دبستانِ مجید نظامی ا ور دامنِ مصطفیٰؐ
مجید نظامی ایک تاریخ ساز عہد ساز اور قابل رشک زندگی گزار کر گزشتہ سال 26 جولائی (27 رمضان المبارک) کو اپنے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے۔ صحافت اور پاکستان کی سیاسی و سماجی زندگی میں ان کی قابل ذکر خدمات اور کارنامے اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارہ ایک تحریک اور اپنی ذات میں ایک دبستان قرر دیا جا سکتا ہے۔ دبستانِ مجید نظامی میں جو مضامین پڑھائے جاتے تھے ان میں سرفہرست تحریک پاکستان اور نظریۂ پاکستان تھے۔ پاکستان سے عشق بھی ایک ایسا مضمون ہے جس کے بغیر دبستان مجید نظامی کا تعارف مکمل نہیں ہو سکتا۔ ہر قیمت پر پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ، پاکستان کو عشق کی بازی قرار دے کر اس پر سب کچھ قربان کر دینے کے لئے دبستان مجید نظامی میں بہت زور دیا جاتا تھا۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کو مجید نظامی ایسے ہی سمجھتے تھے جیسے شہ رگ کے بغیر انسانی جسم۔ کشمیر کی آزادی کے مسئلہ کے ساتھ مجید نظامی کا کتنا گہرا اور جذباتی تعلق تھا اس کا اندازہ آپ مجید نظامی کے اس جواب سے لگا سکتے ہیں جو انہوں نے انڈیا کے دورے کی دعوت دینے پر جنرل ضیاء الحق کو دیا تھا۔ مجید نظامی نے کہا تھا کہ جنرل صاحب اگر آپ ٹینک میں بیٹھ کر انڈیا جانے کے لئے تیار ہیں تو مَیں آپ کے ساتھ جا سکتا ہوں۔ ورنہ ایک ایسا ملک جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور جو ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مسلمانوں کا قاتل ہے مَیں اس ملک کے دورے پر جانا قومی بے حمیتی سمجھتا ہوں۔
کشمیر کے حریت راہنماؤں کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مجید نظامی کی وفات سے کشمیر کی آزادی کی تحریک اپنی حمایت میں بلند ہونے والی سب سے مؤثر اور توانا آواز سے محروم ہو گئی ہے۔ پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانا بھی دبستانِ مجید نظامی کا مشن تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں سب سے زیادہ کردار مجید نظامی کا ہے۔ اور اس کا اعتراف ایٹمی دھماکہ کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والے وزیر اعظم نوازشریف نے بھی کیا ہے۔ نوازشریف کا کہنا ہے کہ مجید نظامی کی شخصیت ہمارے لئے راہنمائی کا وہ سرچشمہ تھی جس سے ہمیں ایٹمی دھماکے کرنے کا حوصلہ حاصل ہوا۔
مَیں نے اوپر کی سطور میں گزارش کی تھی کہ دبستانِ مجید نظامی میں پڑھائے جانے والے لازمی اور کلیدی مضامین تحریک پاکستان اور نظریۂ پاکستان تھے۔ مجید نظامی کا یہ دو ٹوک مؤقف تھا کہ تحریک پاکستان کی اساس اسلام اور دو قومی نظریئے پر رکھی گئی تھی۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور یہی حقیقی نظریۂ پاکستان ہے۔ جو لوگ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں وہ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی سازش کرتے ہیں۔ مجید نظامی نے مئی 1969ء میں نوائے وقت کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ہفت روزہ چٹان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے ہمیں متشدد اور جارح بھی ہونا پڑے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی طرح اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے بھی جنگ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شریعتِ اسلامیہ اور تاریخ اسلام ہماری عظیم میراث ہے۔ اس سے راہنمائی حاصل کر کے ہی ہم پاکستان کو قائم رکھنے اور مستحکم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
مجید نظامی اپنے اخبار کو ’’ایک نظریہ اور مشن‘‘ نظریۂ پاکستان کے حوالے سے ہی قرار دیتے تھے۔ مجید نظامی کو جب تھوڑی سی مدت کے لئے نوائے وقت سے علیحدگی کے بعد روزنامہ ندائے ملت کے نام سے اپنے نئے اخبار کا آغاز کرنا پڑا تو انہوں نے واضح کیا کہ ندائے ملت کا بنیادی مطمح نظر نظریۂ پاکستان کا تحفظ ہوگا۔ مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ ہماری ملکی سیاست قائد اعظمؒ کے افکار و نظریات کے تابع ہونی چاہئے اور ہمیں اپنے ملی مسائل کے حل کے لئے اقبالؒ کو اپنا مرشد سمجھنا چاہئے۔ مجید نظامی کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ قائد اعظمؒ اور اقبالؒ کے تصور اور نظریات کے بغیر پاکستان، پاکستان ہی نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ کہنا سو فیصد درست ہوگا کہ دبستان مجید نظامی کا نصاب قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا تھا۔ قائد اعظم کی ذات اپنے بے داغ سیاسی کردار کے حوالے سے مجید نظامی کی عقیدتوں اور ارادتوں کا مرکز تھی اور علامہ اقبالؒ کے کلام نے مجید نظامی کو سب سے زیادہ متاثر کیا تھا۔ مجید نظامی کہا کرتے تھے کہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی تعلیمات سے بہتر نظریۂ پاکستان کی وضاحت کا اور کوئی ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا۔ نظامی صاحب اکثر اپنی تقاریر میں قائد اعظمؒ کی پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے والی تقریر کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ وہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سکولوں سے لے کر یونیورسٹی تک ہر سطح کے طالبعلموں کو قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانا تحریک پاکستان کو سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے موجودہ چیئرمین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق صدر محمد رفیق تارڑ نے جناب مجید نظامی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجید نظامی مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے اور ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا عاشقِ رسولؐ ہونا تھا۔ مجید نظامی کی خواہش کی تکمیل کے لئے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکتِ پاکستان میں دینی افکار و اقدار کی زیادہ سے زیادہ تبلیغ کی جائے تاکہ پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جا سکے۔عشقِ رسولؐ کے حوالے سے مجھے یاد آیا ہے کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام جب کل پاکستان کانفرنس کا انعقاد ہونا تھا تو مجید نظامی اور نظریۂ پاکستان کانفرنس کے تمام شرکاء اکٹھے مِل کر ایک قومی عہد پڑھا کرتے تھے۔ اس میں ناموسِ رسالتؐ پر اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہ کرنے کا عہد بھی کیا جاتا تھا اور عہد نامے میں مولانا ظفر علی خاں کا یہ شعر بھی شامل تھا۔
نہ جب تک کٹ مروں مَیں خواجۂ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
مجید نظامی کے بہت بڑے عاشقِ رسولؐ ہونے کا ایک مضبوط ترین حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ ناموسِ رسالتؐ کے دشمن قادیانیوں کے سخت خلاف تھے۔ مجید نظامی اپنے مرشد علامہ اقبالؒ کے قادیانیت کے خلاف علمی اور قلمی جہاد کا اکثر حوالہ دیا کرتے تھے اور اقبالؒ کی پیروی میں قادیانیوں کو اسلام کا غدار قرار دیتے تھے۔ مَیں جب بھی ختم نبوت کے موضوع پر اور ردِ قادیانیت کے عنوان سے نوائے وقت کے لئے اپنا کوئی کالم بھیجتا تو اسے من و عن شائع کر دیتے۔ جب مَیں نے نوائے وقت میں شائع ہونے والے قادیانیت کے خلاف کالم ’’چراغِ مصطفویؐ اور شرار قادیانیت ‘‘کے نام سے ایک کتاب کی صورت میں ترتیب دے کر شائع کئے تو مجید نظامی بہت خوش ہوئے۔۔۔پیر سید محمد کبیر علی شاہ نے بھی اپنی ایک تقریر میں مجید نظامی کو بہت بڑا عاشقِ رسولؐ اور دو قومی نظریئے کا محافظ و پاسبان قرار دیا تھا۔ عشقِ رسولؐ کا نظریۂ پاکستان سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔ اس راز کو سمجھنے کے لئے کلام اقبالؒ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے وطنیت کے تصور کو اسلام کی روشنی میں کچھ یوں بیان کیا تھا کہ:
بازو ترا توحید کی قوت سے قومی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
اقبالؒ نے ہی یہ فرمایا تھا کہ:
اپنی ملت پرقیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی
جب مولانا حسین احمد مدنی نے ملت کی بنیاد وطن کو قرار دیا تھا اور ہندوؤں کی جماعت کانگرس کے متحدہ ہندوستان کے تصور کی حمایت کی تھی تو علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ یہ مقامِ محمدؐ سے کِس قدر بے خبری ہے کہ ملت کا تعلق وطن سے قرار دیا جائے۔ ہمیں خود کو حضور نبی کریمؐ سے وابستہ کر لینا چاہئے کیوں کہ آپؐ مکمل دین ہیں۔ اگر ہم نبی پاکؐ سے وابستگی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو پھر ہمارے تمام عمل ابولہب سے ہیں جو اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ دبستانِ مجید نظامی ہمیں جس منزل مراد پر پہنچانا چاہتا تھا وہ دامنِ مصطفیٰؐ اور تعلیمات مصطفیؐ سے والہانہ وابستگی ہے اور بولہبی کی ہر شکل (کفرو ضلالت) کو مٹانے کا نام ہی دینِ مصطفویؐ ہے:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں