"خواتین کا تحفظ، پنجاب کا عہد ، تبدیلی کا نیا دور

Jan 26, 2025 | 12:15 AM

تحریر : عظمیٰ رباب
پنجاب کے دل لاہور میں، ایک گھریلو تشدد کا شکار خاتون اپنے چھوٹے بچے کو گود میں تھامے ہوئے ویمن پروٹیکشن سینٹر کی دہلیز پر آئی۔ اس کے چہرے پر خوف اور مایوسی کی جھلک تھی، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عزم تھا—زندگی کے اس مشکل مرحلے میں مدد حاصل کرنے کا۔ سینٹر میں داخل ہوتے ہی، اسے ایک ہمدرد اور پیشہ ور ٹیم نے خوش آمدید کہا جو نہ صرف قانونی مدد فراہم کرنے کو تیار تھی بلکہ نفسیاتی اور طبی مدد بھی فراہم کر رہی تھی۔ یہ سینٹر، وزیراعلیٰ مریم نواز  کی قیادت میں قائم کیا گیا تھا، جو پنجاب میں خواتین کے تحفظ اور انصاف کے لیے حکومت کے پختہ عزم کی علامت بن چکا ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز  نے جب اپنی حکومت کا آغاز کیا تھا تو ایک واضح اعلان کیا تھا، "خواتین میری ریڈ لائن ہیں۔" ان کے اس بیان نے صوبے کی خواتین میں یہ امید کی کرن جگائی کہ اب انکی بات سنی جائے گی اور انہیں یقینی انصاف فراہم کیا جائے گا۔  مریم نواز کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالتے ہی، ہمیں جینڈر بیسڈ وائلنس کے حوالے سے نئے اقدامات دیکھنے کو ملے، سزائیں سخت ہو گئیں اور کیسز کی رپورٹنگ اور انصاف کی فراہمی میں تیزی آئی۔  وزیر اعلیٰ پنجاب کی قیادت میں پنجاب میں جنس پر مبنی تشدد سے متعلق تحفظ کا نظام فعال نظر آیا۔ 
پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئرپرسن، حنا پرویز بٹ، نے ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حنا پرویز فیلڈ میں خاصی ایکٹو نظر آتی ہیں۔ کسی بھی قسم کے تشدد کا کیس رپورٹ ہونے پر وہ فوری متاثرہ خاتون سے ملنے اسکے گھر جاتی ہیں اور کیس کو تب تک فالو کرتی ہیں جب تک وہ منطقی انجام تک نہ پہنچ جائے۔ اس سے پنجاب میں خواتین کے لیے ایک ایسا محفوظ ماحول قائم ہو سکا ہے جس سے خواتین میں ایک اداروں پر اعتماد کی فضاء قائم ہوئی ہے۔ ان کی قیادت میں پنجاب حکومت نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو نہ صرف خواتین کے تحفظ کو یقینی بنا رہے ہیں بلکہ ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے درکار وسائل بھی فراہم کررہے ہیں۔
پنجاب میں پنجاب پروٹیکشن آف وومن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016 کا قانون نافز ہونے کے بعد خواتین پر تشدد کے کیسز کی رپورٹنگ شروع ہوئی اور خواتین کی سہولت کے لئے وائلینس اگینسٹ ویمن سنٹر ملتان کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں زیادتی اور تشدد کا شکار خواتین کو ایک ہی چھت تلے قانونی، نفسیاتی اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ یہ قانون خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک سنگ میل تھا لیکن اس کی مکمل عمل داری میں کچھ مسائل آ رہے تھے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں اس قانون کو نئی روح دی گئی اور اب اس کا نفاذ پہلے سے زیادہ مؤثر طریقے سے ہو رہا ہے۔ چیئرپرسن حنا پرویز بٹ کی محنت اور قیادت میں اس قانون کے تمام نکات کو عملی طور پر نافذ کیا جا رہا ہے، جس سے تشدد کا شکار خواتین کو فوری مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
خواتیں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لئے ایک اور اہم قدم تیزاب حملوں کے خلاف قانون سازی ہے، جس کے تحت تیزاب اور دیگر نقصان دہ اشیاء کی خرید و فروخت پر سخت کنٹرول لگایا گیا ہے۔ یہ بل پنجاب حکومت کی مکمل حمایت سے منظور کیا گیا۔ اس بل کے ذریعے حکومت نے اپنے عزم کا اظہار کیا کہ وہ خواتین کے تحفظ اور تیزاب حملوں جیسے سنگین جرائم کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔
پنجاب میں تشدد کا شکار خواتین کے لیے ایک اور بڑی کامیابی، جنس پر مبنی تشدد کیس ٹریکنگ سسٹم کا کیس فلو مینجمنٹ سسٹم کے ساتھ انضمام ہے۔ یہ جدید سسٹم کیسز کی مانیٹرنگ اور ان کے حل کی رفتار کو بہتر بناتا ہے۔ اس سے پولیس، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان شفافیت بڑھی ہے، اور ہر کیس کو تیزی سے نمٹانے میں مدد ملنا شروع ہوئی ہے۔ اس سسٹم کی بدولت اب خواتین کے کیسز کو مؤثر اور بروقت طریقے سے حل کیا جا رہا ہے، جس سے متاثرین کو جلد انصاف مل رہا ہے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں، ویمن پروٹیکشن سینٹرز کو دوبارہ فعال کیا گیا ہے، جو تشدد کا شکار خواتین کے لیے ایک پناہ گاہ بن چکے ہیں۔ ان مراکز میں خواتین کو نہ صرف قانونی مدد اور نفسیاتی مشاورت ملتی ہے بلکہ انہیں رہائش، صحت کی سہولتیں اور دیگر ضروری خدمات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ ملتان کی طرز پرلاہور میں بھی وائلینس اگینسٹ ویمن سینٹر کا افتتاح 25 نومبر 2024 کو کیا گیا، تا کہ لاہور اور اسکے مضافات میں زیادتی اور تشدد کا شکار خواتین کو انصاف فراہمی کے لئے ملتان نہ جانا پڑے۔ 
پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کی ایک اہم سہولت ہیلپ لائن 1737 ہے، جو 24 گھنٹے خواتین کو فوری مدد، قانونی مشورہ اور نفسیاتی مشاورت فراہم کرتی ہے۔ یہ ہیلپ لائن خواتین کے لیے ایک زندگی بچانے والے وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے، جو انہیں فوری مدد فراہم کرتی ہے اور انہیں قانونی راستے پر رہ کر اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے راہنمائی فراہم کر رہی ہے۔
پنجاب میں تشدد کے واقعات کی بڑھتی ہوئی رپورٹنگ کو بعض اوقات جرائم میں اضافے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین اب حکومت پر اعتماد کرنے لگی ہیں اور وہ جانتی ہیں کہ ان کی شکایات سنی جائیں گی اور ان کا حل نکالا جائے گا۔ یہ تبدیلی حکومت کی آگاہی مہموں، ضلعی سطح پر تحفظ افسران کی تعیناتی اور مختلف اداروں کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔
پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی نے صلاحیت سازی کے پروگرامز بھی متعارف کرائے ہیں تاکہ ضلعی افسران اور دیگر اہلکاروں کی تربیت کی جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہر کیس کو اہمیت دی جائے اور اسے تیزی سے حل کیا جائے۔ اس تعاون سے نظام کو مزید مضبوط بنایا گیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ ہر متاثرہ خاتون کو بہترین مدد ملے۔
پنجاب حکومت صرف فوری طور پر مدد فراہم نہیں کررہی، بلکہ تشدد کا شکار خواتین کی طویل المدتی بحالی پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ ویمن پروٹیکشن سینٹرز میں پناہ لینے والی خواتین کو نہ صرف قانونی اور طبی مدد فراہم کی جاتی ہے بلکہ انہیں تربیتی پروگرامز میں بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ وہ خودمختار ہو سکیں۔ نفسیاتی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے تلخ تجربات سے باہر نکل کر دوبارہ زندگی کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
وزیراعلیٰ مریم نواز  کا خواتین کے لیے پختہ عزم ان کے ہر اقدام میں نظر آتا ہے۔ ان کی قیادت اورحنا پرویز بٹ کی محنت نے پنجاب کو ایک ایسا صوبہ بنایا ہے جہاں خواتین کا تحفظ اور ان کی عزت سب سے مقدم ہے۔ حکومت کا اگلا ہدف ویمن پروٹیکشن سینٹرز کا نیٹ ورک تمام اضلاع تک پھیلانا، محکمانہ ہم آہنگی کو مزید بہتر بنانا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ ہر متاثرہ خاتون کو فوری طور پر محفوظ پناہ ملے۔
یہ سفر، جو وزیراعلیٰ مریم نواز  اور حنا پرویز بٹ کی قیادت میں شروع ہوا ہے، بے شمار خواتین کے لیے امید کی کرن ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب قیادت کا وژن اور عزم مل جائیں تو تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔ ان کی مشترکہ کوششوں نے پنجاب کو ایک ایسا صوبہ بنایا ہے جہاں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اور انہیں خوف اور تشدد سے آزاد زندگی گزارنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں