طالبان کی حکومت کیسی ہو گی؟
کہا جاتا ہے کہ تاریخ سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ تاریخ سے ہم کچھ نہیں سیکھتے،مگر یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ہم تاریخ سے سیکھنے سے باز نہیں آتے بلکہ ہم دوسروں کو باربارتاریخ سے سیکھنے کا درس بھی دیتے ہیں۔ تاریخ کے متعلق مائیکل برگنز نے ایک خیال افروز بات کہی ہے۔ ان کاارشاد ہے کہ ماضی کاعلم ہمیں حال کوسمجھنے میں مدد دیتا ہے، مگر حال کو سمجھتے ہوئے ماضی کے نئے مفہوم کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے آثار خاصے نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر نیا دن جہاں طالبان کی کامیابیوں کی خبر لے کرآتا ہے وہاں افغان حکومت کی پسپائی کے مناظر سے بھی ملاقات کراتا ہے۔
افغان صدر اشرف غنی افغان حکومت کی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں جنگجو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، مگر پاکستانی وزیراعظم انہیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اگر افغانستان میں امن نہیں ہوتا تو پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔ افغان جنگ میں 70ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں ارب ڈالر کامعیشت کو نقصان ہوا ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے اور دوسرے ہمسایہ ممالک کی نسبت اس نے افغان مہاجرین کو زیادہ سہولتیں اور آزادی دی ہے، مگر کابل میں گزشتہ دو عشروں سے کسی نہ کسی انداز میں پاکستان پر الزامات کی بارش ہوتی رہی ہے۔امریکی اور افغان اکثر اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی کو اپنی ضد نظر نہیں آتی ہے۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس میں انہیں زمینی حقائق دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ وہ اصرار کر رہے ہیں کہ اگر طالبان مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھ رہے ہیں اور ان کی خواہشات کے مطابق معاہدہ نہیں کر رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے ازبکستان میں انہیں یاد دلایا کہ جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹو افواج تھیں اور طالبان کے خلاف حملے ہو رہے تھے تو اس وقت تو کسی نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش نہیں کی، مگر اب جبکہ ان کے حوصلے بلند ہیں، وہ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں تو طالبان ان کے ساتھ کیوں بیٹھیں گے۔ طالبان تو ترکی کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ اس کے فوجی افغانستان سے نکل جائیں۔ طالبان کھل کر کہہ رہے ہیں کہ کسی غیر ملکی فوجی کو افغانستان کی سرزمین پر برداشت نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ امریکہ افغانستان کاسرپرست رہا ہے، مگر آج امریکی میڈیا انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے خبریں دے رہا ہے کہ طالبان کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ افغان سپاہی لڑے بغیر ہتھیار بھی ڈال رہے ہیں۔ ایک پاکستانی صحافی نے تو یہ حیرت انگیز خبر بھی دی ہے کہ بعض علاقوں میں یا تو انہیں کمانڈ کی طرف سے ہدایات نہیں مل رہی ہیں یا کمانڈ نے ان کے ساتھ رابط ختم کر دیا ہے۔ان حالات میں صدر اشرف غنی کے لئے نوشتہ دیوار پڑھنا مشکل نہیں ہے۔ طالبان کہتے تھے کہ افغانستان میں گھڑی امریکہ کے پاس ہے اور وقت ان کے پاس ہے، مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان وقت کے ساتھ ساتھ اس گھڑی پر بھی قبضہ کرنے والے ہیں۔ کیونکہ امریکہ تو افغانستان سے رخصت ہو گیا ہے۔وہ اب افغانستان کے معاملات میں ڈپلومیسی کا استعمال کرے گا اور اگر ناگزیر ہوا تو کسی حد تک مالی امداد کا آپشن اختیار کر سکتا ہے۔ امریکی فوجیں افغانستان کی سرزمین پر دوبارہ قدم رکھتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں۔
1856ء میں روس کو کریمیا میں شکست ہوئی۔ اس وقت اس کے جنرل بلارمبرگ نے کہا تھا کہ روس کا مستقبل یورپ میں نہیں ہے۔ اسے ایشیا کی طرف رخ کرنا چاہئے اور روس نے اس کے بعد وسطی ایشیا پر قبضے کرنا شروع کر دیئے۔ اس وقت یورپ میں سفید فام کی خود ساختہ ذمہ داری کا فلسفہ مقبول ہورہا تھا۔ اس وقت کے روسی وزیر خارجہ پرنس گورچا کوف نے نومبر 1864ء میں اپنے سفیروں کو ایک مراسلہ بھیجا۔ اس میں اس نے کہا کہ روس دنیا کو مہذب بنانے کے مشن پر ہے اور وحشی جنگجوؤں پر گرفت حاصل کر رہا ہے۔ روسی افواج نے 1866ء میں تاشقند پر، 1873ء میں جنیوا اور فرغانہ پر1876ء میں قبضہ کر لیا۔ اس پر یورپ میں کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔ مغربی دانشور اسے جاہل اقوام کو تہذیب یافتہ بنانے کی سفیدفام کی ذمہ داری سمجھ رہے تھے اور مغربی حلقے اِس لئے خوش تھے کہ زارروس عیسائیت کو سنٹرل ایشیا کے مسلمانوں کے پاس لے کر جا رہا ہے، مگر جب روس نے اپنے اقتدار کو آگے بڑھانا شروع کیا تو لندن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ برطانیہ نے ایران اور افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔ والٹرلپ مین نے اس خطے میں روسی اور برطانوی پالیسیوں کو جدید تاریخ میں تباہی کی گھٹیا ترین پالیسی قرار دیا تھا۔ برطانوی حکمران کیسے سوچ رہے تھے اس کا اندازہ اس برطانوی سفارت کار کی بات سے ہوتا ہے جو اس نے خیوا کے خان سے کہی تھی۔ اس نے کہا تھا ”ہمارا انڈیا ایک وسیع باغ ہے۔ ہم کسی اچانک واقعہ کے رونما ہونے کے خوف کی وجہ سے اس کے تحفظ کے لئے دیواریں کھڑی کرنا چاہتے ہیں اور یہ دیواریں خیوا، بخارا، ہرات اور کابل ہیں“۔ ایک دوسرے موقع پر ایک برطانوی حکمران نے کہا تھا کہ ہم افغانوں کو روسی نہیں بننے دیں گے ہم انہیں برٹش بنائیں گے۔ برطانیہ کی اس سوچ نے افغانستان میں بے شمار المیوں کوجنم دیا۔ مگر اسے اس خطے میں تاریخ ساز ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان کو روسی بنانے کی خواہش اور کوشش نے سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ امریکہ افغانستان کو چھوڑ کر جا رہا ہے۔ صدر بش بھی افغانستان کے معاملے میں جارج مارشل کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے تھے اور انہوں نے افغانستان کو تبدیل کرنے بلکہ کسی حد تک امریکی بنانے کے لئے خاصا سرمایہ بھی خرچ کیا، مگر پھر کسی سطح پر یہ محسوس کیا گیا کہ طالبان تو امریکی نہیں بن رہے ہیں، مگر امریکہ کے طالبان بننے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ابھی تک طالبان کے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق امریکہ، برطانیہ، چین اور دیگر ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔وہ چین کو افغانستان کا دوست قرار دے رہے ہیں تو امریکہ اور برطانیہ کے مالی امداد کے اشاروں پر بھی مخالفانہ ردعمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔یوں بھارت بھی طالبان کے ساتھ تعلقات کے راستے تلاش کر رہا ہے، مگر طالبان کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ روس، امریکہ اور برطانیہ افغانستان میں شکست کھا چکے ہیں۔ افغانستان میں امن قائم کرنے کے سلسلے میں کوئی بڑی امید وابستہ کرنا غلط ہو گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں طالبان کی حکومت کے متعلق تو تیار ہو چکی ہیں، مگر یہ حکومت کیسے ناکام ہو گی اس کے لئے منصوبہ بندی ہورہی ہے۔اس حکومت کو معاشی طور پر کیسے ناکام بنایا جائے۔ خانہ جنگی کو کیسے جاری رکھا جائے اور طالبان کو یہ باور کرایا جائے کہ گوریلا جنگ تو آسان ہوتی ہے۔ آپ وہاں نظر نہیں آتے، لیکن حکومت چلانا ایک کٹھن کام ہے، جس کے متعلق یہ تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ یہ طالبان کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔طالبان کس طرح متضاد خیالات کے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں؟ اس کا فیصلہ تو مستقبل کرے گا، مگر طالبان کی کامیابی کے بعد بھی راستہ کافی کٹھن اور دشوارگزار ہے، لیکن اگر افغان قیادت نے دانشمندی اور تحمل کا ثبوت نہ دیا تو افغان رہنما عبداللہ عبداللہ کی وہ وارننگ خاصی اہم ہو جائے گی جو انہوں نے واشنگٹن میں دی تھی کہ افغانستان کے ٹکرے ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تاریخ کا سب سے بھیانک واقعہ ہو گا۔