86برس کا انتظار
سلطان محمد فاتح کے حکم سے مسجد اور پھر اتاترک کے دور میں عجائب گھر بننے والی آیا صوفیا ایک بار پھر اللہ اکبر کی روح پرور صداؤں سے گونج اُٹھی، تاریخ نے86 برس تک اس لمحے کی آمد کا انتظار کیا۔ یہ سعادت ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی،جو طویل عرصے سے تخت ِ اقتدار پر متمکن ہیں، پہلے استنبول کے میئر رہے، پھر وزیراعظم بنے اور اب صدر ہیں،لیکن اِن تمام سرکاری مناصب پر اُن کا یہ اعزاز سب سے بھاری ہے کہ انہوں نے481 برس تک مسلمانوں کی سجدہ گاہ رہنے والی عمارت کو ایک بار پھر خالق ِ ارض و سما کی کبریائی کے پنج وقتہ اعلان اور اس کے ذِکر کے لئے مخصوص کر دیا، اپنی اپنی قسمت ہے کہ ایک ترک رہنما نے صدیوں تک رہنے والی مسجد کو عجائب گھر بنایا اور دوسرے نے اس کا اصل مقام بحال کر دیا، نمازِ جمعہ کا خطبہ ترکی کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پروفیسر علی ایر باش نے دیا، انہوں نے بائیں ہاتھ میں تلوار تھام رکھی تھی۔ تلوار پکڑ کر خطبہ جمعہ دینا سلطنت ِ عثمانیہ کی روایت تھی، جو مسجد کی بحالی کے ساتھ ہی زندہ کر دی گئی۔ ساڑھے تین لاکھ سے زائد نمازیوں نے اس روایت کا احیا اور ہیبت و جلال بچشم ِ نم دیکھا۔ یادگاری سکہ جاری کیا گیا،جس کے ایک جانب مسجد آیا صوفیا کی تصویر ہے۔ صدر اردوان نے بھی اس موقع پر قرآنِ حکیم کی چند آیات تلاوت کیں،نمازِ جمعہ کے بعد وہ سلطان محمد فاتح کی قبر پر گئے اور دُعا کی۔ صدر اردوان نے اعلان کیا کہ اگلا قدم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لئے ہو گا۔
ترکی میں خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اتاترک نے جو ”انقلابی اقدامات“ کئے تھے اُنہیں عشروں تک تقدیس کا درجہ حاصل رہا، آج بھی اُن کے بعض احکامات اسی طرح نافذ ہیں، تعلیمی اداروں کی طالبات پر سر ڈھانپنے کی پابندی بھی اسی عہد کی یادگار ہے۔صدر اردوان کو اپنی دو بیٹیوں کو تعلیم کے لئے امریکہ بھیجنا پڑا،جہاں طالبات اپنی مرضی سے سر ڈھانپنے یا ننگا رکھنے کے لئے آزاد تھیں اور آج بھی ہیں۔ سرکاری تقریبات میں بھی شریک ترک خواتین سر نہیں ڈھانپ سکتی تھیں، لیکن جب سے اردوان برسر اقتدار آئے ہیں اُن کی اہلیہ سر ڈھانپنے کا اہتمام کرتی ہیں اور بیرونی دوروں میں بھی انہیں اسی لباس میں دیکھا جا سکتا ہے۔تاہم ترکی میں طالبات کو اب بھی بعض پابندیوں کا سامنا ہے،جو موجودہ فضا میں زیادہ دیر تک برقرار رکھنا مشکل نظر آتا ہے،اِس لئے امکان ہے کہ ان پابندیوں کا بھی جلد خاتمہ ہو گا۔صدر اردوان اپنے ملک میں مروج آئین اور نظام ہی کے تحت سیاست میں آئے اور قدم بہ قدم آگے بڑھتے چلے گئے،اُن کی کامیابیوں کا طویل دور یہ شہادت دیتا ہے کہ پابندیاں آگے بڑھنے کا جذبہ رکھنے والوں کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتیں، وہ حُسنِ تدبیر سے گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں اور کامیابیاں اُن کے قدم چومتی چلی جاتی ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سیاست کی دُنیا میں کامرانی کے جام کبھی کوتاہ دستوں کے لئے نہیں بھرے گئے۔ عزم و حوصلہ سے تہی دامن لوگ اس میدان میں ناکام و نامراد ہی رہتے ہیں۔
