کاروں کی قیمتوں کو“پر“ کیوں لگے؟

کاروں کی قیمتوں کو“پر“ کیوں لگے؟
کاروں کی قیمتوں کو“پر“ کیوں لگے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ذاتی سواری کو ہمیشہ سے ایک عظیم نعمت:
کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں سواری کے جانور لوگوں کے وقار کی علامت ہوا کرتے تھے۔ پھر سائیکل کا دور آیا، موٹر سائیکل، سکوٹر آئے لیکن سب سے زیادہ کشش کار میں رہی، کار ہر غریب کا خواب،درمیانے طبقے کی خواہش اور مالدار افراد کا شوق ہے لیکن ضرورت ہر کے لیے بن چکی ۔ گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی خبریں اب عام ہو چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹویوٹا کے سارے درآمد ہونے والے ماڈلز جن میں ٹیوٹا ہائس، ہیلکس، لینڈ کروزر، پریس اور دیگر ماڈل شامل ہیں، سب کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ اڑتالیس لاکھ روپے ہے جو کہ ٹیوٹا لینڈ کروزر کے نرخ میں کیا گیا ہے۔ درآمد ہونے والے تمام ماڈلز کو سی بی یو نٹ کہا جاتا ہے یعنی وہ پہلے سے ہی تیار ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کے نرخوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہماری کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔ ان تمام سی بی یونٹس کے نرخوں میں اضافہ یا کمی بھی ڈالر کے اتار چڑھاؤ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سوزوکی کی گاڑی آلٹو کا ماڈل وی ایکس، جس میں اے سی تک موجود نہیں، اس کی قیمت میں تریسٹھ ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پہلے یہ گاڑی گیارہ لاکھ پینتیس ہزار کی تھی، اب گیارہ لاکھ اٹھانوے ہزار کی ہوگئی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ آلٹو کے باقی دونوں ماڈل یعنی وی ایکس ایل اور وی ایکس آر کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے سوزوکی نے اپنے تمام ویرینٹس کی قیمتوں میں اضافہ کیا تھا۔ لیکن خاص طور پر ایک ماڈل کا نرخ بڑھانا سمجھ سے باہر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے پٹرول کا ریٹ سو روپے سے نیچے جا کر تقریباً چوہتر روپے کے قریب آیا تھا۔ تو تمام گاڑیوں کے نرخوں میں تھوڑا بہت فرق آیا تھا۔ اب جب پٹرول کی قیمت دوبارہ بڑھ رہی ہے تو گاڑیوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ آج سے صرف چھ سات سال پہلے کی بات ہے لوگ پیسے جمع کر کے اپنی پسند کی گاڑی لیتے تھے۔ گریڈ 16 کا افسر بھی بچت کر کے اچھی گاڑی لے سکتا تھا۔ کیونکہ گاڑیاں آپ کی حیثیت کی علامت بھی مانی جاتی ہیں اسی لیے لوگ ہمیشہ بہترین لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح مہران, کلٹس یا ویگنر لے لے۔ مڈل کلاس طبقے کی اگر بات کریں تو ان کی بساط ہونڈا سٹی،سوک یا ٹیوٹا جی ایل آئی یا ایکس ایل آئی تک ہوتی تھی اور امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے ٹیوٹا لینڈ کروزر، مرسیڈیز اور آڈی کو ترجیح دیتے تھے۔ آج حالات بالکل اس کے برعکس ہیں۔ 2017ء میں ویگن آر وی ایکس ایل کی قیمت دس لاکھ چورانوے ہزار تھی جو کہ اب جون 2020ء کے ریٹس کے مطابق سترہ لاکھ کی ہو چکی ہے۔ اسی طرح FAW کی گاڑی V2 دسمبر 2017ء میں دس لاکھ ستر ہزار کی تھی اور 2020ء میں اس کی قیمت پندرہ لاکھ پچھتر ہزار ہوگئی ہے۔ ایسے ہی سوزوکی بولان 2017ء میں ساڑھے سات لاکھ کی تھی جو کہ اب پورے گیارہ لاکھ کی ہو چکی ہے۔ یہ وہی گاڑیاں تھیں جو نچلے درجے کے لوگوں کی قوت خرید میں تھیں، اب وہ انہیں لینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اب مڈل کلاس کی گاڑیوں کی بات کر لیں تو ہونڈا سٹی جو 2017ء میں ساڑھے پندرہ لاکھ کی ہوتی تھی وہ اب چوبیس لاکھ کی ہے۔ ہونڈا بی آر وی 1.5 میں بھی 2017ء کے مقابلے میں گیارہ لاکھ اضافہ ہوا اور وہ تئیس لاکھ سے چونتیس لاکھ تک آگئی ہے۔ مڈل کلاس کی دو پسندیدہ گاڑیاں یعنی ٹیوٹا کرولا گرانڈے اور ہونڈا سوک 1.8 اوریل بھی اب ان کی بساط سے باہر ہیں۔ 2017ء میں گرانڈے ساڑھے پچیس لاکھ کی تھی اور سوک پورے پچیس لاکھ کی لیکن اب 2020ء میں دونوں گاڑیاں انتالیس لاکھ کی ہیں۔ رواں مالی سال کے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر 60,862 گاڑیاں تیار کی گئیں اور ان میں سے 59,097 فروخت ہوئیں۔ اب اگر اس سے بھی پچھلے سال سے اس کا موازنہ کریں، تو پتا چلتا ہے مالی سال 2019ء کے دوران اسی عرصے میں 1,13,494 گاڑیاں تیار کی گئیں اور ان میں سے 1,04,038 فروخت ہوئیں۔ یعنی پاکستان میں بکنے والی گاڑیوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔ پاکستان، بھارت یا دوسرے ممالک کی طرح گاڑیاں نہیں بنا رہا، اگرچہ گاڑیوں کو یہاں اسمبل کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے بیشتر حصے درآمد کرنے پڑتے ہیں، اب حکومت نے درآمدات کم کرنے کی پالیسی کے تحت اس شعبے کو بھی محدود کرڈالا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک گاڑی ڈیلر کے پاس پہنچنے سے پہلے مختلف چینلز سے گزرتی ہے اور پھر اس پر خرچہ ہوتا ہے اور ڈیلر کے پاس پہنچنے تک اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان آٹوموٹو مینو فیکچر ایسو سی ایشن (پاما) کے چیئرمین سہیل بشیر رانا کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں بہت سارے ٹیکس ہیں“۔ پہلے ہی ڈالر قابو میں نہیں آرہا اوپر سے کورونا نے آکر تباہی مچادی ہے۔ ہونڈا اٹلس اور ٹویوٹا انڈس موٹرز کے کارخانے کورونا کے باعث کچھ عرصہ بند بھی رہے۔ نظر یہی آرہا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں گاڑیوں کی قیمتوں میں ردوبدل ہوگا اور نرخ مزید بڑھیں گے۔ ایک اور مسئلہ جو صارفین کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ گاڑی بیچنے جاتے ہیں تو ایجنٹ مائلیج کی بجائے سال کے حساب سے ریٹ لگاتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتے کہ گاڑی کتنی صاف ہے یا کتنا چلی ہے۔ مثال کے طور پر 2015ء ماڈل ہونڈا سٹی کہ بتیس ہزار کلومیٹر چلی ہے وہ سولہ لاکھ کی ہے اور اگر وہی گاڑی ایک لاکھ کلومیٹر چلی ہو تو وہ پندرہ لاکھ اسی ہزارکی بکے گی۔ تو کیا فائدہ ہوا اپنی گاڑی کا اتنا خیال رکھنے کا جب اس کی ری سیل ہی نہیں۔ زیادہ گاڑی بکنا معاشرے کی خوشحالی کو ظاہر کرتا ہے اور آج کل کے حالات دیکھ کر پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اگر یہ خوفناک معاشی بحران اسی طرح چلتا رہا تو وہ وقت بھی دور نہیں جب کار والے بھی بیکار ہو جائیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -