مسیحا کا انتظار نہ کریں!
ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی آئے گا اور جادوئی چھڑی سے ملک کو تنزلی کی عمیق و تاریک پاتال سے نکال کر ترقی کی رفعتوں سے روشناس کرا دے گا۔ اس اندازِ فکر کے پیچھے تین محرکات کار فرما ہیں؛ اوّل، ہم چاہتے ہیں ہمیں خود کچھ نہ کرنا پڑے بس کام خودبخود ہو جائے؛ دوم، اپنے آپ کو نہ بدلنا پڑے ملک بدل جائے؛ اور سوم، نظام پہ بھروسہ کی بجائے فرد پہ انحصار کیا جائے۔ یہ خیام خالی، تساہل اور جاہلیت ہمارے زود افزوں زوال و تنزلی کا باعث ہے۔ خود پرست، شاطر اور خود غرض رہنما نما اشخاص اس کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، جھوٹے خواب اور فریبی نعرے لگا کر چونا لگاتے رہتے ہیں۔ اور سالہا سال ببانگِ دہل استحصال کرتے ہیں مگر مجال ہے معصوم عوام کی آنکھوں سے غفلت کی پٹی اترنے دیں اور ان کو آگے بڑھنے دیں۔ رہنما تو وہ ہوتا ہے جو لیڈر بن جاتا ہے تو دوسروں کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے مگر یہاں تو رنگ، ڈھنگ و آھنگ یہ کے کہ خود سدا اقتدار سے چپکے رہتے ہیں یا چپکنے کی راہ تکتے رہتے ہیں۔
یہ زبان زدِ عام ہے کہ جیسنڈا آرڈرن سے ہی کچھ سبق سیکھ لیں۔ اس خاتونِ درویش نے جس بے نیازی اور آسانی سے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے وہ ہمارے لئے اہم سبق ہے۔ اور انہوں نے دو جملوں میں اتنے بڑے فیصلے کو اتنی آسانی سے کرنے کی وجہ بیان کر دی۔”میں جانتی ہوں کہ یہ کام کیا (محنت و قربانی) لیتا ہے۔ اور میں جانتی ہوں کہ میرے پاس اب اتنی (چاہ اور توانائی) نہیں ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کر سکوں۔ یہ اتنا آسان ہے“۔ در اصل اس میں نہ تو ھوسِ اقتدار تھی نہ دماغ میں خناس کہ بس وہی ایک رہنما ہے جو اپنی سیاسی جماعت کو چلائے گی اور ملک کو بچائے گی۔ اسی لئے مضبوط سیاسی حیثیت ہونے کے باوجود اندر کی آواز پر لبیک کہا اور عالم ِ جوانی میں ہی کرسی اقتدار کو بلا جھجھک خیر باد کہا دیا۔ ہم ایسے بے نیاز اور اہل رہنماؤں سے کیوں محروم ہیں؟
اس کی سب سے نمایاں وجہ یہ ہے کہ ایک تو خود عوام کی بہت بڑی تعداد بد عنوانی اور ناخواندگی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اپنے ننھے نکّے مفادات کی لمبی ناک سے آگے انکی سوچ جاتی نہیں۔ لہذا یہ ایسے لیڈروں کا چناؤ کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے جو انکے اور ریاست کے لئے تن من دھن وارنے کی سوچ اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ نتیجہ ظاہر ہے اس کا بھرپور فائدہ طاقتور اشرافیہ اٹھاتی رہی اور مل جل کر اپنے میں سے ہی حکمران لگاتی رہی اور لگا رہی ہے۔
مایوسی گناہ ہے مگر حقیقت کو آنکھیں کھول کر دیکھنا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نبرد آزما ہونآ فضیلت ہے، فرض ہے۔یہ فضیلت اپنانی ہو گی، یہ فرض نبھانا ہو گا۔ ہمیں ایک بڑے مقصد کے لئے متحد ہو کر کام کرنا ہو گا مگر اس سے پہلے ہر شہری کو اپنا کردار کی تعمیر کرنا ہو گی۔ ہم رہنماؤں سے دور اندیشی، بلند کردار اور دردِ دل کے متقاضی تب ہوں جب ایسے ہی عناصر ہمارے کرداروں کے اجزا ہوں۔جب ہم من حیثالقوم یہ روش اور رویہ اختیار کر لیں گے تو ہمارے میں سے ہی بہترین رہنما ابھرے گا۔ نام نہاد اشرافیہ بھی کردار اور اتحاد کے روبرو ڈھیر ہو جائے گی۔
ابھی خیبر پختونخوا اور پنجاب میں عبوری حکومتوں کو دیکھ بھال کے لئیے لگایا جا رہا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ کافی دیکھ بھال کر لگایا جا رہا ہے۔ یہ فیصلے اور معاملے بھی اصحابِ ثروت و طاقت نے ہی طے کرنے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عمومی طور پر ان میں سے ہی یا ان کے کوئی کارندے اور ہرکارے، جن پر مہرِ وفاداری ثبت ہو، ہی اس گارِ خیر کے لئے چنے جائیں گے۔ ایسے ہی یہ جال بنے جائیں گے۔ دکھاوے کے لئے شائد ایک آدھ سْچا اور سچا ہم میں سے بھی لے کر ایوانِ اقتدار میں وقتی طور پر سجا دیا جائے۔ اس کی طنابیں بھی ہاتھ میں رکھی جائیں گی تاکہ کبھی کہیں اڑی پھڑی کرے تو بیک جنبش ابرو اس کا خیمہ اس کے سر پر ہی گرا دیا جائے۔ دیکھتے جائیے کیسے تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرانے چلی ہے۔ اور یاد رکھئے یہ تب تک دہراتی رہے گی جب تک خدائے بر تر کو یقین نہ آ جائے کہ اس قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کا خیال آ گیا ہے۔
کسی مسیحا کے انتظار میں بیٹھے معصوم لوگو، خاص طور پر سمندر پار پاکستانیو، ہمیشہ سے اس بارے میں بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا مسیحا آ کر مثالی معاشرہ تشکیل دے گا یا ہمیں خود ایسی دنیا بنانے پڑے گی جو مسیحائی دور کے لائق ہو۔ ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دوسری بات زیادہ سچی اور قابلِ عمل ہے۔ ہمیں دورِ مسیحائی کے لئے خود ہی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ ورنہ یہاں کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں، معاشرہ بہتر کر لیں، نظام مظبوط بنا لیں، یہی مسیحا ہے۔