حوروں کی رخصتی!
میں نے خوشی کی تقریبات میں کسی کو کم، بہت ہی کم روتے دیکھا ہے مگر یہ کیا کہ تیس دلہنوں اوران کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر بیساختہ میں خود رو دیا۔ میری آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے، حالانکہ یہ رونے کا کوئی خاص موقع نہ تھا کیا اشکوں کا تعلق صرف غم سے ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر شدت مسرت کا اظہار کیا قہقہوں سے ہو؟ خالص قہقہے کہیں کم ظرف لوگوں کا پیرا یہ تو نہیں؟ ہاں! اس بات کو عام لوگ مگر بالکل بھی نہیں سمجھ پاتے! لاہور سے ڈریم فورٹ مارکی ڈسکہ، اجتماعی شادیوں کی تقریب میں پہنچا میں عام طور پر تقریبات میں نہیں جایا کرتا وقت کا زیاں، شور شرابا، لغویات، بے نظمی، فضول گفتگو اور نمود و نمائش سے اپنی جان جاتی ہے، لیکن یہ تقریب کچھ ایسی تھی کہ حاضر نہ ہو پاتا تو واقعی پچھتاتا۔ مختصر دورانیہ، وقت کی تقسیم، ٹھہراؤ، معقولیت، نظم، نپے تلے الفاظ اور حسن ترتیب و ترکیب!
یہ تقریب ہر سال خلق محمدی اور ینگ بلڈ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہوا کرتی ہے اب کے یہ تیرہواں سالانہ فنکشن تھا، جو بابا خالد محمود مکی مدنی کے زیرسرپرستی انسانی دکھ بانٹنے اور لاچار و نا چار لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے میں مصروف کار ہیں مجھے معلوم ہوا کہ ہر سال تیس شادیاں، محض مخیر حضرات کی ترغیب دلانے کی خاطر اس دور دراز علاقے میں فائیو سٹار ہوٹل کے برابر مارکی میں رچائی جاتی ہیں وگرنہ اوسطاً پانچ سو کے لگ بھگ خفیہ! اب تک قریباً چھ ہزار سے بھی زائد غریب اور بے سہارا بچیوں کی رخصتی عمل میں آ چکی ہیں۔ جب یک رنگی دلہنیں ایک ساتھ قطار میں اسٹیج کی طرف آ رہی تھیں تو لگا کہ جیسے جنت کی حوریں، راستہ بھول کر زمین پر آ گئی ہیں۔!
انتظامیہ اور فاؤنڈیشنز کے متحرک و مخلص کارکن شاندار طریق سے باراتوں کو خوش آمدید کہتے، تمام مہمانوں کو پر تکلف معیاری کھانا پیش کرتے اور دلہنوں کو دعائیں دے کر بے مثال انداز میں رخصت کیا کرتے ہیں۔ دعاؤں اور اپنائیت کے حصار میں! یہ کسی سے چندہ یا فنڈ لینا تو کجا، بصد شوق تکرار پیش کرنے والوں سے قبول بھی نہیں کرتے پھر جہیز؟ ہر بچی کو گھر کی ضرورت کے لئے قیمتی سامان بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ محتاط تخمینے کے مطابق فی کس کم از کم پانچ لاکھ، ایسا نہیں کہ اس کے بعد بچیوں کو بھلا دیا جاتا ہے، بلکہ ہر اسلامی تہوار اور خوشی غمی کے وقت سر پر دست شفقت رکھا ہوتا ہے۔ الغرض جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا، اس کے مطابق یہ واقعی جوش مسرت و انبساط سے ایک رلا دینے والا پروگرام قرار پایا ہوا ہے۔ میں نے مگر اپنے رونے کا کھوج لگایا تو حسد سے ملتا جلتا کوئی جذبہ سامنے آیا جو کہ اصلاً اپنی فطرت میں رشک تھا۔
یہ کام مجھ سے کیوں نہیں ہو پارہا، اے کاش! میرے وسائل میں بھی اس بے لوث عمل کی تھوڑی بہت گنجائش موجود ہوتی۔ میں بھی تو اس نشے سے سرشار رہتا جو ہر سال بلکہ پورا سال بابا جی کیا کرتے ہیں۔ ان بچیوں کو ایسے رخصت کیا جاتا ہے جیسے کہ سگی بیٹیاں! صاحبزادہ محمد حسان اور صاحبزادہ محمد عثمان بہنوں کو کندھے دے دے کر تھکتے ہی نہیں، کچھ اور توانا ہو جاتے ہیں۔بابا جی اور ان کے دست و بازو سرتاپا عاجز و متشکر دکھائی دیئے۔ دل گداز، آنکھیں پر نم اور فکر جمیل اس تقریب کو کسی بھی طرح سے خود نمائی کہنا ناروا و بے جا ہوگا۔ رونمائی کے یہ ڈھنگ نہیں ہوتے۔ ویسے اگر کوئی دکھلا وے کے لئے خدمت خلق کا عمل بجا لائے تو میرے خیال میں شاید رد نہ ہو اگر نیت پاکیزہ ہو، جیسا کہ میں نے دیکھا اور سمجھا، تو یہ پھول تولنے اور موتی رولنے جیسا کام ہے۔اس تقریب کے مہمان خصوصی سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی تھے جو بڑے رکھ رکھاؤ سے جوڑوں میں تحائف تقسیم کرتے رہے۔ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمد اسلم گھمن اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی آخری رخصتی تک رونق افروز پایا گیا……