یک ازدواجی اور بڑھتا ہوا معاشرتی بحران
تحریر: سردار زاہد الرحمن
مملکتِ پاکستان اس وقت بہت سے معاشی، انتظامی، داخلی وخارجی سیکورٹی، موسمیاتی تبدیلیاں و قدرتی، آفات، صحتِ عامہ اور دوسرے بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ متذکرہ بالا مسائل پر تو تقریباً ہر جگہ بہث ومباحثہ اور انکا سدباب کیا جاتا مگر ایک معاشرتی مسئلہ ایسا بھی ہے جس پر ھماری توجہ اور اسے حل کرنے کی جستجو نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ ہے ھمارے معاشرے میں کنواری بیٹیوں اور بہنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جو اس وقت لگ بھگ ایک کروڑ سے زائد ہو چکی اور انکی عمریں بیس سے پینتیس سال کے درمیان ہیں۔بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کی اس پریشانی و فکر میں یا تو ذہنی کرب کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلے جاتے یا پھر قبل از وقت بڑھاپے کا شکار ہو جاتے۔ھماری خود ساختہ غیرت، عزت نفس اور انا کا معیار یہ ہے کہ ھم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے وراثتی حقوق سلب کرتے ہوئے تو شرم محسوس نہیں کرتے مگر ان کی زندگیوں کے سب سے بڑے مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے جھوٹی انا اور شرم کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ ہزار سالہ ہندوؤں کے ساتھ نے ھمارے معاشرے میں کچھ ایسی روایات ڈال دی ہیں کہ ھم نے اپنے دین اسلام کے زریں اصولوں کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے اور اس میں سب سے بڑی لعنت جہیز ہے جو کہ غریب بیٹیوں کے رشتوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بہت سے مفاد پرست لوگ اپنے بیٹوں کے رشتوں کے لیے زیادہ جہیز کی خواہش میں غریب گھرانوں کے رشتے ٹھکرا دیتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے اس دنیا میں تمام مخلوقات کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے اور ان کو ایک دوسرے کی ضرورت و تسکین کا ذریعہ بنایا ہے۔اب جو بھی شخص قدرت کے اس اصول کو رد کرتاہے تو وہ بے شک گنہگار ہوتا اور ساتھ ہی معاشرے میں بگاڑ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ہندو معاشرے سے جہاں ھم نے دوسری بہت سی غیر اسلامی چیزیں اپنائیں وہاں یک ازدواجی جیسی برائی بھی اختیار کرلی جس کے بھیانک نتائج سامنے آنا شروع ہو چکے ھیں۔اسلام ھمیں کثرتِ ازدواج کا درس دیتا ہے تاکہ معاشرے میں تمام عورتوں کو ازدواجی اور گھریلو حقوق میسر آ سکیں اور بیواؤں و یتیموں کے سر پر سایہ بھی قائم رہ سکے۔ قرآنی آیات کے علاوہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ھمارے لیے بہترین "Life model"ہے مگر برصغیر کے مسلمان نے اس تصور حیات کو چھوڑ کر یک ازدواجی کا ماڈل اپنا لیا ہے اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس برائی کے پیچھے مرد سے زیادہ ہاتھ عورت کا ہی ہے یعنی کے عورت جس شاخ پہ بیٹھی ہوئی اسے خود ہی اپنے ہاتھ سے کاٹ رہی۔ آ ج ایک عورت اپنے شوہر پر ایسا مالکانہ قبضہ کر کے بیٹھ جاتی جیسے اب اس مرد کی زندگی کی کنجی اس کے ہاتھ آچکی ہو، نعوذ بااللہ
۔آج کی عورت کو یہ سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ اپنے مرد پر قبضہ کر کے قدرت کے کاموں میں مداخلت تو نہیں کر رہی کہ جب اسی مرد کے خالق نے اسے چار شادیوں کا اختیار دیا تو اس کے بعد کس کی مجال ہے کہ وہ اس اصول خداوندی میں رکاوٹ بنے۔ ہمیں اپنے ذہن سے یہ نفرت انگیز تصور نکالنا ہوگا کہ کثرت ازدواج سامان عیاشی ہے اور عورت کو بھی سوچنا چاہیے کہ جس مرد پر وہ قبضہ کیے بیٹھی ہے اسکی زندگی کی ڈور تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور اگر اس کے
خالق نے اپنی یہ امانت اپنے پاس واپس بلا لی تو پھر اس عورت کا کیا بنے گا اور اگر بیس پچیس سال بعد اسی عورت کی اپنی بیٹی کو تختہ کی قلت کا مسئلہ درپیش ہوا تو پھر اسکو کیسا محسوس ہوگا۔ تمام بیویوں کو اس حالت کا تصور کر کے فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس راستے پر چلنا ہے۔ مرد کی دوسری شادی کی مخالفت میں مذہب کے اس اصول کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا کہ مرد انصاف نہیں کر سکے گا تو کیا ہم باقی زندگی میں بھی اتنی ہی شدت سے انصاف کے قائل ہیں یا صرف اسکو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں؟ اس حوالے سے ایک جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اگر انسان خلوصِ نیت سے کوشش کرے تو اللّٰہ کی رحمت اور برکت شامل ہوتی ہے اور بے شک اللّٰہ ہمارے اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ پھر ایک اور وجہ یہ بھی بنتی کہ آج کی لڑکی اگر اچھی تعلیم حاصل کر لے تو اس نے شادی کا معیار سترھویں سکیل کا مرد رکھ لیا یے گویا کہ شادی ایک باکردار اور نیک شخص سے زیادہ سٹیٹس سے کرنی ہو۔اسی انتظار و جستجو میں لڑکی کی عمر پینتیس سے چالیس سال ہو جاتی اور پھر باقی زندگی تکلیف و چڑچڑاپن کا نمونہ بن جاتی۔دوسری طرف آج کا مرد اور ھم سب بحیثیتِ قوم سہل پسندی و خودغرضی کا اتنا شکار ہو چکے کہ دینی و معاشرتی ذمہ داری کا بالکل احساس نہیں کرتے۔بہت سے ایسے صاحب استطاعت مرد بھی موجود ہیں کہ جو ہر طرح سے ایک سے زائد شادیاں بآسانی نبھا سکتے مگر دنیاوی عیاشیوں اور روایتی پابندیوں میں ایسے جکڑے ہوئے کہ کسی بڑھتی عمر والی لڑکی یا بیوہ کو ازدواجی زندگی دینا گوارہ نہیں کرتے۔ میں ایسی تمام بیٹیوں کے والدین سے معزرت کرتے ہوئے یہ کڑوی حقیقت بھی بیان کرنا چاہوں گا کہ بعض جگہوں پر ایسا بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر بیٹی نے کوئی ملازمت اختیار کر لی اور وہ گھر کا نظام چلا رہی تو اس بدنصیب کے اپنے سگے ہی اسکی شادی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں کہ اگر بیٹی کی شادی ہو گئی تو ہمارہ گھر کیسے چلے گا مگر روز محشر ایسے تمام لوگ اس معصوم بیٹی کے حق میں ضرور پکڑے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ اس وقت ہمارہ کوئی رہنما نہیں جو ھمیں صحیح راستے پر چلا سکے۔اس وقت کے وزیراعظم عمران خان صاحب نسلوں کی بہتری کی بات کرتے ہیں جیسا کہ وہ آجکل ماحولیاتی تبدیلیوں کا سدِباب کرنے کے لیے درخت لگا رہے، پانی کی کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیم بنا رہے اور شہروں کی منصوبہ بندی کر رہے تو انہیں اس معاشرتی مسئلہ کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے، اس حوالے سے ایک تازہ ہوا کا جھونکا آیا ہے جب اسلامی نظریاتی کونسل نے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت کی شرط کو غیر ضروری قرار دیا ہے لیکن پاکستان کا خاندانی قانون اس کے برعکس ہے جو کہ ایوب خان جیسے مغرب پرست نے بنایا تھا کہ مرد دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لے گا۔اب جب اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے آ چکی ہے تو حکومت وقت کو قانون میں ترمیم کر لینی چاہیے کیونکہ پاکستان کے دستور میں یہ نکتہ درج ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنے گا جو اسلام کی روح کے منافی ہو۔ اس وقت کی حکومت کو بیوہ عورتوں اور یتیموں کیلئے وظائف مقرر کرنے کے بجائے ان کا مستقبل محفوظ اور بہتر کرنے کے لیے انتظامات کرنے چاہئیں تاکہ بڑھتی ہوئی عمر والی لڑکیوں اور بیواؤں کو ازدواجی زندگی بھی میسر آ سکے اور معاشرتی تحفظ بھی فراہم ہو۔اس کے علاوہ بہت بڑی ذمہ داری ھمارے علماء، اساتذہ اور مبلغین پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے حصہ کا کردار ادا کریں اور مرد وعورت کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی قائل کریں کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے میں نکاح اور کثرتِ ازدواج کو آسان کیا جائے تا کہ کوئی بھی بہن بیٹی تنہائی جیسے کرب دار زندگی کے کنویں میں نہ گرے۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.