ماضی میں ترکی کے بہت سے سیاست دانوں نے اپنے اپنے دور میں مُلک کے سیکولر آئین کی سخت پابندیوں کو نرم کرنے کی ہلکی سی کوشش بھی کی تو اُنہیں کان پکڑ کر اقتدار سے نکال دیا گیا،یکے بعد دیگرے بہت سے سیاست دانوں کو محض اِس لئے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کہ انہوں نے مصطفےٰ کمال کے متعارف کرائے ہوئے اقدامات کی جانب نگاہ غلط انداز ڈالی تھی یا ڈالنے کی محض کوشش کی تھی،لیکن صدر اردوان نے ترکی میں ایک ایسا بڑا اقدام کر ڈالا جسے ان کے مخالفین عثمانی خلافت کے احیا کی کوشش قرار دے رہے ہیں،اور بعض کو تو یہ بھی دُکھ ہے کہ سلطان محمد فاتح نے عیسائی کلیسا کو ختم کر کے جو مسجد بنائی تھی اس کی بحالی رواداری کے خلاف ہے، جب تک یہ عمارت عجائب گھر تھی کسی کو رواداری یاد نہیں آئی، لیکن یورپ کے کلیساؤں میں اذانیں دینے والی قوم کے ایک وارث نے اگر ایک مسجد بحال کر دی تو رواداری کا سویا ہوا درد اچانک جاگ اُٹھا۔ ترک صدر کو جب وہ دارالحکومت سے باہر تھے، 2016ء میں ایک فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، بغاوت کی اطلاع ملتے ہی وہ واپس آ گئے اور عوامی قوت کو فوجی طاقت کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لاکھڑا کیا۔حالیہ تاریخ میں ایسی عوامی مزاحمت کی کوئی مثال شاید ہی ملے اور ترکی جیسے مُلک میں تو جہاں فوج کا سیاسی کردار باقاعدہ متعین ہے ایسی کسی عوامی مزاحمت کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا اور جہاں ماضی میں فوج کئی حکمرانوں کو رخصت کر چکی تھی، وہاں اس طرح کی مزاحمت اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا غیر معمولی بات تھی،اس بغاوت کی ناکامی کے بعد انہوں نے ایسے سخت انتظامی اقدامات کئے جن سے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کب کون سا اقدام کرنا ہے، بے وقت کی راگنی چھیڑ دینا انہیں پسند نہیں،جس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں ہی نکلتا رہا ہے،انہوں نے اپنے مُلک کی سیاست سے یہ سیکھا کہ چوٹ اسی وقت لگانی چاہئے جب لوہا گرم ہو،ٹھنڈے لوہے کو ”ڈھالنے“ کی جلد بازی حماقت کے مترادف ہے۔انہوں نے جب چوٹ لگائی تو لوہا اُن کی خواہش کے مطابق ڈھلتا چلا گیا،یہی اردوان اگر پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد ہی مسجد آیا صوفیا کی بحالی کا صرف اعلان ہی کر دیتے تو اب تک سیاست میں قصہ پارینہ بن گئے ہوتے اور اُن کی جماعت جس کی حمایت کے زور پر وہ کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں، ماضی کی کئی دوسری ترک جماعتوں کی طرح خلافِ قانون قرار پا چکی ہوتی،انہوں نے ثابت کیا کہ بڑے فیصلوں کے لئے صبرو تحمل کے ساتھ سازگار حالات کا انتظار کیا جا سکتا ہے،سیاست میں ”کاتا اور لے دوڑی“ کا رویہ منفی نتائج پیدا کرتاہے۔
ترکی میں مصطفےٰ کمال کے عروج اور ایران میں رضا شاہ پہلوی کی سلطنت کے قیام کے باوجود علامہ اقبال ؒ کو یہ کہنا پڑا تھا کہ روحِ شرق ابھی بدن کی تلاش میں ہے اور اِن دونوں رہنماؤں میں اس کی نمود نہیں ہوئی یہ وہ دِن تھے جب دُنیائے اسلام کے بہت سے مُلک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے،ہندوستان بھی غلام تھا اور پاکستان کا وجود ابھی پردہئ تاریخ میں پنہاں تھا،لیکن علامہ کی دوربین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمانوں کو جو حالات درپیش ہیں اُن کا مداوا نہ مصطفےٰ کمال کے پاس ہے، اور نہ ہی رضا شاہ کے،ایران میں پہلوی سلطنت تو صرف دو نسلوں تک چل سکی اور دوسری نسل کے شہنشاہ کو ایک بوریہ نشین نے اقتدار ہی سے محروم نہیں کیا، جلا وطن بھی کر دیا اور جلا وطن بھی ایسا کہ مرنے کے بعد دو گز زمین بھی سابقہ سسرال کے مُلک مصر میں مشکل سے میسر آئی،اب بعید نہیں کہ ترکی میں مسجد آیا صوفیا کی بحالی سے جس نئے دور کا آغاز ہوا ہے وہ ترکی اور مسلم اُمہ کے لئے ایک نئے عہد کی نوید لے کر آئے۔نمازِ جمعہ کے موقع پر صدر اردوان نے مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جس نئی منزل کا اعلان کیا ہے اس کے حصول کے لئے ابھی کتنا وقت باقی ہے یہ کہنا مشکل ہے،لیکن اقوام کی تقدیر افراد ہی کے ہاتھوں میں تشکیل پاتی ہے کیا پتہ کب کسی فرد فرید کے ہاتھوں پر ربِ ذوالجلال مسجد اقصیٰ کی آزادی کی لکیر نمودار کر دے۔