بک شیلف: ’’امام الکلام‘‘ (1)
نام کتاب: امام الکلام
(مجموعہ ء رباعیاتِ اردو)
شاعر: شہنشاہِ الفاظ و سلطان
المعانی و تاجدارِ سخن علامہ
چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ
پبلشرز: پاکستان لٹریچر اکیڈمی
۔412 جہاں زیب
بلاک علامہ اقبال ٹاؤن،
لاہور
ایڈیشن: اول (مئی 2016ء)
صفحات 192
قیمت: فی نسخہ ایک ہزار روپیہ نقد
زیر تبصرہ کتاب کے عنوان کا لغوی مطلب ہے: ’’شاعری کا امام‘‘۔۔۔ اور اس سے مراد خود صاحب کتاب ہیں۔ مجھے لگتا ہے یہ پانچواں لقب (یعنی امام الکلام)شاعر نے خود اپنے لئے منتخب کرکے خان بہادر ابوالاثر حفیظ جالندھری کا تتبع کیاہے۔ لیکن حفیظ صاحب کو تو باقاعدہ یہ خطابات حکومت اور کسی ادبی مجلس نے دیئے تھے، چودھری صاحب نے شائد ان کی دیکھا دیکھی خود ہی خود کو امام الکلام کا لقب عطا کر دیا ہے۔ البتہ باقی چار القابات (یعنی شہنشاہ الفاظ، سلطان المعانی، تاجدار سخن اور علامہ) کے بارے میں ’’تاریخ خاموش‘‘ ہے کہ آیا یہ عطیات حکومت کی طرف سے دیئے گئے ہیں یا ایجادِ بندہ ہیں۔ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ شہنشاہ، سلطان اور تاجدار کے القابات اس لئے اختیار کئے گئے کہ چودھری صاحب نے جب خاندان مغلیہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا تو آخری حکمران یعنی بہادر شاہ ظفر پر پہنچ کر رک گئے۔تاریخ کہتی ہے کہ ظفر کو رنگون کے بندی خانے سے کئی برس کے بعد جب قید حیات سے رہائی ملی تو اس کے بعد مغلیہ القابات کا سلسلہ بند ہو گیا۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر اگر شہنشاہ برصغیر تھے تو چودھری صاحب شہنشاہ الفاظ بن گئے، اگر وہ سلطان الہند تھے تو بعداازں چودھری صاحب سلطان المعانی ہو گئے اور اگر وہ استاد ذوق کے شاگرد اور صاحب دیوان شاعر تھے تو چودھری صاحب نے اپنے لئے تاجدار سخن والے لقب کا ازسر نو احیا کر لیا اور جہاں تک ’’علامہ‘‘ کا تعلق ہے تو وہ چونکہ علامہ اقبال ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں، چونکہ علامہ شبلی نعمانی کی طرح فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر ہیں اور چونکہ علامہ مشرقی کی طرح درویش صفت اور جہاں گرد ہیں اس لئے ’’علامہ‘‘ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
میں نے از راہِ شرارت ان سے ایک بار عرض کیا کہ ’’خودستائی‘‘ اگر حد سے بڑھ جائے تو غرور اور تکبر کے ساتھ جا ملتی ہے اس لئے ذرا احتیاط سے کام لیا کیجئے اور اپنے نامِ نامی کے ساتھ اس قسم کی ’’غلط بخشیوں‘‘ سے پرہیز کیا کیجئے تو فرمایا کہ خدا نے تو خود کہا ہے کہ میری تعریف کی جائے۔ میں نے پوچھا نعوذ باللہ کیا آپ بھی خدا ہیں کہ خودستائی سے اپنے آپ کو لاد رکھا ہے؟۔۔۔ تو چپ ہو گئے۔ سوچتا ہوں جس شخص نے قرآن کریم کا منظوم ترجمہ کیا ہو وہ اس قسم کی بات کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن پھر سوچا کہ خدا نے تو خود قرآن حکیم میں انسان کو ظلوماً جہولا فرمایا ہے۔۔۔ مجھے یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر بھی یاد آنے لگا:
