کپتان کی مقبولیت خطرے میں پڑ گئی

کپتان کی مقبولیت خطرے میں پڑ گئی
 کپتان کی مقبولیت خطرے میں پڑ گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان جو جذباتی سیاست کے حوالے سے معروف ہیں ایک مرتبہ پھر سیاسی ہلچل مچانے کے موڈمیں ہیں اور ماہ اگست کے اوائل میں پاناما لیکس کے انکشافات کو بنیاد بنا کر خکومت کے خلاف تحریک چلانے کا حتمی فیصلہ کر چکے ہیں ۔ اگرچہ تحریک انصاف کے بیشتر سینیر ارکان اس تحریک کے حق میں نہیں ہیں اور وہ دبے لفظوں اس عمل کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن عمر ان خان نے اپنے ان ساتھیوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر وہ حکومت مخالف تحریک کے حق میں نہیں ہیں تو وہ اپنا بوریا بستر گول کر کے کسی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں عمران خان کے اس سخت پیغام کی روشنی میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ حکومت مخالف تحریک ہر صورت چلانا چاہتے ہیں چاہے اس کے بدلے ان کی رہی سہی عوامی مقبولیت کا دھڑن تختہ ہی کیوں نہ ہو جائے ۔عمران خان اگر اپنی بصیرت کی کھڑیاں وا کر کے دو تین پہلووں پر غور کر لیں تو شاید ان کو اپنی اس تحریک کا انجام حقائق کے آئینہ میں ابھی سے نظر آ جائے اور وہ دھرنا دینے جیسی فاش غلطی سے اجتناب برت لیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی دھرنے کی کال پر پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ پارٹی میں موجود کچھ بصیرت افروز ہستیوں کے خیال میں یہ مشق بے کار ہے کیونکہ ن لیگ کی مقبولیت ابھی تک عوام میں جوں کی توں موجود ہے اور عوامی بے چینی کی لہر اس نہج کو نہیں پہنچی کہ عوام لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑ جائے اور اس سے چھٹکارے کے لیے تگ و دو کرنا شروع کر دے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں آزاد کشمیر میں ہونے والے شفاف الیکشن میں ن لیگ دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے جس سے ن لیگ نفسیاتی برتری کا شکار ہے اور پر اعتماد ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں ۔ اس اعتماد کے نتیجہ میں عمران خان کی تحریک کے اثرات اس قدر بھی مرتب نہ ہو پائیں گے جو کچھ عرصہ قبل دھرنا ون کے ذریعہ ہو چکے ۔تیسرا پہلو جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس مرتبہ بھی تحریک انصاف سے فاصلہ پر ہی رہے گی۔ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر عمران کا یہ شو بھی فلاپ ہو گا اور ماضی کی طرح وہ پھر بہانہ کی تلاش میں ہوں گے کہ اس مشق کو کیسے سمیٹا جائے لیکن تب تک پارٹی سمیت عمران خان کی عوامی مقبولیت زمین بوس ہو چکی ہو گی اور یہ دھرنا سیاست خان صاحب کے لیے پچھتاوا بن کر رہ جائے گی ۔ عمران خان کو اپنے فیصلہ کو حتمی شکل دینے سے پہلے یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان طرح طرح کے بحرانوں کی زد میں ہے اس قسم کے اجتماع،دھرنے اور احتجاج ملکی ترقی کے پہیہ کو مزید زنگ آلود کر دیں گے اور یہ عمل کسی صورت بھی حوصلہ افزائی کے قابل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں شنید ہے کہ آزاد جموں و کشمیر الیکشن میں ناکامی کے بعد سے تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ چکی ہے جبکہ تحریک انصاف کے کچھ سینئر رہنماوں کا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سوچ کے بر عکس یہ خیال ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے حقیقی چہرے ہی انتخابی میدان میں اتارنے چاہییں کیونکہ پرانے اور روائتی سیاسی امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارنے سے پارٹی مقبولیت پر شدید ضرب لگی ہے۔میری دانست میں تحریک انصاف کو جہاں عمران خان کے جلد باز فیصلوں نے نقصان پہنچایا ہے وہیں تحریک انصاف میں پرانے اور نئے انصافی کارکنوں کی باہمی کش مکش نے بھی پارٹی مقبولیت پر کاری ضرب لگائی ہے ۔


دوسری جانب میاں نواز شریف نے مظفر آباد میں اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور خوب طنزکے نشتر برسائے ۔ میاں صاحب کی تقریر میں اعتماد کی جھلک واضح دکھائی دے رہی تھی اور عوامی تائید کا مکمل یقین ان کی باڈی لینگوئج سے نمایاں دیکھا جا سکتا تھا ۔لہٰذا عمران خان جو پاکستان کے ہیرو ہیں اور پاکستانی سیاست کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کو اتنی آسانی سے اپنی اٹھارہ بیس سالہ محنت پر پانی نہیں پھیرنا چاہیے اور خیال افروز شخصیات کے مشوروں کی روشنی میں اپنے دھرنے اور تحریک چلانے کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ان کی سیاست کا بھرم بھی برقرار رہے اور پاکستان کے مفادات پر بھی کوئی آنچ نہ آئے ۔

مزید :

کالم -