طب یونانی کے لئے الگ قانون سازی کی ضرورت

طب یونانی کے لئے الگ قانون سازی کی ضرورت
طب یونانی کے لئے الگ قانون سازی کی ضرورت
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقوام متحدہ کے تحت عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے طب یونانی کو ایک متبادل طریقہ علاج کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔بھارت کی 65فیصد آبادی کو صرف رواتتی طریقہ علاج کی سہولتیں حاصل ہیں اور وہاں یونانی طریقہ علاج کو1940ءسے باقاعدہ ایک فلسفہ علاج کے طور پر تسلیم کیا گیا، آج بھارت دنیا بھر میں یونانی ادویات برآمد کرنے کے حوالے سے سب سے آگے ہے۔ بنگلہ دیش کی 66فیصد آبادی طب یونانی و ہومیو پیتھی سے استفادہ کر رہی ہے،بنگلہ دیش میں طب یونانی کو باقاعدہ ریگولیٹ کیا جا چکا ہے،ان کی ایلوپیتھک طرز کی رجسٹریشن نہیں کی گئی اِسی طرح چائنہ میں روائتی طریقہ علاج ملک کی تقریباً 40فیصد صحت کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اگر ہم مغربی ممالک پر بھی نظر ڈالیں تو آسٹریلیا ،کینیڈا،امریکہ اور فرانس سمیت دیگر کئی ممالک میں نباتاتی طریقہ علاج کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک کی 70فیصد آبادی، یعنی تقریباً 14کروڑ عوام پرائمری ہیلتھ کیئر کی ضروریات پورا کرنے کے لئے یونانی اور ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے استفادہ کرتے ہیں، جس کے لئے ایک ہزار کے قریب یونانی اور ہربل ہومیو دوا ساز ادارے ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ادویات تیار کر رہے ہیں، حکیم اور ہومیو پیتھ پر مشتمل ڈیڑھ لاکھ معالجین طبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اِسی طرح دس لاکھ کے قریب خام مال پیکنگ سے متعلقہ ورکرز، ٹریڈرز۔ اس کے علاوہ جڑی بوٹیاں کاشت کرنے والے ماہرین اور کسان کی بھی بڑی تعداد میں اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ اِسی طرح 10لاکھ چھوٹے دکاندار، ریٹیلرز طب یونانی و ہومیو ادویات کی فروخت سے منسلک ہیں اور اتنی ہی تعدادڈسٹری بیوشن سیلز ٹیم یونانی /ہومیو دوا سازی کی صنعت سے وابستہ ہے۔

