری کیل ہی کہا جائے تو بہتر ہے کہ جو جماعت کرپشن کے خاتمے کا عَلَم لے کر اقتدار میں آئی اس کے دور میں ریکارڈ کرپشن ہوئی۔ اس کیساتھ یہ بیانیہ بھی بری طرح پِٹ گیا کہ ٹاپ پر بندہ ایماندار ہو تو نیچے کرپشن نہیں ہو سکتی۔ اب رپورٹ سے کیا مطلب نکل رہا ہے اس بنانیےسے کہ ’’ ٹاپ پر بندہ ایماندار ہو تو نیچے کرپشن نہیں ہو سکتی ‘‘ کیا مراد لی جائے؟؟؟
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.