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
اور ساتھ ہی امام الکلام کی یہ رباعی بھی یاد آئی جو چودھری صاحب نے بطور حرفِ آغاز کتاب میں درج فرمائی ہے:
صد شکر کہ ہوں وقفِ مساعی میں بھی
صد شکر کہ کہتا ہوں رباعی میں بھی
صد شکر کہ ہوں شعر و ادب کا خالق
صد شکرکہ اس فن کا ہوں داعی میں بھی
رباعی کے تیسرے مصرعے میں چودھری صاحب نے اپنے آپ کو شعر و ادب کا خالق کہا ہے، طالب یا واقف نہیں کہا کہ ایسا کرنے سے حضرت کی خودی پر حرف آ سکتا تھا!۔۔۔ شائد اسی لئے اجتناب کیا ہوگا۔۔۔ واللہ اعلم
چند روز پہلے چودھری صاحب مجھے ملنے آئے۔ ان سے ملاقاتوں اور محبتوں کے پرانے رشتے ہیں۔ ان کی فارسی غزلیات کے مجموعے ’’دیوان حریفِ حافظ‘‘ پر راقم السطور نے اپنے کسی کالم میں تبصرہ کیا تھا شائد یہی وجہ ہو گی کہ انہوں نے اپنی اس تازہ تصنیف کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس پر بھی چند الفاظ لکھ دوں۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ میں تو بنیادی طور پر حدیثِ دفاع کا طالب علم ہوں۔ اگر آپ نے ملٹری ہسٹری یا دفاعی موضوعات پر کچھ لکھا ہے تو میں تبصرے یا تجزیئے کے لئے حاضر ہوں۔ لاکھ معذوری کا اظہار کیا کہ مجھے فنِ شعر سے ہر گز کوئی علاقہ نہیں۔ صرف شاعری کو اس لئے پسند کرتا ہوں کہ ایک تو یہ مترنم الفاظ کا ایک منظم مجموعہ ہوتی ہے اور دوسرے اس کو کسی بھی مشرقی یا مغربی ساز پر گایا بجایا جا سکتا ہے۔ مزید عرض کیا کہ یہ کتاب جو آپ مجھے برائے تبصرہ دے رہے ہیں وہ رباعیات کا مجموعہ ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ فارسی یا اردو میں رباعی کے جو اوزان اور بحور مقرر ہیں وہ ہر چند کہ منظم الفاظ و تراکیب میں مقید ہوتی ہیں لیکن مترنم نہیں کہی جا سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی رباعی کو کسی بھی ساز یا آواز میں گایا بجایا نہیں گیا اور یہ ’’امام الکلام‘‘ تو سراسر ’’فاعلاتن فاعلات‘‘ کا مجموعہ ہے۔ اس لئے میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ شعر کی اس صنف پر کوئی ایسا تبصرہ کروں جو آپ کے لئے وجہ تسلی یا باعثِ اطمینان ہو۔۔۔ میں اس قسم کی باتیں کرکے ان کو ٹالنے کی کوشش کرتا رہا لیکن وہ مصر رہے۔ اور فرمایا ’’میں تو آپ کو ایک عسکری مصنف یا مترجم نہیں سمجھتا، ایک ادیب تسلیم کرتا ہوں!‘‘۔۔۔ میں نے سنا تو دل میں اقبال کی بہت یاد آئی:
من اے میرِ عربؐ داد از تو خواہم
مرا یاراں غزلخوا نے شمر دند
(اے سرورِ کونین ﷺ میں آپؑ سے انصاف چاہتا ہوں کہ میرے دوست احباب مجھے غزل خواں شمار کرتے ہیں!)۔۔۔جب ان کا اصرار میرے انکار پر غالب آنے لگا تو میں نے بقول شاعر ہتھیار ڈال دیئے:
بیا کہ ماسِپرانداخیتم اگر جنگ است
اس سے پہلے کہ ’’امام الکلام‘‘ کی رباعیات پر کچھ نقد و نظر کیا جائے ایک عام قاری یہ جاننا چاہے گا کہ رباعی کیا چیز ہوتی ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے۔۔۔رباعی، عربی زبان کے لفظ ربع سے مشتق ہے اور اس کے آخرمیں جویائے معروف (ی) ہے وہ یائے نسبتی ہے۔یعنی ربع والی۔۔۔ اس کا اردو ترجمہ چار لائنوں یا چار مصرعوں والی نظم ہے۔ اس کا آغاز نویں صدی عیسوی میں آج کے افغانستان میں ہوا۔ اس وقت افغانستان، ایران میں شامل تھا۔ جب عربوں نے ایران (اور افغانستان) فتح کیا توظاہر ہے عربی زبان بھی ساتھ لائے۔ عربی واقعی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے زبانوں کی ماں تھی۔ لیکن اس سے پہلے ایران کی فارسی زبان نے بھی کیانی اور ساسانی شہنشاہوں کا دور دیکھا تھا اور آخری کسرٰیء ایران یزد جرد سوم کو عربوں نے شکست دے کر اس پورے خطے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان قابض قوتوں میں عربی بھی شامل تھی جو جاری فارسی زبان و ادب پر حکمران بن کر نازل ہوئی۔ ایرانیوں کو اپنی تہذیب و ثقافت پر بڑا ناز تھا۔ کیخسرو، کے طہاسپ، کیکاؤس، انوشیروان عادل، دارا اور رستم و سہراب کے قصے زبانِ زدِ خاص و عام تھے جو عربوں کے تسلط کے بعد گہنانے لگے۔
نویں صدی عیسوی میں جب بغداد کے عباسی خاندان کو زوال آنا شروع ہوا تو ایران کے بہت سے حصے نیم خودمختار ہو گئے۔ سب سے پہلا نیم خود مختارحکمران جس نے ایران کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا اس کا نام طاہر ذوالمنن تھا جس کی اپنی زبان عربی تھی اور وہ خلافتِ عباسیہ کا ایک جرنیل تھا جس نے مرکز سے بغاوت کرکے ایران کے ایک حصے پر قبضہ کیا اور خاندان طاہر یہ کی بنیاد رکھی۔ یہ خاندان صرف 54برس تک برسراقتدار رہا اور اس کو آخر میں ایک ایسے شخص نے شکست دی جس کا پیشہ آہن گری (Black-Smith)تھا۔ اس کا نام یعقوب بن لیث صفار تھا۔ عربی میں صفار ٹھٹھیرے (لوہار) کو کہتے ہیں چنانچہ یعقوب نے اپنے نام کے ساتھ صفار کا اضافہ کرکے مین سٹریم عربوں سے علیحدگی کا ایک اور ثبوت دے دیا۔ اس نے 866ء میں آخری طاہر یہ حکمران کو شکست دی اور صرف تین برس میں سیستان، کرمان، مِکران، کابل اور وادی ء سندھ تک آ پہنچا۔ پھر 876ء میں بغداد پر حملہ کیا لیکن عباسی خلیفہ معتمد کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ تاہم اس کے اثر و رسوخ سے مرعوب ہو کر خلیفہ نے یعقوب بن لیث کو فارس (افغانستان اور بلوچستان) کا نیم خودمختار حکمران تسلیم کر لیا۔۔۔اسی صفاری عہد میں رباعی ایجاد ہوئی۔
