شمس الاطباء حکیم شمس الدین امرتسری
موت سے کسی کو انکار نہیں،وہ آئے گی اور ضرور آئے گی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بیان فرماتا ہے: ’’کل نفس ذائقہ الموت‘‘۔ مگر وہ کون سی موت ہے جسے مسلمان موت نہیں، انتقال کہتا ہے۔
یہ انتقال ایک عارضی قیام گاہ سے منتقل ہو کر اصل قیام گاہ کی طرف مراجعت کرنا ہے۔ گویا موت مومن کو منتقل کر سکتی ہے فنا نہیں کر سکتی۔ وہ منتقل ہو کر بھی دائمی قیام گاہ میں اسی طرح مست رہتا ہے جس طرح اپنے جسد خاکی کی قید و بند میں تھا اور قدم قدم پر یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ زندہ بھی ہے ،اپنے فرائض منصبی اور اپنی ذمہ داریاں جو سفرِ حیات نے اس کے کندھوں پر ڈالی تھیں ان کی تکمیل بھی کر گیا ہے۔۔۔اب اس کی دائمی موت ناممکن ہو گئی ہے۔
حکیم شمس الدین مرحوم اپنے اصل وطن لوٹ گئے مگر پاکپتن شریف کا ذرہ ذرہ ان کے دنیاوی فرائض کی تکمیل کی گواہی دے رہا ہے۔میری مراد شمس الاطباء، حکیم محمد شمس الدین چشتی نظامی امرتسری خلف الرشید فخر الاطباء عمدۃ الحکماء صوفیء باصفاء حضرت قبلہ حکیم فقیر محمد چشتی نظامی امرتسری علیہ الرحمہ مدفون بجوار حضرت میاں میرؒ لاہور سے ہے۔ آپ علما و صوفیا اور عوام و خاص میں یکساں مقبول تھے۔آپ انتہائی خوش خُلق، خوش مزاج،ہمدرد، ملنسار اور مہمان نواز انسان تھے۔
آپ پہلی ملاقات میں ہی ایسا تاثر دیتے کہ ملنے والوں کو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ان کے ساتھ ان کی برسوں پرانی دوستی ہو۔ حکیم محمد شمس الدینؒ 14جون 1993ء بروز پیر بوقت صبح 8بجے واصل بحق ہوئے۔ اُس وقت آپ کی عمر تقریباً 80سال تھی۔ حضرت حکیم شمس الدین نے مختلف اساتذہ کرام سے علومِ طب و تصوف حاصل کیے۔
والدِ محترم حکیم فقیر محمد چشتی اور علامۃ الدہر حضرت مولانا محمد عالم آسی امرتسریؒ سے اولین درس پڑھے۔ پھر طبیہ کالج لاہور سے 1944ء میں بڑے اعزاز کے ساتھ حکیم حاذق کا امتحان پاس کیا اور تمام امیدواروں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
آپ قطب الوقت، فرید العصر، الحاج خواجہ میاں علی محمد خان چشتی نظامیؒ سجادہ نشین بسی شریف، ضلع ہوشیار پور کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اور ان کا سایہ عاطفت ملنے کے بعد 1947ء میں ہجرت کے بعد پاکپتن شریف میں آکر قیام کیا۔
آپ کے چھوٹے بھائی حکیم محمد جلال الدین مرحوم 1948ء تک آپ کے ساتھ رہے۔ان کے انتقال کے بعد جلالی دوا خانہ کی تمام تر ذمہ داریاں بھی انہی کے سر پر آن پڑیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ حکیم امام الدین پاکپتنیؒ کے بعد اگر سرزمین پاکپتن میں کوئی قابل ترین طبی شخصیت تھی تو وہ حکیم محمد شمس الدین مرحوم و مغفور کی تھی۔
آپ رفاعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ فقیروں، درویشوں، عالموں اور صوفیائے کرام کے درباروں کے خادموں کا علاج معالجہ مفت کر کے روحانی مسرت محسوس کیا کرتے تھے۔مسجد موج دریا کا انتظام بھی سنبھالا اور مسعودیہ علویہ لائبریری بھی قائم کی۔
زائرین بابا فرید گنج شکرؒ کی خدمت، پاکپتن شہر کی مساجد اور مزارات کی دیکھ بھال، خصوصاً حضرت عزیز مکیؓ کے مزار اور مسجد پر تعمیرِ و تزئین کا کام کرواتے رہے۔