تقریباً دو سال قبل سابق وزیر صحت ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اپنی وزارت کے آخری ایام میں ڈرگ ریگولیٹری ایکٹ 2012ءپارلیمنٹ سے انتہائی عجلت میں منظور کرایا اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے دستخط فرما کر اس ایکٹ کی منظوری دی، بلکہ نافذ العمل ہوگیا۔ بعد ازاں جب تفصیلات سامنے آئیں تو ملک بھر کے اطباءاور ہومیو ڈاکٹر حضرات اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے ،اس ایکٹ کی خوبیوں اور خامیوں پر طویل تبصرے اور مضامین سامنے آئے، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ طب گزشتہ 28سال سے اپنی دواسازی کے لئے الگ قانون کے لئے کوشاں تھی اور اطباءخود چاہتے ہیں کہ ان کے دواسازی کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے قانون اور ضابطے موجود ہوں۔ ان کی رائے میں دنیا بھر میں ایلوپیتھک سسٹم آف میڈیسن اور آلٹرنیٹو میڈیسن کے لئے الگ الگ قوانین ہیں، کیونکہ ایلوپیتھی اور طب یونانی کے فلسفے میں بنیادی اختلاف رائے ہے، لہٰذا پاکستان میں بھی طب کی دوا سازی کے لئے الگ قوانین بننے چاہئیں، جیسا کہ طب اور ہومیو کی ترقی کے لئے طب و ہومیو ایکٹ 1965ءبنا، جس کے تحت ان کی الگ الگ کونسلیں تشکیل دی گئیں، اس طرح دواسازی کے حوالے سے بھی ایلوپیتھی اور طب کی دوا سازی کے لئے الگ الگ قانون ہونے چاہئیں اور قانون سازی اطباءاور دواساز اداروں کے علاوہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہونی چاہئے، جیسا کہ پوری مہذب دنیا میں موجود ہیں۔
اطباءکی فلاح اور بہتری کے لئے جو قوانین بنائے جا رہے ہیں ،قانون سازی کے مرحلے میں صاحب الرائے اور چند باعمل اور ذی علم اطباءکو رکھاجائے جو کہ قانون سازی طب کے فلسفے کے عین مطابق ہونی چاہئے،مگر پاکستان میں قائم کردہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) نے دوا سازوں اور معالجین (سٹیک ہولڈرز) کی مشاورت کے بغیر 2014ء(1) SRO.412 کے ذریعے ڈرگ ایکٹ 1976ءکے تحت اصول و ضوابط کو یونانی دوا سازوں پر بھی لاگو کر دیا ہے۔ طب یونانی ایک الگ اور مکمل طریقہ علاج ہے، اس کے ساتھ SRO 412کے تحت قانون سازی نا قابل عمل ہے۔ ہربل ایک عام اصطلاح ہے،جبکہ یونانی ایک الگ طریقہ علاج ہے ، اتھارٹی کو چاہئے کہ طب کے لئے الگ رولز اینڈ ریگو لیشن بنائے جائیں اور اس کے لئے دوسرے ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش میں جس طرح ریگولیشنز بنائے گئے ہیں، ان کو مدِنظر رکھا جائے، کیونکہ یہ ہمارے مجموعی ماحول مزاج کے قریب تر ہے۔ اس سے نہ صرف اپنی شناخت اور ورثہ کی حفاظت ہو گی، بلکہ دور حاضر کی بیماریاں جیسے ہیپاٹائٹس، امراض قلب اور ذیا بیطس جو کہ وبائی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں، ان کے علاج تلاش کرنے کے لئے تحقیق کے دروازے بھی کھل جائیں گے۔
موجودہ قوانین میں ذمہ دار فرد،فارماسسٹ ہے، جبکہ دنیا میں کہیں بھی یونانی ادویات کے لئے فارما سسٹ کا تقرر نہیں کیا جاتا ، بی فارماسسٹ طب یونانی کو جانتا تک نہیں ہے اور نہ ہی طب یونانی کی دوا سازی سمجھتا ہے ،لہٰذا انسپکٹر متعلقہ طب کے شعبے سے ہی ہونے چاہئیں۔یہ انسپکٹر یونیورسٹی کے گریجوایٹ اطباءہونے چاہئیں۔ اب تو ایم فل اور پی ایچ ڈی اطباءبھی آچکے ہیں۔ توجہ اس طرف ہونی چاہئے کہ طبی معالجین اور بی ای ایم ایس ڈگری ہولڈرز کی خدمات سے استفادہ کیا جائے ۔یہ مطالبہ جائز اور درست ہے۔تعلیم کے مسائل کے بارے میں ماہرین تعلیم ہی صحیح رہنمائی دے سکتے ہیں، اسی طرح طب و اطباءکے مسائل کے بارے میں صرف اسی شعبے سے منسلک متعلقہ حضرات کی رائے کو فوقیت دینا بہت ضروری ہے۔ ایک لاکھ سے زائد ہومیو ڈاکٹر اور اطباءحضرات اس پیشے سے منسلک ہیں ،جن میں خوف وہراس اور شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد خاندان اور 70فیصد آبادی کے غریب مریض،جو کہ ان غریب پرور اطباءاور ہومیو ڈاکٹروں سے استفادہ کرتے ہیں، وہ پریشان ہیں اور سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کہیں ایک سازش کے تحت پاکستان سے طب اور ہومیو کے فن کا خاتمہ تو نہیں کیا جا رہا ،جبکہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہربل میڈیسن اور ہومیو پیتھی علاج ایلوپیتھی کے مد مقابل مقبولیت اختیار کر چکا ہے ۔ ٭

مزید :

کالم -