علامہ شبلی نعمانی شعرالعجم کی جلد اول کے صفحہ19پر لکھتے ہیں: ’’شاعری کے متعلق اس صفاری خاندان کا بڑا احسان یہ ہے کہ رباعی کی ایجاد اسی زمانہ میں ہوئی۔ یعقوب صفار کا ایک کمسن لڑکا ایک دن اخروٹوں سے کھیل رہا تھا۔ ایک اخروٹ لڑھکتے لڑھکتے ایک گڑھے میں جاگرا۔ لڑکے کی زبان سے بے ساختہ یہ مصرع نکلا:
غلطاں غلطاں ہمی رود تالبِ گو
(یعنی لڑھکتا لڑھکتا (اخروٹ) گچی کے منہ تک جا رہا ہے)
یعقوب بھی موجود تھا۔ اس کو بچے کی زبان سے یہ موزوں کلام بہت پسند آیا لیکن چونکہ اس وقت اس بحر میں اشعار نہیں کہے جاتے تھے اس لئے شعرا کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا بحر ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہزج‘‘ ہے اور پھر تین مصرعے اور لگا کر رباعی کر دیا اور دو بیتی نام رکھا۔ مدت تک یہی نام رہا۔ پھر دو بیتی کی بجائے رباعی کہنے لگے۔‘‘
رباعی وہ نظم ہے جس میں چار مصرعے مقررہ اوزان پر ہوں۔ پہلا، دوسرا اور چوتھامصرع ہم قافیہ ہو۔ تیسرے مصرعہ کے ہم قافیہ ہونے کی قید نہیں۔ بعض تذکروں میں رباعی کی ایجاد کا سہرا رودکی کے سرباندھا جاتا ہے جو فارسی زبان کا سب سے پہلا صاحبِ دیوان شاعر تھا۔ رود کی ہی نے رباعی کے 24اوزان ایجاد کئے جو عموماً ’’لَاحَولَ ولَاقوۃَ الّا باللہ‘‘کے وزن پر موزوں کئے جاتے ہیں۔
بعد میں اس صنفِ سخن (رباعی) نے بڑا عروج پایا۔ دقیق اور عمیق فلسفیانہ موضوعات کو صرف چار مصرعوں میں سمیٹا اور رباعیاتِ عمر خیام نے تو گویا اس صنف کو سکہ بند کر دیا۔ فارسی میں تمام بڑے بڑے شعرا نے رباعیات کہی ہیں۔ اس تفصیل کا کچھ تذکرہ چودھری صاحب نے بھی اپنے 11صفحات پر مشتمل اپنی کتاب کے دیباچے میں کیا ہے۔ لیکن ان کا یہ اصرار کہ رباعی کے اوزان صرف 24ہوتے ہیں، محل نظر ہے۔
اکبر الٰہ آبادی کی رباعیات میں ایک رباعی یہ بھی ملتی ہے جو رباعی کے مروجہ اور مقررہ اوزان میں نہیں:
غلط فہمی بہت ہے عالمِ الفاظ میں اکبر
بڑی مایوسیوں کے بعد اکثر کام چلتا ہے
یہ روشن ہے کہ پروانہ ہے اس کا عاشقِ صادق
مگر کہتی ہے خلقت، شمع سے پروانہ جلتا ہے۔
اسی طرح بالِ جبرئیل میں علامہ اقبال نے 40رباعیات درج کی ہیں جن میں کوئی ایک رباعی بھی مروجہ وزن / اوزان میں نہیں۔ مثلاً یہ دو رباعیات دیکھئے:
کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی
نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی
نگہ آلودۂ اندازِ افرنگ
طبیعت غزنوی، قسمت ایازی
اور
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
اقبال کے تمام کلام میں رباعی کے مروجہ اوزان و بحور میں شاذ ہی کوئی نظم (رباعی) ملتی ہے۔ البتہ بانگ درا کے ظریفانہ حصے کی یہ پہلی نظم شائد رباعی کہلا سکے:
مشرق میں اصولِ دین بن جاتے ہیں
مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں
رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلّے
واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں
(جاری ہے)