فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر484
1939ء میں نذیر اجمیری (ایم نذیر) کی فلم ’’ نوجیون ‘‘ یعنی نئی زندگی ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں بھی ایم نذیر کریکٹر ایکٹر کے کردار میں تھے۔ یہ اداکار کی حیثیت سے بمبئی ٹاکیز کے لیے ان کی آخری فلم تھی ۔ غالباً وہ ہیرو کے درجے سے گھٹ کر کریکٹر ایکٹر بننے سے تنگ آگئے تھے یا کوئی اور وجہ تھی۔ بمبئی ٹاکیز ایک ایسا فلم ساز اداکار تھا جسے سارے برصغیر میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا اور اس سے وابستگی کسی کے لیے بھی ایک اعزاز کی بات تھی لیکن نذیر صاحب نے بمبئی ٹاکیز سے کنارہ کش ہو کر پرکاش پکچرز سے وابستگی اختیار کر لی۔ پرکاش پکچرز کا شمار بھی کامیاب فلم ساز اداروں میں ہوتا تھا۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ انہوں نے پرکاش پکچرز کی دو فلموں میں کام کیا اور دونوں مرتبہ انہیں کریکٹر ایکٹر کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے کی فلموں میں کریکٹر ایکٹر کر کردار عموماً بہت جان دار ہوتا تھا اس لیے ان کرداروں کے لیے بہت اچھے اور منجھے ہوئے اداکار ہی منتخب کیے جاتے تھے۔ یہی بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہیرو اور ہیروئن کی طرح کریکٹر ایکٹر کو بھی معقول معاوضہ دیا جاتا تھا۔ بد قسمتی سے پاکستان کی فلمی صنعت میں یہ رواج کبھی بھی نہیں رہا۔ کریکٹر ایکٹر چاہے جتنا اچھا اور معیاری اداکار ہو اس کے اور ہیرو ، ہیروئن کے معاوضوں میں بہت نمایاں فرق ہوتا تھا۔ ہم آغا طالش کے تذکرے میں بیان کر چکے ہیں کہ ایک مسلمہ اور مستند اعلیٰ ترین اداکار ہونے کے باوجود آغا طالش کے اور فلم کی ہیروئن اور ہیرو کے معاوضوں میں بہت زیادہ تفاوت تھا جس کا آغا طالش کو ہمیشہ بہت دکھ رہا اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہے۔ یہ افسوس بدقسمتی کی بات ہے کہ آغا طالش جیسے بے مثال اداکار کو ایک دوسرے درجے کے ہیرو سے بھی بہت کم معاوضہ دیا جاتا تھا۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر483پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پر کاش پکچرز میں ایم نذیر کی پہلی فلم ’’ نری بھگت ‘‘ تھی ۔ یہ ایک دھارمک یعنی ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی فلم تھی۔اس فلم مین نذیر صاحب نے معاون اداکار کے حیثیت سے کام کیا تھا۔ اس ادارے کی دوسری فلم ’’سردار‘‘ تھی جس میں پرمیلا اور جینت نے مرکزی کردار کیے تھے۔ اس فلم کی کاسٹ میں شاہ نواز اور امیر مائی کرنا ٹکی جیسے فنکار بھی کام کر رہے تھے۔ امیر بائی کرنا ٹکی کو ایک گلوکارہ کی حیثیت سے بہت زیادہ مقبولیت حاصل رہی ہے حالانکہ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری بھی کی ہے۔
