جنگ بندی۔ ہر محاذ پر

  جنگ بندی۔ ہر محاذ پر
  جنگ بندی۔ ہر محاذ پر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہو چکی،کس نے کیا کھویا اور کیا پایا،اِس پر بحث جاری ہے۔فریقین اپنے اپنے حلقوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل میں بھی رائے عامہ منقسم ہے، ایسے انتہاء پسند موجود ہیں جو جنگ بندی کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔ غزہ کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا، نہ ہی حماس سے ہتھیار ڈلوائے جا سکے ہیں۔نیتن یاہو تنقید کا نشانہ ہیں لیکن اُن کے حامی بھی اپنا وجود رکھتے ہیں جو اپنے حریفوں کو پہنچائے جانے والے نقصانات کی تفصیل بیان کر رہے ہیں۔حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی ہلاکتوں کا ذکرکر کے کلیجہ ٹھنڈا کر رہے ہیں،شام اور ایران کے درمیان تعلق ٹوٹنے کو اپنی بڑی کامیابی گردان رہے ہیں۔حماس کی گرفت غزہ پر جوں کی توں ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہو سکتی ہے۔ ہزاروں لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں جن کی گنتی نہیں کی جا سکی۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ کروڑ ٹن ملبے کے ڈھیر اٹھانے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ غز کی تعمیر نو کے لیے 50 ارب ڈالر سے زائد درکار ہوں گے اور اِس میں کئی سال لگیں گے   ؎

بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے

حماس پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ سات اکتوبر2023ء کو اُس نے اسرائیل پر جو حملہ کیا تھا اُس میں 1200افراد مار ڈالے گئے تھے جبکہ250 کو یرغمالی بنایا گیا تھا۔حماس کو پہنچنے والے نقصانات کی تفصیل بیان کر کے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں لیکن حماس کے متعلقین و متوسلین اُن پر دھیان دینے کے لیے تیار نہیں۔ اُن کی دنیا اپنی ہے، وہ 15ماہ کی مزاحمت کو بڑی کامیابی سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں اسرائیل کا غیر انسانی چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔ جو ظلم اُس نے ڈھایا،جس بربریت کا مظاہرہ کیا اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا، سکولوں اور ہسپتالوں کو تاراج کیا، اِس نے اُس کے امیج کو تار تار کر دیا۔یورپ اور امریکہ میں اِس سے نفرت اور بیزاری کی شدید لہر پیدا ہوئی اور سب سے بڑھ کریہ کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود حماس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔غزہ کے لوگ اُس سے جڑے ہوئے ہیں اور آج بھی اُسے نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔ اُس کی جگہ کوئی دوسری قوت نہیں لے سکی، غزہ کے مستقبل سے اسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

اہل ِ دانش جو بھی کہیں، دور نزدیک کی جو بھی کوڑیاں لائیں،حماس نے سخت جانی کا ثبوت بہرحال دیا ہے، اور اِس کا اعتراف اُس کے دشمن بھی کر رہے ہیں،قیدیوں کی واپسی کا جو عمل شروع ہوا ہے۔اِس نے اُس کی اخلاقی برتری بھی ثابت کی ہے۔ فریقین کی قید سے رہا ہونے والوں کی تصویریں سامنے آئی ہیں،انہوں نے اِس کی شہادت دی ہے۔الخدمت فاؤنڈیشن کے سابق چیئرمین برادرم عبدالشکور نے اِس طرف جو توجہ دلائی ہے وہ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:”16جنوری کو دو دشمن گروپوں حماس اور اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی کا تبادلہ کیا۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں فریقین کی قید سے رہائی پانے والوں کی تصویریں شائع ہوئیں۔ حماس نے468 دِنوں کی قید تنہائی کے بعد تین اسرائیلی خواتین کو رہا کیا جبکہ اسرائیل نے کئی سالوں کی قید کے بعد کچھ فلسطینی قیدیوں کو ہلال احمر کے حوالے کیا۔حماس کی قید سے رہائی پانے والی تین خواتین کے ہشاش بشاش چہرے بتا رہے ہیں کہ اُن کے میزبان کس قدر اچھے اخلاق کے لوگ تھے اور انہیں بدترین حالات میں بھی قیدیوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کا کتنا خیال تھا۔ حماس والوں نے شدید بمباری اور تکلیف دہ صورت حال میں بھی دشمن قیدیوں کی کتنی باوقار میزبانی کی۔ دوسری طرف دیکھئے تو تین فلسطینی مرد قیدی نظر آ رہے ہیں،اُن کے چہرے،اُن کے بازو اور اُن کی ساری بدن بولی اُن پرگذرنے والے واقعات کا اور اُس کربناک سلوک کا اظہار کر رہی ہے جس سے اُنہیں گذرنا پڑا۔ رسول اللہ کی تعلیمات پر ایمان رکھنے والوں کے اخلاق اور صیہونی ریاست کے وحشی پیروکاروں کے رویوں کو سمجھنے کے لیے بھلا اب بھی کئی مضمون، کسی تقریر کی کوئی ضرورت باقی ہے“؟

جناب عبدالشکور کے اِس سوال کا جواب اُن سب لوگوں کے ذمے ہے جو مہذب ہونے کا دعویٰ رکھتے اور انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں۔ حماس نے یقینا اپنی اخلاقی برتری ثابت کی ہے اور عالم ِ اسلام کا سر بلند کیا ہے لیکن مستقبل جو امتحان لے کر آ رہا ہے اُس کی طرف بھی توجہ کی جانی چاہیے۔ حماس کو او آئی سی کی قیادت سے جُڑ کر پائیدار اَمن کی تلاش کے لیے جان لڑانا ہو گی۔ جس دو ریاستی حل سے دنیا اتفاق کر رہی ہے،اُس کی طرف بڑھنا ہو گا اور یہ ثابت کرنا ہو گا کہ رسول اللہؐ کے پیروکار جہاں میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دے سکتے ہیں،وہاں پُرامن بقائے باہمی پر بھی عمل پیرا ہوکر دِکھا سکتے ہیں۔ اسرائیل کو صفحہئ ہستی سے مٹانے کا خواب دیکھنا بھی کارِ دانش نہیں اور فلسطینیوں کو تہہ تیغ کرنے کے منصوبے بھی بیمار ذہنوں کی پیداوار ہیں۔ اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق سمٹنا ہو گا، فلسطینیوں کو اُن کا آزاد وطن دیے بغیر کسی کو چین نصیب نہیں ہو گا۔ امریکہ کے ”محیر العقول“ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے توقع لگائی جا سکتی ہے کہ جس طرح انہوں نے جنگ بندی کو ممکن بنایا ہے،اُسی طرح وہ اِسے مستقل بنانے اور مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنے میں کردار ادا کریں کہ امریکہ کی بیساکھی میسر نہ ہو تو اسرائیل ایک دن بھی کھڑا نہیں رہ سکتا۔ صدر ٹرمپ سے بدترین اور بہترین  دونوں طرح کی توقعات لگائی جا سکتی ہیں۔سعودی عرب کے وسائل کو وہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ باور کرایا جانا چاہیے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اُن کی آرزو پوری نہیں ہو سکے گی۔سعودی عرب کو قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے معاملات کو اپنی گرفت میں لینا چاہیے۔پاکستان بھی اُن کے شانہ بشانہ ہو گا۔غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے جہاں سعودی عرب وسائل فراہم کر سکتا ہے، وہاں پاکستان کی افرادی قوت بھی موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔اِس حوالے سے فلسطینی بھائی پاکستان سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو بھی آگے بڑھ کر اِس عمل کا حصہ بننا چاہیے، فلسطینیوں کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کا یہ تاریخی موقع شاید پھر کبھی ہاتھ نہ آئے۔

اب آئیے پاکستان کی طرف، حماس اور اسرائیل کے درمیان اگر جنگ بندی ممکن بنائی جا سکتی ہے تو پاکستان کے اندر متحارب سیاسی عناصر ایک دوسرے کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑ سکتے،ایک دوسرے کے گلے دبوچنے کا قصد ترک کیوں نہیں کر سکتے؟ تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے درمیان بات چیت میں جو تعطل پیدا ہوا ہے اُسے دور کرنا دونوں کی ذمہ داری ہے۔عمران خان نے مذاکرات سے دستبرداری کا جو اعلان کیا ہے وہ اُس پر نظرثانی کریں اور حکومت  اُن کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کرنے کا یقین دلائے۔ پاکستان سب کا ہے اور سب کو اسے اپنا سمجھنا چاہیے۔ حماس اور اسرائیل جنگی قیدی رہا کر سکتے ہیں، تو پاکستان میں سیاسی قیدی کیوں رہا نہیں ہو سکتے؟شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چودھری، گورنر عمر چیمہ اور اُن جیسے متعدد سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات کی واپسی یا ضمانت پر رہائی کیوں ممکن نہیں بنائی جا سکتی؟ آنکھیں کیوں نہیں کھولی جا سکتیں؟یہ کیوں نہیں دیکھا جا سکتا کہ جنگ بندی ہر محاذ پر ضروری ہے! اَمن سب کے لیے،اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی۔

(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور  روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

مزید :

رائے -کالم -