سانحہ 9مئی اور پی ٹی آئی کا پلان سی

          سانحہ 9مئی اور پی ٹی آئی کا پلان سی
          سانحہ 9مئی اور پی ٹی آئی کا پلان سی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی جن میں اے این پی بھی شامل ہے، مگر اے این پی کی سیاسی قیادت نے عمدہ حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے اپنے ووٹرز کو قابو میں رکھا اور سیاسی مخالفین کے لئے سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑا۔جب 12اکتوبر 1999ء کو منتخب وزیراعظم کو برطرف کر کے اقتدار پر پرویز مشرف قابض ہوئے تب طیارہ ہائی جیکنگ سازش کے پیش ِ نظر مسلم لیگ(ن) پر بھی پابندی لگائے جانے کا ذکر چل رہا تھا۔اس موقع پر مسلم لیگ(ن) کے قائد نے ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمتی معاہدہ کرکے اپنے لئے سیاسی میدان میں آسانیاں پیدا کر لی اوراس کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت پر تنقید کو چھوڑ کر،سیاسی دھارے میں شامل ہوکر الیکشن میں بھرپور حصہ لیاجبکہ جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار نے اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی پارٹی لیڈر کی حیثیت سے ن لیگ کے لئے مستقبل میں سیاسی کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کی۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں پی ٹی آئی کے لئے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، اس کو اب یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ مخالف کو کتنی جگہ دینی ہے اور کتنا  دبانا ہے اور اختیار و اقتدار میں ہونے کے باوجود، خود کو بھی کتنا محدود رکھنا ہے، مگر پی ٹی آئی ان دِنوں سیاسی قائدین کے باہمی اختلافات کا شکار ہے اور اِس صورتحال نے کارکنوں کو تذبذب میں ڈال رکھا ہے کہ کس رہنماء پر اعتبار کریں اور کس کی بات کو جماعت کی پالیسی سمجھیں جبکہ دوسری طرف جیل میں کئی ماہ سے بند رہنے کے باوجود چیئرمین پی ٹی آئی کی سختی اور تلخی کم نہیں ہورہی۔پی ٹی آئی کے پلان اے اور بی کی ناکامی کے بعد اب عمران خان کی جانب سے پلان سی کی بات ہو رہی ہے جو وہ الیکشن کے قریب اپنے کارکنوں کو بتائیں گے۔اللہ کرے کہ 8فروری کو 9مئی کی تاریخ نہ دھرائی جائے لیکن سچ ہے کہ اقتدار سے اُترنے کے بعد سے عمران خان نے اپنے طرزِ عمل سے ظاہر کیا ہے کہ اُنہیں اقتدار کے سنگھاسن پر ایک بار پھر سے بیٹھنا مقصود ہے۔چاہے، مقصد کے حصول کے لئے ملک و قوم کو کتنی بھی بھاری قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔سارا پاکستان جانتا ہے کہ9مئی کے واقعات کی باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے اداروں کو یرغمال بنانے کی ناپاک سازش کس نے بنائی؟ اِس خوفناک سازش کے نتیجے میں کتنے معصوم نوجوان اپنے روشن مستقبل سے محروم ہوئے؟ملکی سلامتی کو خطرے میں کس نے ڈالا؟اسی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالیہ دِنوں میں مریم نواز نے اپنی ایک تقریر میں پی ٹی آئی کو ایک دہشت گرد تنظیم کہا ہے۔اِس سے پہلے آئی ایس پی آرکا بھی یہی موقف تھا۔کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ سلامتی کے ادارے اور سیاسی جماعتیں اس ایک نکتے پر ہم خیال ہیں؟ کیا پی ٹی آئی پر پابندی لگنے جا رہی ہے؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اداروں کے سربراہوں پر براہِ راست غیر اخلاقی تنقید کی جارہی ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کی ذمہ دار،سیاسی جماعتیں ہیں۔سیاست سے شائستگی اور بردباری یکسر ختم کر دی گئی ہے۔اس کی حالیہ مثال کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے مسلسل معزز ججوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے جبکہ فیصلے کی جزئیات پر بات نہیں ہورہی اورقانونی نکتے نہیں اُٹھائے جارہے، بلکہ تنقید برائے تنقید کا رجحان نمایاں ہے۔یاد رہے!پی ٹی آئی کی جانب سے اِس قسم کی محاذ آرائی پہلے فوج کے خلاف کی گئی اور اب دوسرے مرحلے میں عدلیہ کو نشانے پر لیا گیا ہے۔نگران حکومت نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے اس معاملے کی روک تھام کے لئے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جو اس سازش میں شامل تمام شر پسند عناصر کی سرکوبی کرے گی۔اس معاملے پرسب سے خوش آئند پیش رفت وکلاء تنظیموں کی طرف سے اُس وقت سامنے آئی جب اُن کے سینئر رہنماؤں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت اور سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔اب اگر ہم نو مئی کے واقعات کے سلسلے میں درج مقدمات میں ہونے والی پیشرفت کی بات کریں تو بانی پی ٹی آئی کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے اور شاید خان صاحب کو اِس حقیقت کا ادراک بھی ہو رہا ہے اِسی لیے اب وہ پلان سی کی بات کررہے ہیں۔اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ 35پنکچروں والے سیاسی بیان کی طرح کا پلان سی ہے یا مختلف ہے۔

 پی ٹی آئی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ سب سیاسی جماعتوں سے بات کرے اور سیاسی ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھے، مگر لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی اخلاقیات کی باتیں،اُن کی مقبولیت کے زعم تلے دب گئی ہیں۔انتخابات کے حوالے سے اچھی بات یہ ہے کہ بلے سے،بلے  باز تک کے ناکام سفر کے بعد بھی اکثریتی پی ٹی آئی رہنماء الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں،مگر اس موقع پر یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر مگر کے بغیرکیا پی ٹی آئی الیکشن نتائج قبول کرے گی؟ اس بات کا فیصلہ جماعت کی قیادت نے کرنا ہے کہ کیا پی ٹی آئی پاکستان کی مستقبل کی سیاست میں اپنا کردار ادا چاہتی ہے؟اگر چاہتی ہے تو اُس کو اداروں کو عزت دیتے ہوئے حکمت اور بصیرت کے ساتھآگے بڑھنا ہو گا۔ ہمارے سامنے نیلسن منڈیلا کی مثال ہے جو تقریباً 27 سال جیل میں رہے، مگر کبھی اپنے لوگوں کو انتشار پر نہیں اُکسایااور نہ ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔ جب وہ رہا ہوئے تو دنیا نے اُن کی استقامت کی داد دی اور یوں اُن کی جدوجہداور صبر کی وجہ سے اُن کا نام تاریخ میں امر ہو گیا۔اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مقبول لیڈروں میں عمران خان شامل ہیں مگر ضرورت اِس بات کی ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کو اخلاقیات پر ترجیح نہ دیں اور قوم کو دوبارہ9مئی کا تحفہ دینے سے پرہیز کریں۔

مزید :

رائے -کالم -