تفہیم ِاقبال: گلشنِ راز (جدید) (2)
مثنوی”گلشن راز جدید“ میں نوسوالات کئے گئے ہیں اور اقبال نے ان کا جواب دیا ہے۔ ہر چند کہ ان سوالات و موضوعات کا تعلق عصرِ حاضر کی سیاسیات سے نہیں لیکن دورانِ مطالعہ سوال نمبر7میں اقبال نے ایک سوال کا جو جواب دیا اس میں جمہوری طرزِ حکمرانی کی مذمت جس انداز میں کی ہے۔وہ از بس قابل توجہ ہے…… سوال یہ ہے:
مسافر چوں بُود رہرو کدام است؟
کرا گوئم کہ او مردِ تمام است؟
(ترجمہ: کون مسافر ہے اور کون راہرو ہے اور مرد کامل کس کو کہا جائے؟)
اس سوال کا جواب اقبال نے 36اشعار میں دیا ہے: اس جواب کا پہلا شعر یہ ہے:
اگر چشمے کشائی بر دلِ خویش
درونِ سینہ بینی منزلِ خویش
(ترجمہ: اگر تو اپنے دل میں جھانک کر دیکھے تو تجھے اپنی منزل اپنے سینے ہی میں دیکھنے کو ملے گی) صوفیاء کے ہاں یہ کوئی انوکھا یا نیا موضوع نہیں۔ اقبال نے بھی اس کا ذکر کئی اردو اشعار میں کیا ہے۔ مثلاً: اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی، کے قبیل کے درجنوں اشعار ان کے اردو اور فارسی کلام میں ملتے ہیں۔ لیکن اس ”جواب“ کے آخری 10 اشعار امروزہ سیاست کے تناظر میں از حد توجہ طلب ہیں۔ ان کا ترجمہ درج ذیل ہے:
”افرنگ نے انسان کو جمہوری نظام دے کر گویا ایک دیو (شیطان) کے گلے سے رسہ کھول دیا ہے…… یہ جمہوری نظام ایک ایسا ساز ہے جس کی نوا بے زخمہ ہے اور ایک ایسا طیارہ ہے جو پرواز نہیں کر سکتا……جمہوریت کا باغ ایسا گلشن ہے جس سے ویرانہ بہتر ہے اور اس کے شہر سے بیابان خوب تر ہے…… ڈاکوؤں کی طرح یہ جمہوری نظام ہر وقت قافلوں کی لوٹ مار میں لگا رہتا ہے اور اس کا پیٹ ایک روٹی کے ٹکڑے کے لئے ہر آن دوڑ دھوپ کرتا رہتا ہے……اس کی روح سوئی ہوئی ہے او راس کا بدن جاگ رہا ہے اور اس کے تمام ہنر اور فن دین و دانش کے حوالے سے خوار و زبوں ہیں …… اس کی عقل کافری اور کافرگری کے سوا اور کچھ نہیں۔ افرنگ کا فن صرف انسانوں کو ہلاک کرنا اور ان کو چیرنا پھاڑنا ہے…… ایک گروہ دوسرے گروہ کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اگر اس کا وتیرہ یہی رہا تو اس کو خدا سمجھے…… میرا پیغام اہل مغرب کو پہنچا دیں کہ یہ جمہوری نظام اور اس کے جمہور ایک شمشیر بے نیام ہیں …… یہ ایک ایسی شمشیر ہے کہ جان کی قاتل ہے اور اسے مسلم و کافر کی کچھ تمیز نہیں …… یہ تلوار کبھی اپنی نیام میں نہیں جاتی، ہر دم برہنہ رہتی ہے۔ دوسروں کی جان بھی لیتی ہے اور خود اپنی جان کی دشمن بھی ہے“۔
ہم اٹھتے بیٹھتے کلامِ اقبال کے حوالے دیتے رہتے ہیں۔ لیکن حضرت علامہ نے جمہوریت کی مذمت میں درج بالا اشعار میں جو کچھ کہا ہے اس کو سیاسیات حاضرہ کے تناظر (Context) میں رکھ کر دیکھئے۔ اردو میں بھی اقبال نے اپنے کئی اشعار میں مغرب سے لئے گئے اس نظامِ حکمرانی کو دل کھول کر ”بُرا بھلا“ کہا ہے…… بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے…… دو سو گدھوں کا دماغ اکٹھا کرنے سے ایک انسان کا دماغ تشکیل نہیں پاتا۔ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب وغیرہ اشعار کو یاد کیجئے۔ آج ہمارا آئین اور قانون مغرب کے جمہوری نظام کا ”عطا کردہ“ ہے۔ کیا اس میں ریاستِ مدینہ کی کوئی ایک جھلک بھی ملتی ہے؟…… ہمیں سوچنا پڑے گا کہ اگر پاکستان نے اسلام کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن رہنا ہے تو کیا موجودہ بے لگام،قاتل، بے روح اور سفاک جمہوری نظام کی پابندی کرنی ہے یا اس اسلامی نظام کی جو ریاستِ مدینہ میں رائج تھا؟
برسبیلِ تذکرہ، ”مثنوی گلشنِ راز جدید“ کا منظوم اردو ترجمہ جناب شریف کنجا ہی مرحوم نے کیا تھا جو ان کی وفات (2007ء) سے 12برس پہلے 1995ء میں اقبال اکیڈمی کی طرف سے شائع کیاگیا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی کتاب ہے جس کا دیباچہ 8صفحات پر مشتمل ہے، ان صفحات کو پڑھنے کے بعد جناب شریف کنجاہی کے علم و فضل کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ پنجابی، انگریزی، فارسی اور اردو کے بے بدل عالم تھے۔ انہوں نے پنجابی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور ان سے بہت سی دوسری تصانیف بھی منسوب ہیں۔ یہاں چند الفاظ میں ان کے علمی اور ادبی قد کاٹھ کا ذکر ناممکن ہے۔
یہ کالم میں نے ارادتاً ایسے قارئین کے لئے لکھا ہے جو علامہ اقبال کے عرفانی مرتبے سے زیادہ آگاہ نہیں۔ میں خود کوششِ بسیار کے باوجود گلشنِ راز جدید کی اس چھوٹی سی مثنوی کے مضامین و مطالب سے زیادہ آگاہی نہیں پا سکا۔
اس مثنوی کے سوال نمبر7میں ”جمہوریت“ کے موضوع پر جو افکار پیش کئے گئے ہیں، ان کا ذکر سطورِ بالا میں کیاجا چکاہے۔ صرف درج ذیل دو اشعار پر خاتمہء کلام (کالم) کرتا ہوں جن میں علامہ کے فارسی اور جناب کنجاہی کے منظوم اردو ترجمے کا ذکر کیا گیا ہے:
فرنگ آئینِ جمہوری نہاد است
رسن از گردنِ دیوے کشاد است
(اقبال)
فرنگی نے ہمیں جمہوریت دی
کہ رسی، گردنِ شیطاں سے کھولی
(شریف کنجاہی)
زمن دہ اہلِ مغرب را پیامے
کہ جمہوراست تیغِ بے نیامے
(اقبال)
سنا دے غربیوں کو بات میری
کہ ہے جمہوریت تلوار ننگی
(شریف کنجاہی)
پاکستان سمیت بہت سے ملکوں میں آج جمہوریت کا ڈنکا بج رہا ہے لیکن آنے والے کل میں اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس کا انتظار کئی غیر جمہوری اقوام کو ہے۔
کالم کا خاتمہ کر چکا تو خیال آیا کہ حضرت شریف کنجاہی کے اس مثنوی (گلشنِ راز جدید) پر لکھے گئے تنقیدی (یا تشریحی) الفاظ کی ایک جھلک بھی اس کالم کے قارئین کو دکھا دوں …… وہ لکھتے ہیں:
”شیخ محمود شبستری کی مثنوی گلشنِ راز عرفانی ادب میں ”بقامت کہتر‘ اور ’بہ قیمت بہتر‘ کے مقام کی حامل ہے اور مصنف کی دوسری تصانیف سے زیادہ معروف و مقبول ہے۔
برصغیر میں اس کی مقبولیت میں اضافہ اس وقت ہوا جب علامہ اقبال نے اس سے متاثر ہو کر ’گلشن راز جدید‘ کے نام سے ایک مختصر سی مثنوی لکھی۔ اول الذکر مثنوی میں سوالات کی تعداد ثانی الذکر سے زیادہ ہے۔ اس کمی بیشی کا سبب دونوں کا بُعدِ مزاج ہی ہو سکتا ہے اور بُعدِ زمان بھی۔ نظر انداز کئے گئے سوالات وہی ہیں جن پر اظہارِ خیال کرنا شاید اقبال کے مزاج کے مطابق نہیں تھا اور عمرانی اور معاشرتی تبدیلی کے باعث وہ استعارات و اشارات بے تاثیر بلکہ غیرمفید ہو چکے تھے۔ دونوں کے مزاج کا اختلاف، مشترک سوالات کے جوابات میں بھی جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے عصری تقاضے تھے اور فکری ماحول سے متاثر ہونے کا اپنا اپنا انداز تھا جس میں اول الذکر زیادہ ثابت قدم رہے کہ اقبال بعد میں وحدت الوجود کے اعتزالی بن گئے تھے۔ پھر بھی وہ اس مثنوی کے اثرات تلے عمر بھر رہے“۔
اس پیراگراف کے بعد باقی دیباچے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس درجہ معلوماتی لیکن مشکل بھی ہوگا۔(ختم شد)