آئندہ سال انہوں نے پرکاش پکچرز کی فلمی ’’درشن ‘‘ میں کام کیا مگر معاون اداکار کی حیثیت سے۔ اس فلم میں مرکزی کردار پریم ادیب اور جیوتی نے ادا کیے تھے۔ نوشاد اس فلم کے موسیقار تھے۔ اس سال نذیر صاحب کی دوسری فلم ’’مالا‘‘ تھی جس میں جے راج ، روز اور جینت نمایاں تھے۔ نذیرصاحب نے اس میں ایک مضبوط کریکٹر رول ادا کیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی بھی نوشاد نے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی۔
ؔ ’’ مسلم کا لعل ‘‘ موہن پکچرز کی فلم تھی۔یہ اداکار جادوئی فلمیں بنانے میں شہرت رکھتا تھا۔ ’’مسلم کا لعل‘‘ ان کی پہلی مسلم پس منظر کی فلم تھی۔ یہ ایم نذیر کی آخری فلم تھی۔ مطلب یہ کہ اداکار کی حیثیت سے ’’مسلم کا لعل ‘‘ نذیر صاحب کی آخری فلم ثابت ہوئی ۔ دراصل ایم نذیر کو یہ احساس شدت سے ہوچکا تھاکہ وہ اداکاری کی حیثیت سے فلمی دنیا میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ ایک حساس اور تعلیم یافتہ انسان تھے۔ دیانت داری کے ساتھ حالات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے اداکار کی حیثیت سے کل سترہ فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے اکثر فلموں میں وہ کریکٹر ایکٹر تھے مگر نذیر صاحب کے اندر کا فنکار انہیں پہ احسان دلا رہا تھا کہ اداکاری ان کا میدان نہیں ہے۔ انہیں فلم سازی کے دوسرے شعبوں کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ ویسے بھی سترہ فلموں میں اداکاری کرنے کے بعد ان کا اداکاری کا شوق ختم ہو چکا تھا۔ انہیں یہ بھی احساس بخوبی ہوچکا تھا کہ اداکاری کوئی ’’تخلیق‘‘ کام نہیں ہے۔ یہ تو ایک قسم کی نقالی ہے۔ یعنی کسی کردار کو اسی کے انداز میں اسکرین پرپیش کر دینے کا نام اداکاری ہے۔ اس میں تخلیق کی گنجائش نہیں ہے سوائے اس کے کہ آپ اداکاری میں اپنے تاثرات اور حرکات وسکنات کی مدد سے ایک منفرد مقام پید اکرنے میں کامیاب ہوجائیں۔
انہوں نے اس تمام عرصے میں سنجیدگی سے غور کیا تھا کہ فلمی صنعت میں ان کا اصل مقام کیا ہونا چاہیے؟ وہ بنیادی طور پر کہانی نویس تھے۔ اردو اور انگریزی ادب کا بھی انہوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا اور ان کے اندر تخلیق قوتیں بھی موجود تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک اور اہم فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے اداکاری کو خیرباد کہہ کر کہانی نویسی کا شعبہ اپنانے کا عہد کیا اور اس مقصد کے لیے کئی کہانیوں کے خاکے بھی مرتب کیے۔
انسان جب کوئی ارادہ کرتا ہے اور اس پر سختی سے عمل کرنے کا عہد کرتا ہے تو قدرت بھی اس کی مدد کرتی ہے۔ انہوں نے اللہ توکل موہن پکچرز کی ایک معقول ملازمت چھوڑی دی تھی۔ اداکاری کی طرف سے بھی منہ توڑ لیا تھا اور صرف کہانی نویس بننے کی دھن ان کے ذہن پر سوار تھی۔
اس زمانے میں اے آر کار دار نے اپنا ذاتی فلم ساز اداکار دار پر وڈکشنز کے نام سے بتایا۔ انہیں اپنے ادارے کی پہلی فلم کے لیے ایک بہت جان دار اور دلچسپ معاشرتی کہانی کی ضرورت تھی۔ نذیر اجمیری صاحب نے کاردار صاحب سے ملاقات کی اور انہیں ایک کہانی کا مرکزی خیال سنا یا جسے سن کر کاردار صاحب پھڑک اٹھے۔ یہ ایک ایسی معاشرتی کہانی تھی جو اس زمانے سے لے کر آج تک ہمارے معاشرے کی حقیقی شکل و صورت کی عکاسی کرتی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
انہوں نے کاردار صاحب کے لیے جو کہانی لکھی اس کا نام ’’ شاردا‘‘ تھا ۔شاردا ایک گھریلو مسائل سے تعلق رکھنے والی کہانی تھی جس میں ہیروئن کا کردار مہتاب کو دیا گیا تھا اور انہون نے اس کردار کے ساتھ پوری طرح انصاف کیا تھا۔ دوسرے اداکاروں میں واسطی ، الیاس ، اے شاہ شگار پوری ، امیر بانو ، راج کماری شکلا وغیرہ شامل تھے۔ اس فلم کے گیت نگار دی ، این مدھوک تھے جو اس زمنے کے مقبول ترین گیت نگار تھے۔ ان گیتوں کی دھنیں نوشاد صاحب نے بنائی تھیں۔ کاردار صاحب نے اس لفم کے لیے اعلیٰ پائے کے ہنرمندوں کا انتخاب کیا تھا۔ کاردار بذات خود اس کے ہدایت کار تھے۔ اس فلم کا مرکزی خیال تعلیم تھا۔ خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم جس کے بغیر نہ تو وہ اپنے گھر میں خوش رہ سکتی ہیں اور نہ ہی خاندان کو خوشیاں دے سکتی ہیں۔ یہ ایک بامقصد اور اصلاحی فلم تھی جسے کاردار صاحب نے بہت عمدگی سے فلمایا تھا۔
نوشاد صاحب کی موسیقی بھی اس فلم کی جان تھی۔ اس فلم کا اسکرپٹ اور نغمات نذیر صاحب نے ہی لکھے تھے۔ اس فلم کی گلوکاری ثریا نے کی تھی اور ان گانوں نے سارے برصغیر میں دھومیں مچا دی تھیں۔ اس فلم نے مصنف اور نغمہ نگار کی حیثیت سے نذیر اجمیری صاحب کی دھاک بٹھا دی۔ اس فلم میں انہوں نے ایم نذیر کا ٹائٹل دیا تھا اور اس وقت تک نذیر اجمیری کا نام فلموں کے لیے نہیں اپنایا تھا۔ نذیر صاحب نے فلم کی کہانی اور مختلف دلچسپ اور جان دار کرداروں کے ساتھ ساتھ مکالموں میں بھی تجربے کیے تھے۔ اس فلم میں واسطی کا تکیہ کلام ’’پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے بھائی ‘‘ اس قد رمقبول ہوا کہ ہر ایک کی زبان پر چڑھ گیا۔ ہم اس وقت بہت کم عمر تھے مگر واسطی کا یہ تکیہ کلام اسکول میں اتنا مقبول ہوچکا تھا کہ ہمیں بھی یاد ہوگیا۔ اس فلم کی موسیقی انتہائی دلکش ، سریلی اور دل میں اترجانے والی تھی جس کی دھنیں اور بول آج تک لوگوں کو یاد ہیں۔
اس فلم سے ایک نئے تخلیق کار ے جنم لیا تھا اور یہ نذیر اجمیری کی زندگی کا ایک انتہائی اہم موڑ تھا۔ انہوں نے کہانی ، منظر نامہ ، مکالمے اور گیت لکھے تھے اور ان سب کو بے حد سراہا گیا تھا۔ نوشاد نے اس فلم کے گیتوں کو انتہائی مسحور کن طرزوں سے سجایا تھا۔ اداکاری اور ہدایت کاری کا معیار بھی بہت اعلیٰ تھا۔ ’’شاردا‘‘ ہر اعتباد سے ایک دلکش اور کامیاب فلم ثابت ہوئی تھی جس نے فلم ساز و ہدایت کار کاردار اور مصنف و گیت نگار نذیر اجمیری کی زندگیوں کو ایک نیا رخ دے دیا تھا۔ (جاری ہے)
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر485 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں