انتخابی نتائج کیخلاف 3 بڑی سیاسی جماعتوں کا طبل جنگ کا اشارہ
لاہور(جاوید اقبال /کامران مغل /حافظ عمران )ملک کی 3بڑی سیاسی جماعتوں نے 2018ء کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج میں سامنے آنے والی اکثریتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف طبل جنگ کا اشارہ دے دیا ہے اور تینوں بڑی جماعتوں ن لیگ ،پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کی نتائج پر مشترکہ بیانیے سے ایسے لگتا ہے جیسے تینوں جماعتیں اور ان کے اتحادی پی ٹی آئی کے خلاف متحد ہوگئی ہیں اور انہوں نے انتخابات کو کالعدم قرار دلانے کے لئے سر جوڑ لئے ہیں او ر اس کے لئے انہوں نے باقاعدہ اشارہ بھی دے دیا ہے ۔شہباز شریف کے بعد مولانا فضل الرحمن اور پھر بلاول بھٹو زرداری ،ان کے رفقا کار شیریں رحمن ، رضا ربانی اور سید خورشید شاہ نے بھی ایک ہی قسم کا موقف اپنایا ہے ،اگر ایسا ہوا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر الیکشن کے نتائج کالعدم قراردیئے گئے توپھر کیا ہوگا؟کیا پاکستان تحریک انصاف اس مطالبے کو تسلیم کرلے گی ،اگر پی ٹی آئی نے یہ تسلیم نہ کیا تو ملک کے اندر انارکی پھیل سکتی ہے اور کوئی تیسری قوت سامنے آسکتی ہے ،ان سوالوں کے جواب 48گھنٹوں کے سامنے آجائیں گے ۔دوسری طرف نتائج مسترد کرکے شہبازشریف ، پیپلز پارٹی کی قیادت اور ایم ایم اے کے مولانا فضل الرحمن نے واضح کردیا ہے کہ وہ جیتنے والی پارٹی کی حکومت بننے میں بڑی رکاوٹ ڈال کر حکومت سازی کے مرحلے کو کھٹائی میں ڈال سکتے ہیں ۔غیر حتمی اورغیر سرکاری نتائج کے دوران ہی مسلم لیگ (ن) اور متحدہ مجلس عمل نے اپنی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی واضح کردی ہے جس سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کی پالیسی اپنائیں گی ۔مولانا فضل الرحمن نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ انہیں اس نئی حکمت عملی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کی بھی حمایت حاصل ہے ۔اس بات کاقوی امکان ہے کہ یہ جماعتیں آئندہ دنوں میں انتخابات دوبارہ کروانے کا مطالبہ کرسکتی ہیں ،اگر ایسا ہوا تو ملک بڑے نقصان کی طرف جا سکتا ہے جس کے نتائج قوم اور ملک کو درپیش آسکتے ہیں ۔اس حوالے سے ملک کے ممتاز سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی الیکشن کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے اور نہ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے باضابطہ نتائج کااعلان کیا گیا ہے مگر اس سے پہلے ہی ملک کی اہم بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابات 2018ء کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے ثابت کردیا ہے کہ وہ اگر پی ٹی آئی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آگئی تو ان کی سیاست خطرے میں پڑ جائے گی ،اس وجہ سے بڑی جماعتیں نتائج مسترد کررہی ہیں اور الیکشن کو تسلیم نہیں کررہیں ۔اس پر آئینی و قانونی ماہراظہر صدیق ایڈووکیٹ کا نقطہ نظر لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ صرف فارم45کو بنیاد بنا کر انتخابات کالعدم قرارنہیں دیئے جاسکتے اور نہ ہی قانون اس کی اجازت دیتا ہے ،ایسا چند حلقوں میں تو ہوسکتا ہے لیکن پورے ملک کے انتخابی حلقوں میں ممکن نہیں ۔اس کے لئے بھی الزامات لگانے والوں کو ثبوت الیکشن کمیشن کو پیش کرنا پڑیں گے جو بظاہر الزام لگانے والوں کے پاس موجود نظر نہیں آتے ، انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر ہارنے والی جماعت ایسا ہی واویلہ کرتی ہے جیسے اب مذکورہ جماعتیں کررہی ہیں۔