دیکھیے، کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ (3)
گروپ کے مطابق: آئے دن ہلاکتوں کے باوجود مقامی نوجوانوں میں ہتھیار اٹھانے کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی، اور عسکری تنظیموں کے اراکین میں بھی کوئی کمی نہیں ہو رہی ہے۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے مارٹر اورآتش گیر مواد سے مکانات کو زمین بوس کرنے کے نئے سلسلے نے عوامی ناراضی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ آج کل جس گھر میں بھی کسی عسکریت پسند کے ہونے کا کچھ بھی اندیشہ ہوتا ہے، سیکورٹی افواج اس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بناکر زمین بوس کردیتے ہیں۔ سول سوسائٹی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت نے اس گروپ کو بتایا کہ: چندبرس قبل تک کشمیری، مقبول بٹ اور افضل گورو کو اپنے گھروں سے دور تہاڑ جیل میں دفنانے پر ماتم کر رہے تھے، مگر اب کسی بھی عسکریت پسند کی لاش ان کے لواحقین کو نہیں دی جاتی، اور ان کو نامعلوم جگہوں پر دفنا دیا جاتا ہے۔
فوجی سربراہ جنرل منوج مکند نروانے، حال ہی میں سرینگر میں بتایا کہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عمل درآمد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں،مگر کیا صرف سرحدوں پر امن کے قیام سے اس پورے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے؟ کیا کشمیر میں عوام کا اعتماد اور بھروسا جیتنا ضروری نہیں ہے؟
کشمیر پر افواہوں کی یلغار یا کشمیریوں کا نفسیاتی قتل عام؟
اسی طرح پچھلے کئی ہفتوں سے کشمیر میں افواہوں کے بازار نے یہاں رہنے والوں کا سکھ چین چھین لیا ہے۔ لگتا ہے کہ دانستہ طور پر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر ی عوام کو مستقل عذاب میں مبتلا رکھ کے ان کو ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ ان افواہوں کا ماخذ خود مقامی حکومت ہی کے چندایسے اقدامات کے ساتھ ساتھ، دہلی اور جموں میں رہنے والے شدت پسند کشمیری پنڈتوں کا ایک اجتماع ہے۔ جہاں حال ہی میں کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانے اور ان کو فلسطینیوں کی طرح اپنے ہی گھروں میں بیگانہ کرنے کی تجویزیں پیش کی گئیں، برملا دہرائی گئیں اور افواہوں کی صورت میں پھیلائی گئیں۔ تقریباً300 مزید نیم فوجی دستوں کی کمپنیوں کی تعیناتی اور ان میں سے بیش تر کی شمالی کشمیر میں تعیناتی اور بھارتی فوج کی غیر معمولی نقل و حرکت نے پورے خطے میں اضطرابی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ہرکوئی دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ کیا کچھ بڑا ہونے والا ہے؟
شاید کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے، جہاں بسا اوقات یہ افواہیں سچ کا روپ بھی دھار لیتی ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ان افواہوں کے خاتمے کی یقین دہانی تو کرائی ہے،مگر 5اگست2019ء کو جب بھارتی آئین میں درج جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو کالعدم قراردینے کے بعد ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے مرکزی انتظام والا علاقہ بنایا گیا تھا، تو اس یلغار سے پہلے بھی کچھ اسی طرح کی افواہوں کا بازار گرم تھا۔ اس وقت بھی گورنر ستیہ پال ملک نے سیکورٹی یا سلامتی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات کو معمول کی کارروائی بتایا تھا۔ حتی کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹرفاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ (یعنی شیخ عبداللہ کے پوتے)نے دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی، جنھوں نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ دفعہ370، اور دیگر آئینی اقدامات پر کوئی قدم اٹھانے سے قبل کشمیر کی سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورہ کیا جائے گا۔ مگر سرینگر آنے کے تیسرے ہی دن ان کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس پس منظر اور تاریخ کی موجودگی میں اب موجودہ لیفٹنٹ گورنر کی یقین دہانی پر کتنا یقین کیا جائے؟
مئی کے آخری اور جون کے پہلے ہفتے کے دوران جاری ہونے والے پے در پے احکامات، جیسے سرینگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے نقل و حمل کے لئے راہداری پاس کی ضرورت، پولیس کی جانب سے ریلوے حکام کو وادی کے اندر چلنے والی ٹرین سروس کو معطل رکھنا، پولیس اسٹیشنوں سے 5اگست سے قبل اور اس کے بعد سیاسی شخصیات کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف کارروائیوں کا ریکارڈ مانگنا، جموں و کشمیر جماعت اسلامی اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنان اور ہمدردان کی تفصیلات کے علاوہ خطے میں سرگرم صحافیوں کا ریکارڈ مانگنا، وہ اقدامات ہیں کہ جن سے ان اندیشوں اور وسوسوں کو تقویت ملی ہے۔لوگوں میں اضطرابی کیفیت ہے، مگروہ یہ بھی کہتے ہیں دفعہ 370 اور 35اے کی صورت میں کشمیریوں کے پاس تن بدن کو برہنہ کرنے کے بعد بس ایک زیرجامہ ہی بچا تھا، جسے5 اگست2019ء کو تار تار کر دیا گیا۔ اب ان کے پاس کھونے کے لیے بچا ہی کیا ہے۔
پہلی افواہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا نام تبدیل کرکے اس کو جموں پردیش رکھا جائے گا، یعنی اس سے لفظ کشمیر حذف کر دیا جائے گا۔ مگر اس کی تو خود کشمیری پنڈت اور سخت گیر ہندو ہی مخالفت کریں گے۔ اس سے تو اس خطے کی ہندو اساطیری شخصیت کشپ رشی کے ساتھ نسبت ہی ختم ہو جائے گی، جس کا حوالہ دے کر کشمیر کو ہندوتوا کے وسیع ایجنڈے کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
دوسری افواہ یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے کئی اضلاع کو جموں کے ساتھ ملاکر، ایک علیحدہ صوبہ تشکیل دیا جائے گا۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں تقریباً 35فی صد مسلمان آباد ہیں اور جنوبی کشمیر کے اضلاع کے ساتھ ان کے الحاق کے نتیجے میں سے15سے20 لاکھ تک مزید مسلمان ساتھ مل جائیں گے۔ اس طرح یہ مسلم اکثریتی علاقہ بن جائے گا۔ فی الحال آر ایس ایس کی سرپرستی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت، ملک میں ایک اور مسلم اکثریتی صوبہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی علاقے پیر پنچال اور چناب ویلی پہلے ہی سے ہندو نسل پرستوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔حتیٰ کہ بھارت کے سیکولر رہنماوں نے بھی پچھلے برسوں سے ان علاقوں کو وادی کشمیر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان علاقوں کو پہلی بار2004ء کے بعد مفتی محمد سعید اور غلام نبی آزاد کے دورِ حکومت میں پونچھ اور شوپیاں کو ملانے والے مغل روڈ اور دیگر رابطوں کی تعمیرات نے ملانے کا کام کیا تھا۔
تیسری افواہ یہ ہے کہ شمالی کشمیر کو لداخ میں ضم کر کے ریاست لداخ قائم کی جائے اور کشمیر کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ قدم اٹھانے سے مجوزہ لداخ صوبہ میں 25لاکھ کے قریب آبادی کا اضافہ ہوگا اور یہ پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ یعنی وادی کشمیر کو تقسیم کرنے اور اس کو جموں اور لداخ میں ضم کرنے سے یہ دونوں خطے مسلم اکثریتی بن جائیں گے۔(جاری ہے)