پاکپتن شہر کے بازاروں کے نام بھی آپ نے ہی رکھے۔ سردیوں گرمیوں میں ریلوے ٹائم ٹیبل، آستانہ گنج شکرؒ اور مسجد موج دریا کے باہر خود لکھ کر لگاتے تاکہ زائرین صحیح وقت پر اسٹیشن پہنچ سکیں۔
حکیم صاحب اچھے خوش نویس بھی تھے۔ امرتسر کے مشہور خطاط اور ماہرِ قرآنی طریقہء علاج، حضرت حکیم منشی مہر الدین صاحب نقشبندی مجددی اور قبلہ خواجہ عبدالخالق نقشبندی جہاں خیلاں والے سے خوش نویسی کا درس لیا اور اس میں کامل استعداد پیدا کی۔ منشی محمد مہر الدین صاحب تو حکیم صاحب مرحوم کے والد ماجد کے مطب میں تقریباً روزانہ تشریف لاتے ۔
حکیم صاحب اُنہیں اپنی کتابت دکھا کر اصلاح لے لیا کرتے تھے۔جب حکیم صاحب پاکپتن شریف آئے تو غالباً پہلے شخص تھے جو بہت خوبصورت کتابت کرنے پر قادر تھے۔
خوش نویسی کے شائق طلباء نے بھی اس فن میں آپ سے بہت کچھ حاصل کیا اور بعض عمارتوں اور مساجد کے دروازوں پر آپ کے کتبے آپ کی یاد دلاتے ہیں،مگر کسی کتبہ پر آپ نے اپنا نام نہیں لکھا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر آپ اپنے گھر کے باہر بہشتی دروازہ سے گزرنے والوں کے لئے ٹھنڈے پانی کی سبیل لگاتے۔
استنجاء اور وضو کے لئے خاص انتظام کرتے۔ درگاہ بازار میں آپ کا مطب واقع ہے جو آج بھی حکیم سدید الدین صاحب (آپ کے بیٹے) آبائی مہارت و حکمت کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ان کا مطب دیکھ کر کسی کامل اور روائتی مطب کا احساس ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کے لائقِ تقلید کارنامے اور بھی کئی ہیں جو بوقت فرصت احاطۂ تحریر میں لائے جائیں گے۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
دیوان غلام قطب الدین مرحوم سجادہ نشین درگاہ بابا فرید الدین گنج شکرؒ ان کے نہایت قدر دان تھے۔ اکثر اپنی نجی مجالس اور عرس کی تقریبات میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ حکیم صاحب اولیائے عظام میں سے حضرت بابا فرید الدین کا ذکر خیر نہایت درجہ عقیدت و محبت کے ساتھ کرتے اور حضرت خواجہ عزیز مکی کے ساتھ خاص روحانی تعلق رکھتے تھے۔
اِسی نسبت اور تعلق کی بنا پر آپ کا مزار بھی وہیں بنا۔
حکیم صاحب نہایت متواضع اور خلیق انسان تھے۔اُن کا دستر خوان بہت وسیع تھا۔ آنے جانے والوں کو بغیر تواضع کے رخصت نہ کرتے۔ آپ کی علمی مجالس میں گاہے بگاہے ’’علم و حکمت اور تصوف‘‘ کے موضوع پر بات چل نکلتی تو گھنٹوں گفتگو کرتے رہتے۔ علمی نکات بیان کرتے ہوئے محفل کو ایک علمی مباحثہ گاہ بنا دیتے۔ بعض دقیق نکات بیان کرتے تو علما کرام دنگ رہ جاتے۔
حضرت میاں علی محمد خاں، حکیم صاحب کی قابلیت کے معترف تھے۔ درحقیقت انہی کی دُعاؤں کا صدقہ تھا کہ ایک دن حضرت میاں صاحب نے ایک محفل میں فرمایا: ’’شمس الدین، شمسِ زماں ہے‘‘ ۔۔۔اس پر حاضرینِ محفل نے آپ کو مبارکباد دی۔بعض خوش نصیبوں نے ان سے طبی کتابیں بھی پڑھیں۔ کلیاتِ طب اور علمِ تشریحِ طب پڑھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
عرس حضرت بابا فرید الدین پر زائرین کے طعام کا اعلیٰ انتظام فرماتے اور درجنوں کی تعداد میں زائرین آپ کے گھر آ کر ٹھہرتے اور بہشتی دروازہ سے گزرنے کی سعادت حاصل کرتے۔ حضرت میاں علی محمد خان صاحب ان کی تیار کردہ ادویات نہایت معیاری قرار دیتے اور مرض کی تشخیص و تجویز میں ان کی تعریف فرماتے۔
حکیم صاحب طبِ یونانی کے علاوہ ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ جدید طب سے کماحقہ واقفیت حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنی انگریزی زبان کی اہلیت میں بہت اضافہ کر لیا تھا۔ انگلش خط و کتابت کے لئے ٹائپ خود ہی کیا کرتے تھے۔چھوٹے سائز کا ایک ٹائپ رائٹر ان کی میز پر ہمیشہ پڑا رہتا تھا۔
حضور میاں بسّی شریف والے اور ان کے اہلِ خانہ حکیم صاحب ہی کے زیر علاج رہتے۔ میاں صاحب کے ہزاروں مریدوں میں سے کوئی شاذو نادرہی ایسا ہو گا جس کو اتنا بڑا اعزاز حاصل ہوا ہو۔
حکیم صاحب اچھی کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا بہت شوق رکھتے تھے۔ آپ نے 32سال تک صدقہ جاریہ کے طور پر ہزاروں لوگوں کے آشوبِ چشم کا مفت علاج کیا اور کبھی مشورہ فیس نہیں لی۔
مجربات، عرق اور شربت وغیرہ خود تیار کرتے تھے۔ خمیرہ جات، مربہ جات، معجونیں اورجوارشات بھی اپنی نگرانی میں تیار کرواتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ پاکپتن شریف امن و سکون کا گہوارہ ہے۔
یہاں دُنیا کے فرمانرواؤں کے علاوہ اولیائے کاملین نے بھی علم و عرفان کے حصول کے لئے حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ سے روحانی تعلق قائم کئے رکھا ۔
آستانہ بسی شریف کے صاحبزادگان سے روحانی تعلق کی بناء پر ان کے سامنے خدام کی طرح رہے۔ ملک حاجی بشیر احمد چشتی اوکاڑہ سے حضور میاں صاحب کے لئے پان لاتے تھے۔
جب پان ختم ہونے لگتے تو حکیم صاحب سے حضور میاں صاحب فرماتے کہ ملک بشیر آج یا کل آ جائے گا۔ اُسی دن ملک بشیر صاحب پان لے کر آ جاتے۔
ملک بشیر صاحب نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ کوٹھی میں چوری ہو گئی۔ غالباً ہنگامی حالات تھے اور1965ء کی جنگ کے ایام تھے۔ حکیم شمس الدین اپنے پیرو مرشد حضرت میاں صاحب کی کوٹھی پر اپنی مرضی سے خاکی وردی پہن کر تک رات بھر پہرہ دیتے رہے۔دن کو مطب میں ہوتے۔اسی لئے حضور میاں صاحب آپ کو مجاہد بھی کہا کرتے تھے۔
حکیم صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی حکیم محمد جلال الدین مرحوم نے پاکستان کے لئے بڑا کام کیا۔ قیام پاکستان سے قبل تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے کے جرم میں حکیم شمس الدین اور حکیم جلال الدین صاحب کو امرتسر سے گرفتار کرکے تقریباً ایک ماہ تک لاہور جیل میں مہمان رکھا گیا۔ حضور میاں صاحب کے بیٹوں، صاحبزادہ میاں محمود احمد خاں اور میاں پروفیسر مسعود احمد خان سے بے تکلفی تھی۔
وفات سے کچھ روز پہلے راقم الحروف کو حکیم صاحب نے حاضری کے موقع پر فرمایا کہ حضور میاں صاحب کے چند تبرکات لباس، رومال اور تسبیح عنایتآپ کے لئے ہے۔
وقتِ رحلت فرمایا کہ حکیم محمد موسیٰ امرتسری پاکپتن میں آ کر مجھے مل جاتے تو کتنا اچھا ہوتا!آپ کے دو بھائی حکیم محمد موسیٰ امرتسری مرحوم بانی مجلس رضا لاہور 1999ء میں اور حکیم غلام مرتضیٰ5 برس پہلے 1994ء میں انتقال فرما گئے تھے۔
آپ نے ایک بیٹا حکیم سدید الدین اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔ حکیم سدید الدین کے فرزندان برخوردار حکیم فخر الدین اور برخوردار حکیم شہاب الدین مسعود ہیں۔۔۔ اللہ اُنہیں سلامت رکھے۔